ustadjejanab
Chief Minister (5k+ posts)
میں آپ کے ساتھ ھوں. پہلا پتھر مجھے دیجئے.
لیکن سنگ باری کرنے سے ذرا پہلے اک بار انہیں یاد کر لیجیے جو سیاچن کے برف پوش پہاڑوں میں بیس ہزار فٹ کی بلندی پر منفی پچاس کی ہڈیوں کو گلا دینے والی سردی میں رات کے تیسرے پہر اس لئے جاگ رھے ہیں تا کہ ہم آرام کی نیند سو سکیں ...انہی میں وہ بھی تھے جو چند مہینے پہلے اسی طرح کی ایک گھپ اندھیری رات میں برفانی تودے کے نیچے دبے اکھڑتی سانسیں لیتے اپنی طرف دھیرے دھیرے بڑھتی موت کا انتظار کر رھے تھے.
ان کا تصور ذھن میں لائیے جو اپنے سے پانچ گنا فوج سے اس بے جگری سے لڑے کہ دشمن جنرل کو واپس جا کر میس میں بیٹھے اپنے ساتھیوں کو سرگوشیوں میں ان سپاہیوں کی لازوال جرات کے قصے سنانا پڑے ،،،وہ جو رینگتے ھوے ٹینکوں کے نیچے جا لیٹے، وہ جو ہاتھ میں چاقو پکڑے دشمنوں کے بنکروں میں گھس گۓ، وہ جو ایک ادنیٰ درجہ کے طیارے سے پانچ جدید ترین طیاروں کا تن تنہا مقابلہ کرتا رہا ، وہ جس نے اپنے ہاتھوں سے جہاز کا رخ زمین کی طرف موڑ دیا تاکہ قومی راز دشمن کے ہاتھ نہ لگ سکیں . وہ جس نے چھبیس گھنٹے مسلسل لڑنے کے بعد توپ کا گولہ سینے پر کھایا ...وہ وقت جب دیو ہیکل ٹینک بے بس ھوے ، فضاؤں میں چیختی چنگھاڑتی شعلے اگلتی توپیں خاموش ہوئیں، فضاؤں میں قیامت خیز ہنگامے بپا کرنے والے بمباروں کو زمین کی خاک چاٹنا پڑی.
ان کے بارے میں ذرا سوچیے جو وزیرستان کے پہاڑوں میں ، تھر کے ریگیستانوں میں اور کشمیر کے پہاڑوں میں اپنے بھایوں ، بہنوں ، بیوی ، بچوں سے ہزاروں میل دور کھڑے اس وطن پاک کے چپے چپے کی حفاظت کر رھے ہیں . .افغانستان کی سرحد کی ایک چوکی پر مامور وہ سنتری جس نے اپنا کفن پہلے سے سلوا کر اس وجہ سے رکھا ہوا ہے کے اسے اپنی شہادت کا سو فیصد یقین ھے لیکن ملک کی محبت کا جذبہ موت کے خوف سے کہیں بڑھ کر مظبوط ھے ..عید والے دن جب آپ لاہور میں کھڑے چمن آئس کریم کھا رھے تھے ، وہ اس وقت بھی کسی نامعلوم سمت سے آنے والی گولی کا انتظار کر رہا تھا..
جی ہاں، میں آپ کے ساتھ ھوں ہر اس شخص کی سرکوبی کے لئے جو میرے وطن کو نوچ رہا
ھے ، چاھے وہ فوجی ہو ، سیاستدان ، جج یا صحافی ...لیکن خدا را پورے ادارے کو تو گالی
نہ دیجئے ...جس نے لوٹا ، جس نے کرپشن کی اس کو گردن سے پکڑیے ، گلیوں میں
گھسٹیے..فوج تنقید سے بلا تر نہیں ، ہرگز نہیں لیکن فقط وہ جو آپ کے پتھر کے حقیقی حقدار ہیں .
