Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
شاہ نواز فاروقی
ہماری زندگی کا عام تجربہ ہے کہ جیسے ہی کہیں دوچار لوگ جمع ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست ”غیبت کانفرنس“ منعقد ہونے لگتی ہے۔ ایسی غیبت کانفرنسوں کا معاملہ عجیب ہوتا ہے۔ ان میں شریک ہر شخص غیبت کانفرنس کا سامع بھی ہوتا ہے اور اس کا صدر بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ غیبت کانفرنس میں شریک لوگوں کے لیے غیبت کرنے میں بھی لطف ہوتا ہے اور اس کی سماعت میں بھی۔
اکثر لوگ غیبت میں اس شدت سے شریک ہوتے ہیں کہ ان کی غیبت میں ایک ”عالمانہ شان“ پیدا ہوجاتی ہے اور اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے غیبت کرنے والا ابھی ابھی آکسفورڈ یا ہارورڈ سے غیبت میں پی ایچ ڈی کرکے لوٹا ہے۔ بعض رجحانات طبقاتی ہوتے ہیں۔ یعنی ان کا اثر کسی خاص طبقے میں زیادہ ہوتا ہی، لیکن غیبت کے دائرے میں سب ”مساوی“ ہیں۔ اس سلسلے میں امیر اور غریب کی کوئی تخصیص نہیں، عالم اور جاہل میں کوئی فرق نہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں تک کہ مرد اور عورت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ بلاشبہ عورتیں غیبت میں زیادہ ملوث ہوتی ہیں لیکن مرد بھی اس غیبت کے فن میں اتنی اہلیت پیدا کرچکے ہیں کہ غیبت کے شعبے میں خواتین کے ”شانہ بشانہ“ جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ منظرنامہ کئی اعتبار سے حیران کن ہے۔ آپ کسی مسلمان کے سامنے سور کے گوشت کا ذکر بھی کردیں تو اس کی طبیعت متلانے لگتی ہے۔ لیکن قرآن مجید نے کہا ہے کہ غیبت کا عمل اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے۔ تاہم لوگوں کی طبیعت جس طرح سور کے گوشت سے ابا کرتی ہے اس طرح مُردہ بھائی کے گوشت سے ابا نہیں کرتی۔ آپ کسی مسلمان سے زنا کا ذکرکریں تو وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا، لیکن حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو زنا سے زیادہ اشد یا شدید کہا ہی، تاہم ہم غیبت پر چونکتے تک نہیں۔ اس صورت حال نے غیبت کو ہمارا کلچر بنادیا ہے۔ یعنی غیبت ہمارے لیے ”اسلوبِ حیات“ بن گئی ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو زنا سے زیادہ شدید کیوں فرمایا ہی؟ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غیبت کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ کیوں دی ہی؟ غورکیا جائے تو زنا صرف عصمت کی پامالی ہے لیکن غیبت پورے انسانی وجود کی پامالی ہے۔ تاہم ہم زنا کو شدید سمجھتے ہیں اور غیبت پرچونکتے تک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہی؟ اس کا سبب یہ ہے کہ زنا ایک خارجی عمل ہے اور غیبت ایک باطنی عمل۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہی؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذہب کو خارج میں تو پہچانتے ہیں لیکن باطن میں نہیں پہچانتے۔ یہ صورت حال ہماری ظاہر پرستی اور باطن سے غفلت کا ایک مظہر ہے۔ قرآن مجید میں غیبت کی ہولناکی کو نمایاں کرنے کے لیے غیبت کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے اس لیے تشبیہہ دی گئی ہے کہ غیبت ایک یک سطحی‘ یک جہتی یا Single Dimensional عمل نہیں ہے۔ غیبت میں جھوٹ‘ بہتان‘ عیاری‘ مکاری‘ بے حسی غرضیکہ بہت سی برائیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ کہنے کو غیبت ایک لفظی عمل ہی، لیکن یہ نفسیاتی قتل ہی، جذباتی قتل ہی، ذہنی قتل ہے۔
