۔۔غم و غصہ نہیں، رو ہینگا عوام کی مدد کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔۔
اگرچہ يہ مناسب تو نہيں کہ کویَ مذ ہبی يا سیاسی جماعت برما ميں رو ہینگا انسانی اور اخلاقی کرائسس کو سیاسی یا ذاتی مقاصد کے ليے استعمال کرے اور حکومت کا ہی حق ہے کہ وہ ر اہنمایَ کرے مگرھکومتِ وقت کا رويہ تا حال بہت غير مناسب اور خوفذدہ دکھایَ دے رہا ھے۔ انہوں نے نہ تو کویَ موثر قدم اٹھايا اور نہ ہی اس ظمن کویَ پا لیسی وضع کی ۔ حکومتِ وقت اس معاملے ميں بے بس دکھا ی د یتی ہے۔
ہو سکتا ھے حکومت کسی اشارے کی منتظر ہو کہ وہ کسی قدم سے، اپنے دوستوں کو ناراض نہ کر دے۔ یا شاید حکومت کا ذہن ، دل کسی اور جا اٹکا ہے۔چند سال پیشتر بھی جب روہنگا عوام پر ظلم و ستم برپا کيا گيا تھا، تو ہماری ھکومت خاموش تماشای ر ہی، کویَ عملی قدم نہ اٹھایا اور قومی اور عوامی جذبات کی چندے پروا نہ کی ، نظر انداز کر دیا ۔
مغرب پر ست لبرل تنزلی طبقے، نا م نہاد سول سوسایٹی سے ، تو کویَ امید ہی نہیں ۔ ياد ہے پچھلی دفعہ انہوں نے کيسے، ايک جعلی تصوير کو بنياد بنا کر، احتجاج اور مطالبات کا مذاق ا ڑايا تھا۔ مذ ہبی جماعتوں سے روایتی مقابلہ بازی، لاگت باز ی نبھاتے ہوے، احتجاج کو ناکام کرنے کی کوشش کی تھی، مخالفانہ بیان بازی کی۔ ان لوگوں کو تو کبھی کشمیری عوام پر ظلم پر آواز اٹھانے کی توفيق نہ ھویَ، سواے ايک آدھ دن کے لیے جب انڈيا کے اپنے سما جی حلقوں نے ربڑ بلٹ جیسے ظلم پر آواز اٹھا یَ تھی ۔
اگرچہ روہینگا کا مسلہ خالصتاََ ایک انسانی ٹریجڈی ہے مگر یہ طبقہ اسے مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں پر تنقید کا ایک ذریع ہی گردانے گا۔ یہ لوگ اپنے خول سے باہر نہیں نکل سکتے۔عمران خان صاحب نے اس معاملے پر پہلے دن نہ صرف آواز ا ٹھایَ تھی بلکہ ھکومت سے مطالبہ بھی کيا تھا کہ انسا نی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لیے فوری آواز ا ٹھا ے اور دوسرے ممالک کے تعاون سے اس ظلم کو روکنے کے ليے عملی قدم اٹھاے۔
اب موجودہ مايوس کن صورت حال ميں، يہ مطالبہ غیر مناسب نہ ہو گا کہ خان صاحب، ملک کے دوسرے سماجی حلقوں اور پی ٹی آیَ کے ساتھيوں کے تعاون سے، غیر سیاسی طور پر، پناہ گزينوں کی جان و مال کی حفا ظت کے ليے فنڈز ا کٹھے کرنے کا بيڑا اٹھايں۔علاوہ معدودے بے راہرو ذاتی دشمنوں، نا عاقبت اندیشوں کے، خان صاحب کی سما جی خدمات، خلو ص اور صلا حيتوں پر پوری قوم کو مکمل اعتما د ہے۔ اور وہ ہی اس امدادی مقصد پر قوم کو متحد کر سکتے ہیں۔
اگرچہ يہ مناسب تو نہيں کہ کویَ مذ ہبی يا سیاسی جماعت برما ميں رو ہینگا انسانی اور اخلاقی کرائسس کو سیاسی یا ذاتی مقاصد کے ليے استعمال کرے اور حکومت کا ہی حق ہے کہ وہ ر اہنمایَ کرے مگرھکومتِ وقت کا رويہ تا حال بہت غير مناسب اور خوفذدہ دکھایَ دے رہا ھے۔ انہوں نے نہ تو کویَ موثر قدم اٹھايا اور نہ ہی اس ظمن کویَ پا لیسی وضع کی ۔ حکومتِ وقت اس معاملے ميں بے بس دکھا ی د یتی ہے۔
ہو سکتا ھے حکومت کسی اشارے کی منتظر ہو کہ وہ کسی قدم سے، اپنے دوستوں کو ناراض نہ کر دے۔ یا شاید حکومت کا ذہن ، دل کسی اور جا اٹکا ہے۔چند سال پیشتر بھی جب روہنگا عوام پر ظلم و ستم برپا کيا گيا تھا، تو ہماری ھکومت خاموش تماشای ر ہی، کویَ عملی قدم نہ اٹھایا اور قومی اور عوامی جذبات کی چندے پروا نہ کی ، نظر انداز کر دیا ۔
مغرب پر ست لبرل تنزلی طبقے، نا م نہاد سول سوسایٹی سے ، تو کویَ امید ہی نہیں ۔ ياد ہے پچھلی دفعہ انہوں نے کيسے، ايک جعلی تصوير کو بنياد بنا کر، احتجاج اور مطالبات کا مذاق ا ڑايا تھا۔ مذ ہبی جماعتوں سے روایتی مقابلہ بازی، لاگت باز ی نبھاتے ہوے، احتجاج کو ناکام کرنے کی کوشش کی تھی، مخالفانہ بیان بازی کی۔ ان لوگوں کو تو کبھی کشمیری عوام پر ظلم پر آواز اٹھانے کی توفيق نہ ھویَ، سواے ايک آدھ دن کے لیے جب انڈيا کے اپنے سما جی حلقوں نے ربڑ بلٹ جیسے ظلم پر آواز اٹھا یَ تھی ۔
اگرچہ روہینگا کا مسلہ خالصتاََ ایک انسانی ٹریجڈی ہے مگر یہ طبقہ اسے مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں پر تنقید کا ایک ذریع ہی گردانے گا۔ یہ لوگ اپنے خول سے باہر نہیں نکل سکتے۔عمران خان صاحب نے اس معاملے پر پہلے دن نہ صرف آواز ا ٹھایَ تھی بلکہ ھکومت سے مطالبہ بھی کيا تھا کہ انسا نی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لیے فوری آواز ا ٹھا ے اور دوسرے ممالک کے تعاون سے اس ظلم کو روکنے کے ليے عملی قدم اٹھاے۔
اب موجودہ مايوس کن صورت حال ميں، يہ مطالبہ غیر مناسب نہ ہو گا کہ خان صاحب، ملک کے دوسرے سماجی حلقوں اور پی ٹی آیَ کے ساتھيوں کے تعاون سے، غیر سیاسی طور پر، پناہ گزينوں کی جان و مال کی حفا ظت کے ليے فنڈز ا کٹھے کرنے کا بيڑا اٹھايں۔علاوہ معدودے بے راہرو ذاتی دشمنوں، نا عاقبت اندیشوں کے، خان صاحب کی سما جی خدمات، خلو ص اور صلا حيتوں پر پوری قوم کو مکمل اعتما د ہے۔ اور وہ ہی اس امدادی مقصد پر قوم کو متحد کر سکتے ہیں۔