لائیے ، پہلا پتھر مجھے دیجئے
لیکن سنگ باری کرنے سے ذرا پہلے اک بار انہیں یاد کر لیجیے جو سیاچن کے برف پوش پہاڑوں میں بیس ہزار فٹ کی بلندی پر منفی پچاس کی ہڈیوں کو گلا دینے والی سردی میں رات کے تیسرے پہر اس لئے جاگ رھے ہیں تا کہ ہم آرام کی نیند سو سکیں ...انہی میں وہ بھی تھے جو چند مہینے پہلے اسی طرح کی ایک گھپ اندھیری رات میں برفانی تودے کے نیچے دبے اکھڑتی سانسیں لیتے اپنی طرف دھیرے دھیرے بڑھتی موت کا انتظار کر رھے تھے.
ان کا تصور ذھن میں لائیے جو اپنے سے پانچ گنا فوج سے اس بے جگری سے لڑے کہ دشمن جنرل کو واپس جا کر میس میں بیٹھے اپنے ساتھیوں کو سرگوشیوں میں ان سپاہیوں کی لازوال جرات کے قصے سنانا پڑے ،،،وہ جو رینگتے ھوے ٹینکوں کے نیچے جا لیٹے، وہ جو ہاتھ میں چاقو پکڑے دشمنوں کے بنکروں میں گھس گۓ، وہ جو ایک ادنیٰ درجہ کے طیارے سے پانچ جدید ترین طیاروں کا تن تنہا مقابلہ کرتا رہا ، وہ جس نے اپنے ہاتھوں سے جہاز کا رخ زمین کی طرف موڑ دیا تاکہ قومی راز دشمن کے ہاتھ نہ لگ سکیں . وہ جس نے چھبیس گھنٹے مسلسل لڑنے کے بعد توپ کا گولہ سینے پر کھایا ...وہ وقت جب دیو ہیکل ٹینک بے بس ھوے ، فضاؤں میں چیختی چنگھاڑتی شعلے اگلتی توپیں خاموش ہوئیں، فضاؤں میں قیامت خیز ہنگامے بپا کرنے والے بمباروں کو زمین کی خاک چاٹنا پڑی.
ان کے بارے میں ذرا سوچیے جو وزیرستان کے پہاڑوں میں ، تھر کے ریگیستانوں میں اور کشمیر کے پہاڑوں میں اپنے بھایوں ، بہنوں ، بیوی ، بچوں سے ہزاروں میل دور کھڑے اس وطن پاک کے چپے چپے کی حفاظت کر رھے ہیں . .افغانستان کی سرحد کی ایک چوکی پر مامور وہ سنتری جس نے اپنا کفن پہلے سے سلوا کر اس وجہ سے رکھا ہوا ہے کے اسے اپنی شہادت کا سو فیصد یقین ھے لیکن ملک کی محبت کا جذبہ موت کے خوف سے کہیں بڑھ کر مظبوط ھے ..عید والے دن جب آپ لاہور میں کھڑے چمن آئس کریم کھا رھے تھے ، وہ اس وقت بھی کسی نامعلوم سمت سے آنے والی گولی کا انتظار کر رہا تھا..
جی ہاں، میں آپ کے ساتھ ھوں ہر اس شخص کی سرکوبی کے لئے جو میرے وطن کو نوچ رہا
ھے ، چاھے وہ فوجی ہو ، سیاستدان ، جج یا صحافی ...لیکن خدا را پورے ادارے کو تو گالی
نہ دیجئے ...جس نے لوٹا ، جس نے کرپشن کی اس کو گردن سے پکڑیے ، گلیوں میں
گھسٹیے..فوج تنقید سے بلا تر نہیں ، ہرگز نہیں لیکن فقط وہ جو آپ کے پتھر کے حقیقی حقدار ہیں .
لائیے ، پہلا پتھر مجھے دیجئے