تاہم قتل کی عام واردات میں مقتول قاتل کی مزاحمت کرسکتا ہی، اپنا دفاع کرسکتا ہی، لیکن غیبت کے عمل میں مقتول اپنے قتل سے لاعلم ہوتا ہی، وہ اپنے دفاع کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ یہ چیزیں غیبت کی ہولناکی کو بہت بڑھا دیتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقانِ حمید نے غیبت کی کراہیت کو شدت سے بیان کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ہم غیبت کرتے ہی کیوں ہیں اور غیبت کا رجحان بڑھ کیوں رہا ہی؟ غیبت کا انسان کے ”تصورِ ذات“ سے گہرا تعلق ہے۔ انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہی، لیکن وہ صرف اپنی برتری کے احساس پر قانع نہیں ہوجاتا، وہ اپنی برتری کو دوسروں کی کمتری سے ظاہر اور ثابت کرتا ہے۔ یہی چیز اسے دوسروں کی برائی پر اکساتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان دوسروں کی غیبت پر کھڑا ہوکر اپنا قد بلند کرتا ہے۔ یہ عمل غیبت کو انسان کے لیے لذیذ اور مرغوب بناتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت انسان کی خودپسندی کا شاخسانہ ہی، اور خودپسندی شیطان کا ورثہ ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو غیبت کے رجحان میں اس لیے اضافہ ہورہا ہے کہ ہمارے ماحول میں خودپسندی کو فروغ دینے والے عوامل بڑھ رہے ہیں۔ جو عالمی کلچر ہم پر مسلط ہے اس میں انفرادیت پسندی بڑھ رہی ہی، نفس کے تزکیے کے امکانات معدوم نہیں تو محدود ضرور ہوگئے ہیں۔ اب ”دوسرا“ ہمارے وجود کی توسیع نہیں اس کی ضد ہے۔ ”دوسرا“ ہمارا حریف بلکہ ہمارا دشمن ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان خود کو دوسروں سے کمتر سمجھے۔ نظری طورپر نہیں عملاً.... تصوراتی سطح پر نہیں وجودی سطح پر۔ انسان اگر خود کو دوسروں سے کم تر سمجھنے لگے تو وہ پھر دوسروں کی تعریف کرے گا، ان کی مذمت نہیں۔ ان میں کمال تلاش کرے گا، زوال نہیں۔ اسلام انسان کی تکریم کی ایک ایسی بلند سطح متعین کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اسلام انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسانی جان کی حرمت سب سے بڑھ کر ہے۔ مولانا رومؒ نے کہا ہے کہ تہذیب کی اصل انسان کی تکریم ہے۔ ہمارے صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ انسان کائناتِ اصغر یعنی چھوٹی کائنات ہے۔ یعنی وہ اس وسیع وعریض کائنات کا خلاصہ ہے۔ اسلامی تہذیب کا یہ تصورِ انسان اگر کسی کے دل و دماغ پر رتی برابر بھی اثرانداز ہو تو وہ کسی دوسرے انسان کی عدم موجودگی میں اس کی برائی نہیں کرے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کا غماز ہے کہ ہم اسلام کے تصورِِ انسان کو یکسر فراموش کربیٹھے ہیں۔ ہماری نظر میں اپنی کوئی تکریم ہے اور نہ دوسرے کی۔ ہمارے ذہنوں پر انسان کا یہ تصور غالب آگیا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور بس۔ چونکہ ہم زیادہ سے زیادہ اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ ہم ایک سماجی حیوان ہیں اس لیے ہمارے معاملات میں حیوانیت بڑھتی جارہی ہے۔
