فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس کا فیصلہ محفوظ،

battery low

Chief Minister (5k+ posts)
بریکنگ۔۔!! فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس کا فیصلہ محفوظ، اسی ہفتے سنایا جائے گا


جناح ہائوس حملہ: کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے ہیں؟جسٹس نعیم اختر افغان کا سوال۔۔!!

کیا جناح ہائوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟، اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، جسٹس مسرت ہلالی

https://twitter.com/x/status/1919307059599708482
**سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ محفوظ فیصلہ اسی ہفتے سنا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ شارٹ آرڈر اسی ہفتے میں جاری کریں گے۔

سماعت کے دوران حساس قانونی نکات، 9 مئی کے واقعات، فوجی افسران کی سزاؤں اور آئینی و فوجی اختیارات پر گرما گرم بحث ہوئی۔**

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا اور 9 مئی کے ملک گیر پرتشدد واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 9 مئی کو دن تین بجے سے شام تک ملک بھر میں 39 مقامات پر حملے ہوئے، جن میں جی ایچ کیو، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس، ایئر بیس میانوالی اور آئی ایس آئی کے دفاتر شامل ہیں۔ پنجاب میں 23، خیبر پختونخوا میں 8، سندھ میں 7 جبکہ بلوچستان میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے اتفاقیہ نہیں تھے، بلکہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے، اور اگر اس روز لاہور پر بیرونی جارحیت ہوتی تو ہم جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا فوج نے اپنے کسی افسر کے خلاف فوجداری کارروائی کی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کور کمانڈر لاہور سمیت تین اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن کے ریٹائر کیا گیا جبکہ 14 افسران کی کارکردگی پر ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ تو واضح کرتا ہے کہ محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی دی جاتی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو تنبیہ کی کہ وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 9 مئی واقعے کے میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی کیونکہ اس سے ٹرائل اور اپیل پر اثر پڑے گا، اور کچھ سوالات کے جوابات شاید ممکن نہ ہوں، جیسے کیا کور کمانڈر لاہور بطور گواہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہوئے؟

عدالت نے اس موقع پر آرمی ایکٹ میں ترامیم، اپیلوں کے طریقہ کار اور فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی جبکہ آئین میں 26ویں ترمیم ہو چکی ہے؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں ہو پاتی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 86 افراد اب تک اپیلیں دائر کر چکے ہیں جبکہ باقی مجرمان کو اپیل کے لیے وقت میں نرمی دی جائے گی۔ انہوں نے عدالت سے وقت کی کمی پر شکایت کرتے ہوئے کہا کہ آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے، جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات میں گزر گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ نہیں کہ جرم ہوا یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ اپیل کا جواز کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جناح ہاؤس کا دروازہ کیسے کھلا؟ اگر اندر سے کھولا گیا تو ملی بھگت کا پہلو بنتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس پہلو پر وضاحت بعد میں پیش کریں گے۔

دلائل مکمل ہونے کے بعد بینچ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ اسے اسی ہفتے سنا دیا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپیل کا حق دینے کیلئے سپریم کورٹ کا آئینی بنچ آبزرویشن دے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے، اس کیلئے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس فیصلے میں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔

Source


 

Back
Top