
آج عبرانی اخبار ہارٹز میں شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران رونما ہونے والی خوفناک بربریت کو اجاگر کیا ہے۔ اس تحقیقات میں نیتزاریم کوریڈور میں فوجیوں اور کمانڈروں کے ناپسندیدہ رویے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جہاں نہتے شہریوں کی ہلاکتوں کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوجیوں نے ایک 16 سالہ لڑکے کو "دہشت گرد" قرار دے کر بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ، ایک خطرناک روایت کا بھی ذکر کیا گیا جس کے تحت لاشوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ فوجی کتے انہیں نگل سکیں۔ یہ تشویشناک رویے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ فوجی جوانوں نے انسانی جانوں کو حقیر جاننا شروع کر دیا ہے۔
فوجیوں کے بیانات میں یہ بھی سامنے آیا کہ انہیں ایسے احکامات موصول ہوئے تھے جن کے تحت "نو گو لائنز" عبور کرنے والوں کو قتل کرنے کی کھلی اجازت تھی۔ اس نے شہریوں کی ہلاکتوں کی ایک نئی لہر کو جنم دیا، جبکہ کمانڈرز ان جانوں کو "دہشت گردوں" کے زمرے میں ڈال دیتے رہے۔ تحقیقات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کمانڈروں کو بغیر کسی اجازت کے فضائی حملے کی منظوری دی گئی، جس کی وجہ سے شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
یہ رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی فوج شہریوں کو بے وقعت سمجھتی ہے، اور اس نشہ میں فوجیوں کی بعض یونٹس میں ایسی ثقافت کا بھی پتہ چلا جس نے ہلاکتوں کی تعداد بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے نتیجے میں، فوجیوں نے قواعد و ضوابط کی پرواہ کیے بغیر عام شہریوں کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔
یہ تحقیقات اس بات کا بھی پتہ دیتی ہیں کہ "اسکور رکھنے" کے رویے نے ایک امتیازی اور حوصلہ افزا فضاء پیدا کر دی ہے جہاں انسانی جانوں کی حیثیت کو معمولی سمجھا گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ مہم کبھی نہ کھائی جانے والی کامیابیوں کے حصول کے لیے جاری رہی، جس نےغزہ کے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کردیں۔