غیبت کے مزید تین محرکات کو خواتین کے حوالے سے سمجھا اور بیان کیا جاسکتا ہے جن میں غیبت کا رجحان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ کائنات کے بنیادی اصول دو ہیں: وحدت اور کثرت ۔ مرد وحدت کی علامت ہے اور عورت کثرت کی علامت۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی میں مرد کی دلچسپی کلّیات یا Fundamentals سے ہوتی ہے اور عورت کی فطرت جزیات کی طرف راغب ہوتی ہے۔ لیکن جب جزیات پسندی منفی قوت بن جاتی ہے تو وہ آسانی کے ساتھ غیبت میں ڈھل جاتی ہی، کیونکہ غیبت نفسیاتی سطح پر بال کی کھال اتارنے‘ گڑے مُردے اکھاڑنے اور ایک برائی کو ایک ہزار برائیوں میں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مردوں میں غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امرکا ثبوت ہے کہ مردوں کی فطرت میں جزیات پسندی درآئی ہی، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کی بہت بڑی تعداد پر نسائی رجحان کا غلبہ ہوگیا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مغرب میں اور اس کے زیراثر ہمارے یہاں بھی عورتیں مرد بنتی جارہی ہیں اسی طرح مردوں میں ایک طرح کا ”عورت پن“ نمودار ہورہاہے۔ مردوںکے مقابلے پر عورتیں زیادہ ”باتونی“ ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ ہے۔ لڑکیوں میں زبان سیکھنے کی صلاحیت لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکیاں لڑکوں سے بہت پہلے بولنے لگتی ہیں۔ لیکن لڑکیوں کی زبان کا سانچہ گہرا نہیں ہوتا۔ لڑکیوں کی زبان جذبات اور احساسات سے بلند نہیں ہوپاتی۔
چنانچہ ان کی زبان میں ایک طرح کی خودکاریت یا Automation پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس لڑکے دیر میں زبان سیکھتے ہیں لیکن ان کی زبان کا سانچہ گہرا ہوتا ہے اور اس میں تفکر اور تعقل کی صلاحیت لڑکیوں کے مقابلے پر زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ لڑکوں کی زبان میں خودکاریت یا Automation کم ہوتی ہے۔ خواتین کی یہی خودکاریت انہیں مردوں کے مقابلے میں غیبت کا زیادہ عادی بناتی ہے۔ لیکن فی زمانہ مردوں کا لسانی سانچہ بھی سطحی اور سرسری ہوتا جارہا ہے اور ان کی زبان بھی جذبات اور احساسات سے زیادہ مغلوب ہورہی ہے اور اس پر شعور کی گرفت کمزور پڑرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کی زبان میں بھی خودکاریت درآئی ہے اور وہ بھی غیبت پیدا کرنے والی مشین بن گئے ہیں۔ ہمارے تہذیبی نظام میں مردوں کی فکری اور سماجی کائنات بہت وسیع ہے۔
اس کے مقابلے پر خواتین کی فکری اور سماجی زندگی محدود تھی۔ زندگی کا تجربہ ہے کہ فکرو نظر کی وسعت انسانوں کو بہت سے پست رجحانات سے بلند کردیتی ہے۔ غیبت بھی ایک ایسا ہی رجحان تھا جس میں کبھی مرد حضرات کم کم ملوث ہوتے تھے۔ اس کے برعکس خواتین کی محدود زندگی کا جبر انہیں غیبت جیسے رجحانات کی طرف دھکیل دیتا تھا اورآج بھی دھکیل دیتا ہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ مردوں کی فکری اور سماجی کائنات بھی سکڑ سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ان کے وقت کا بیشتر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوجاتا ہے۔ باقی وقت انفرادی یا خاندانی زندگی میں صرف ہوتا ہے۔ اس زندگی کی نہ کوئی فکری جہت ہے نہ نظریاتی بنیاد ہے۔ اس زندگی میں نہ کوئی اجتماعیت ہے نہ بین الاقوامیت اور آفاقیت۔ چنانچہ لوگوں کی دلچسپیوں اور ذوق کی سطح بھی انتہائی پست ہوگئی ہے اور انہیں پست چیزوں ہی میں لطف آنے لگا ہے۔ ان میں ایک پست چیز غیبت ہے جس کی ہماری زندگی میں یہ اہمیت ہے کہ وہ ہمیں منفی معنوں میں لوگوں سے جوڑے رکھتی ہے اور اس کے ذریعے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا بھی دوسروں سے تعلق ہے۔
