فیکٹ چیک:اے آئی پر مبنی ویڈیو میں جسٹس منصور علی شاہ کی فوج سے وفاداری کے عہد سے متعلق جھوٹا دعویٰ
اے آئی تباہی بھی لاسکتا ہے, اے آئی پر مبنی ویڈیو میں جسٹس منصور علی شاہ کی فوج سے وفاداری کے عہد سے متعلق جھوٹا دعویٰ سامنے آگیا, ویڈیو میں جسٹس منصور علی شاہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا کہ اگر انہیں ملک کا چیف جسٹس بنایا گیا تو وہ فوج یا ریاست کے خلاف فیصلے نہیں دیں گے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو رہا ہے جس میں مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کو یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ اگر انہیں چیف جسٹس بنایا گیا تو وہ فوج یا ریاست کے خلاف فیصلے نہیں دیں گے۔ویڈیو کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI)کے ٹولز کا استعمال کرکے تیار کیا گیا ہے۔
21 اکتوبر کوپر ایک صارف نے جسٹس منصور علی شاہ کی 34 سیکنڈ کی مبینہ ویڈیو اس کیپشن کے ساتھ شیئر کی, ویڈیو میں جسٹس منصور علی شاہ کومبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن تحریک انصاف ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہی ہے تاکہ انہیں فوج اور ریاست مخالف ثابت کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا جبکہ ایسی کسی بھی بات کا حقیقت یا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں،میں نے کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی اور نہ ہی کرونگا، میں اس بات پر حلف دینے کو تیار ہوں کہ اگر مجھے چیف جسٹس بنایا جاتا ہے تو میں اپنے عہدے کا پاس رکھوں گا، کبھی ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں جاوں گا,اس آرٹیکل کے شائع ہونے تک، یہ پوسٹ 31 ہزار سے زائد بار دیکھی جا چکی ہے اور تقریباً 200 مرتبہ شیئر کی گئی ہے۔
یہ ویڈیو من گھڑت ہے اور عوامی طور پر دستیاب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر جج نے ایسا کوئی ویڈیو پیغام ریکارڈ یا جاری نہیں کیا۔
اسلام آباد میں قائم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی (MMfD) کے بانی اسد بیگ نے کہا ایک بہت ہی بنیادی بصری تجزیہ کے ذریعے کوئی بھی اس بات کا پتہ لگا سکتا ہے کہ زیر بحث ویڈیو من گھڑت ہے جسے جوڑ کر بنایا گیا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ کی عوامی طور پر دستیاب کا استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی ہے جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ چہرے کی خصوصیات اور مسخ شدہ تقریر ابھری ہوئی تصاویر پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ، سپریم کورٹ آف پاکستان کے تعلقات عامہ کے افسر شاہد حسین کمبویو نے فون پر جیو فیکٹ چیک سے تصدیق کی کہ یہ ویڈیو ”فیک“ ہے۔
ڈیپ فیک میں استعمال کی جانے والی تصویر لاہور ہائی کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ سے لی گئی ہے، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