
ملک میں اس وقت معیشت غیر متوازن ہے، گرتی معیشت سے مشکلات میں اضافہ ہورہاہے، ملک کو بیرونی مدد کی ضرورت ہے، ایسے میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ کوئی بھی دوست ملک پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اس کی معیشت غیر متوازن ہے،جس کی بنیادی وجہ درآمدات اور برآمدات میں بڑا فرق ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت نے برآمدات اور درآمدات کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے ان مینوفیکچرنگ صنعتوں پر ٹیکس عائد کیا ، جن کا برآمدات میں کوئی حصہ نہیں تھا، اس کے علاوہ تاجروں اور بلڈرز سمیت دیگر ایسے کئی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے نجی صحت کی سہولت کے دورے کے دوران کاروباری برادری، معروف کمپنیوں کے سی ای اوز، مالیاتی اور قانونی ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کر میں کہا کہ ایک ملک کیا کر سکتا ہے جب مختلف اشیا کی درآمد پر پابندی کے اقدامات کے باوجود اس کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے جو کہ اب 80 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، دوسری طرف ہماری برآمدات سے صرف 30 ارب ڈالر مل رہے ہیں۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم نے برآمدات میں صفر شراکت رکھنے والے مینوفیکچررز پر 5 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی وجہ سے برآمدات شروع کریں گے اور درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں گے،جب پاکستان سے کوئی بھی چیز برآمد کی جا سکتی ہے تو پھر ہمارا مینوفیکچرنگ سیکٹر اس طرف کیوں نہیں جا رہا؟
وفاقی وزیر نے کہا کہ دکانداروں سے 41 ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا منصوبہ تھا، بعد میں، کچھ مسائل کی وجہ سے اس میں تبدیلی کی گئی اور اس میں تین قسم کے فکسڈ ٹیکسز، 3 ہزار، 5 ہزار اور 10 ہزار روپے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے ذریعے ہم ابتدائی طور پر اس شعبے سے 27 ارب روپے اکٹھے کریں گے۔
وزیر خزانہ نے تاجر برادری کو یقین دلایا کہ آئندہ کیلنڈر سال کے لیے سپر ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، انہوں نے تاجروں سے سیلاب متاثرین کی مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ شرکا اپنی آمدنی کا ایک فیصد عطیہ کرکے سیلاب زدگان کی مدد کریں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/jioc11y1y.jpg