ہماری زندگی کا عام تجربہ ہے کہ جیسے ہی کہیں دوچار لوگ جمع ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست ”غیبت کانفرنس“ منعقد ہونے لگتی ہے۔ ایسی غیبت کانفرنسوں کا معاملہ عجیب ہوتا ہے۔ ان میں شریک ہر شخص غیبت کانفرنس کا سامع بھی ہوتا ہے اور اس کا صدر بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ غیبت کانفرنس میں شریک لوگوں کے لیے غیبت کرنے میں بھی لطف ہوتا ہے اور اس کی سماعت میں بھی۔
اکثر لوگ غیبت میں اس شدت سے شریک ہوتے ہیں کہ ان کی غیبت میں ایک ”عالمانہ شان“ پیدا ہوجاتی ہے اور اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے غیبت کرنے والا ابھی ابھی آکسفورڈ یا ہارورڈ سے غیبت میں پی ایچ ڈی کرکے لوٹا ہے۔ بعض رجحانات طبقاتی ہوتے ہیں۔ یعنی ان کا اثر کسی خاص طبقے میں زیادہ ہوتا ہی، لیکن غیبت کے دائرے میں سب ”مساوی“ ہیں۔ اس سلسلے میں امیر اور غریب کی کوئی تخصیص نہیں، عالم اور جاہل میں کوئی فرق نہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں تک کہ مرد اور عورت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ بلاشبہ عورتیں غیبت میں زیادہ ملوث ہوتی ہیں لیکن مرد بھی اس غیبت کے فن میں اتنی اہلیت پیدا کرچکے ہیں کہ غیبت کے شعبے میں خواتین کے ”شانہ بشانہ“ جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ منظرنامہ کئی اعتبار سے حیران کن ہے۔ آپ کسی مسلمان کے سامنے سور کے گوشت کا ذکر بھی کردیں تو اس کی طبیعت متلانے لگتی ہے۔ لیکن قرآن مجید نے کہا ہے کہ غیبت کا عمل اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے۔ تاہم لوگوں کی طبیعت جس طرح سور کے گوشت سے ابا کرتی ہے اس طرح مُردہ بھائی کے گوشت سے ابا نہیں کرتی۔ آپ کسی مسلمان سے زنا کا ذکرکریں تو وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا، لیکن حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو زنا سے زیادہ اشد یا شدید کہا ہی، تاہم ہم غیبت پر چونکتے تک نہیں۔ اس صورت حال نے غیبت کو ہمارا کلچر بنادیا ہے۔ یعنی غیبت ہمارے لیے ”اسلوبِ حیات“ بن گئی ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو زنا سے زیادہ شدید کیوں فرمایا ہی؟ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غیبت کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ کیوں دی ہی؟ غورکیا جائے تو زنا صرف عصمت کی پامالی ہے لیکن غیبت پورے انسانی وجود کی پامالی ہے۔ تاہم ہم زنا کو شدید سمجھتے ہیں اور غیبت پرچونکتے تک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہی؟ اس کا سبب یہ ہے کہ زنا ایک خارجی عمل ہے اور غیبت ایک باطنی عمل۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہی؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذہب کو خارج میں تو پہچانتے ہیں لیکن باطن میں نہیں پہچانتے۔ یہ صورت حال ہماری ظاہر پرستی اور باطن سے غفلت کا ایک مظہر ہے۔ قرآن مجید میں غیبت کی ہولناکی کو نمایاں کرنے کے لیے غیبت کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے اس لیے تشبیہہ دی گئی ہے کہ غیبت ایک یک سطحی‘ یک جہتی یا Single Dimensional عمل نہیں ہے۔ غیبت میں جھوٹ‘ بہتان‘ عیاری‘ مکاری‘ بے حسی غرضیکہ بہت سی برائیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ کہنے کو غیبت ایک لفظی عمل ہی، لیکن یہ نفسیاتی قتل ہی، جذباتی قتل ہی، ذہنی قتل ہے۔
تاہم قتل کی عام واردات میں مقتول قاتل کی مزاحمت کرسکتا ہی، اپنا دفاع کرسکتا ہی، لیکن غیبت کے عمل میں مقتول اپنے قتل سے لاعلم ہوتا ہی، وہ اپنے دفاع کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ یہ چیزیں غیبت کی ہولناکی کو بہت بڑھا دیتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقانِ حمید نے غیبت کی کراہیت کو شدت سے بیان کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ہم غیبت کرتے ہی کیوں ہیں اور غیبت کا رجحان بڑھ کیوں رہا ہی؟ غیبت کا انسان کے ”تصورِ ذات“ سے گہرا تعلق ہے۔ انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہی، لیکن وہ صرف اپنی برتری کے احساس پر قانع نہیں ہوجاتا، وہ اپنی برتری کو دوسروں کی کمتری سے ظاہر اور ثابت کرتا ہے۔ یہی چیز اسے دوسروں کی برائی پر اکساتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان دوسروں کی غیبت پر کھڑا ہوکر اپنا قد بلند کرتا ہے۔ یہ عمل غیبت کو انسان کے لیے لذیذ اور مرغوب بناتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت انسان کی خودپسندی کا شاخسانہ ہی، اور خودپسندی شیطان کا ورثہ ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو غیبت کے رجحان میں اس لیے اضافہ ہورہا ہے کہ ہمارے ماحول میں خودپسندی کو فروغ دینے والے عوامل بڑھ رہے ہیں۔ جو عالمی کلچر ہم پر مسلط ہے اس میں انفرادیت پسندی بڑھ رہی ہی، نفس کے تزکیے کے امکانات معدوم نہیں تو محدود ضرور ہوگئے ہیں۔ اب ”دوسرا“ ہمارے وجود کی توسیع نہیں اس کی ضد ہے۔ ”دوسرا“ ہمارا حریف بلکہ ہمارا دشمن ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان خود کو دوسروں سے کمتر سمجھے۔ نظری طورپر نہیں عملاً.... تصوراتی سطح پر نہیں وجودی سطح پر۔ انسان اگر خود کو دوسروں سے کم تر سمجھنے لگے تو وہ پھر دوسروں کی تعریف کرے گا، ان کی مذمت نہیں۔ ان میں کمال تلاش کرے گا، زوال نہیں۔ اسلام انسان کی تکریم کی ایک ایسی بلند سطح متعین کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اسلام انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسانی جان کی حرمت سب سے بڑھ کر ہے۔ مولانا رومؒ نے کہا ہے کہ تہذیب کی اصل انسان کی تکریم ہے۔ ہمارے صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ انسان کائناتِ اصغر یعنی چھوٹی کائنات ہے۔ یعنی وہ اس وسیع وعریض کائنات کا خلاصہ ہے۔ اسلامی تہذیب کا یہ تصورِ انسان اگر کسی کے دل و دماغ پر رتی برابر بھی اثرانداز ہو تو وہ کسی دوسرے انسان کی عدم موجودگی میں اس کی برائی نہیں کرے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کا غماز ہے کہ ہم اسلام کے تصورِِ انسان کو یکسر فراموش کربیٹھے ہیں۔ ہماری نظر میں اپنی کوئی تکریم ہے اور نہ دوسرے کی۔ ہمارے ذہنوں پر انسان کا یہ تصور غالب آگیا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور بس۔ چونکہ ہم زیادہ سے زیادہ اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ ہم ایک سماجی حیوان ہیں اس لیے ہمارے معاملات میں حیوانیت بڑھتی جارہی ہے۔
غیبت کے مزید تین محرکات کو خواتین کے حوالے سے سمجھا اور بیان کیا جاسکتا ہے جن میں غیبت کا رجحان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ کائنات کے بنیادی اصول دو ہیں: وحدت اور کثرت ۔ مرد وحدت کی علامت ہے اور عورت کثرت کی علامت۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی میں مرد کی دلچسپی کلّیات یا Fundamentals سے ہوتی ہے اور عورت کی فطرت جزیات کی طرف راغب ہوتی ہے۔ لیکن جب جزیات پسندی منفی قوت بن جاتی ہے تو وہ آسانی کے ساتھ غیبت میں ڈھل جاتی ہی، کیونکہ غیبت نفسیاتی سطح پر بال کی کھال اتارنے‘ گڑے مُردے اکھاڑنے اور ایک برائی کو ایک ہزار برائیوں میں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مردوں میں غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امرکا ثبوت ہے کہ مردوں کی فطرت میں جزیات پسندی درآئی ہی، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کی بہت بڑی تعداد پر نسائی رجحان کا غلبہ ہوگیا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مغرب میں اور اس کے زیراثر ہمارے یہاں بھی عورتیں مرد بنتی جارہی ہیں اسی طرح مردوں میں ایک طرح کا ”عورت پن“ نمودار ہورہاہے۔ مردوںکے مقابلے پر عورتیں زیادہ ”باتونی“ ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ ہے۔ لڑکیوں میں زبان سیکھنے کی صلاحیت لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکیاں لڑکوں سے بہت پہلے بولنے لگتی ہیں۔ لیکن لڑکیوں کی زبان کا سانچہ گہرا نہیں ہوتا۔ لڑکیوں کی زبان جذبات اور احساسات سے بلند نہیں ہوپاتی۔
چنانچہ ان کی زبان میں ایک طرح کی خودکاریت یا Automation پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس لڑکے دیر میں زبان سیکھتے ہیں لیکن ان کی زبان کا سانچہ گہرا ہوتا ہے اور اس میں تفکر اور تعقل کی صلاحیت لڑکیوں کے مقابلے پر زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ لڑکوں کی زبان میں خودکاریت یا Automation کم ہوتی ہے۔ خواتین کی یہی خودکاریت انہیں مردوں کے مقابلے میں غیبت کا زیادہ عادی بناتی ہے۔ لیکن فی زمانہ مردوں کا لسانی سانچہ بھی سطحی اور سرسری ہوتا جارہا ہے اور ان کی زبان بھی جذبات اور احساسات سے زیادہ مغلوب ہورہی ہے اور اس پر شعور کی گرفت کمزور پڑرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کی زبان میں بھی خودکاریت درآئی ہے اور وہ بھی غیبت پیدا کرنے والی مشین بن گئے ہیں۔ ہمارے تہذیبی نظام میں مردوں کی فکری اور سماجی کائنات بہت وسیع ہے۔
اس کے مقابلے پر خواتین کی فکری اور سماجی زندگی محدود تھی۔ زندگی کا تجربہ ہے کہ فکرو نظر کی وسعت انسانوں کو بہت سے پست رجحانات سے بلند کردیتی ہے۔ غیبت بھی ایک ایسا ہی رجحان تھا جس میں کبھی مرد حضرات کم کم ملوث ہوتے تھے۔ اس کے برعکس خواتین کی محدود زندگی کا جبر انہیں غیبت جیسے رجحانات کی طرف دھکیل دیتا تھا اورآج بھی دھکیل دیتا ہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ مردوں کی فکری اور سماجی کائنات بھی سکڑ سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ان کے وقت کا بیشتر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوجاتا ہے۔ باقی وقت انفرادی یا خاندانی زندگی میں صرف ہوتا ہے۔ اس زندگی کی نہ کوئی فکری جہت ہے نہ نظریاتی بنیاد ہے۔ اس زندگی میں نہ کوئی اجتماعیت ہے نہ بین الاقوامیت اور آفاقیت۔ چنانچہ لوگوں کی دلچسپیوں اور ذوق کی سطح بھی انتہائی پست ہوگئی ہے اور انہیں پست چیزوں ہی میں لطف آنے لگا ہے۔ ان میں ایک پست چیز غیبت ہے جس کی ہماری زندگی میں یہ اہمیت ہے کہ وہ ہمیں منفی معنوں میں لوگوں سے جوڑے رکھتی ہے اور اس کے ذریعے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا بھی دوسروں سے تعلق ہے۔
https://www.facebook.com/notes/jama...غیبت-کا-کلچراور-اس-کی-بنیادیں/317106088303737