دو ہزار آٹھ کا الیکشن ہوا تو میں اسوقت گلیوں میں پھرتارہا اور ووٹ نہیں کیا کیونکہ عمران خان بائیکاٹ کرچکا تھا۔ تحریک انصاف کی حمایت کی وجہ سے آج تک اپنے بہت سارے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے لڑ چکا ہوں۔ عمران خان صاحب کا سحر ابھی تک طاری ہے اور اس کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دل کرتا ہے یورپ میں ۱۵ سال گزارنے کے بعد کبھی کبھی پاکستان کے مسائل کا ایک منطقی جائزہ لیا جائے۔
میرے خیال میں کسی بھی حکومت کا سب سے بنیادی مقصد معیشت کی بہتری ہے۔
پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو میرے خیال میں بنگلہ دیش سے بہتر مثال پاکستان کے لئے موجود نہیں ہے۔ بنگلہ دیش زبان کے فرق کے باوجود ۱۹۷۱ میں ہمارے جیسے تعصبات اور ذہنیت رکھنے والا ملک تھا، وہاں وسائل شاید ہم سے بھی کم ہیں لیکن وہ آج ہم سے آگے نکل گیا۔
بنگلہ دیش نے اپنے اداروں کو مذہبی شدت پسندی سے دور رکھا۔سیاست میں مذہبی جماعتوں پر پابندی لگائی، اپنی فوج کو ایک سائیڈ پر کیا، اپنی خواتین کو تعلیم دی، آبادی پر کنٹرول کیا، اور خواتین کو معیشت میں کھپایا، اور وہ آگے نکل گیا۔
پاکستان کے بنیادی مسائل بھی وہی ہیں جو بنگلہ دیش کے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک مسئلہ کشمیر ہے۔ جو پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
ہماری نوجوان آبادی نیم خواندہ ہے، لوگ حد درجے سے زیادہ جذباتی ہیں، ، مذہبی جنونیت اور سیاسی انتہاپسندی بھی حد درجے کو چھورہی ہے۔ ۵۲ مسلم ممالک میں سے کسی نے فرانس کا سفیر باہر نہیں نکالا لیکن آج پاکستان فرانس کا سفیر باہر نکالنا چاہتا ہے۔
سیاستدانوں کو دیکھا جائے تو ہمارے پاس پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ن لیگ موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے نظریات کے حساب سے سب سے زیادہ ماڈرن ہے لیکن معاشی اعتبار سے وہ سوشلسٹ ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کرپشن اور اقربا پروری کا شکا ر ہیں۔ نظریات میں ن لیگ ایک گرگٹ کی طرح کا ہے جن کا نظریہ اقتدار ہے اگر اقتدار مذہبی انتہاپسندی میں ملے گا تو وہاں چلے جائیں گےورنہ ماڈرن بھی رہ سکتے ہیں۔ عمران خان ان دونوں جماعتوں کے نسبت کرپٹ نہیں ہے، ملک کے ساتھ مخلص ہے اور بہت محنتی ہے لیکن اس کے سوچنے کے انداز اور نظریات اور ان نظریات کی وجہ سے ابھرنے والی انداز حکمرانی پر سنجیدہ سوالات ہیں، اس کو سمجھنا چاہئئے کہ وہ کوئی پیشوا نہیں ہے، وہ ایک حکمران ہے جس کا مقصد بائیس کروڑ لوگوں کی زندگیاں اور معاش بہتر کرنا ہے،
عمران خان پچھلے دو سال میں بہت ساری غلطیاں کر چکا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کو بری طرح استعمال کیا جارہا ہے، نواز شریف ایک بھاری تجارتی خسارہ اور ڈوبتی معیشت چھوڑ کر گیا، اسٹیبلشمنٹ نے دیکھا کہ عمران خان پاپولر ہورہا ہے تو اسے دانہ ڈالا گیا اور اس نے چگ لیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ اس کی مقبولیت کو استعمال کرچکی ہے، مہنگائی کرکے معیشت سنببھال لی گئی ہے اور جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے
وہ اگلے چند مہینوں میں پوری ہوجائیگی اور یوں عمران خان کا مقصد پورا ہوجائیگا اور اسکی مقبولیت بھی مزید کم ہوجائیگی۔ اس کے بعد پھر خان صاحب کو دوبارہ اقتدار نصیب نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں خان صاحب کو سمجھ لینا چاہئیے کہ بیانیہ وغیرہ فضول چیزیں ہیں، یہ نعروں اور اپوزیشن کی سیاست سے نکلیں اور واقعی میں صرف اور صرف معیشت کے لئے کام کریں چاہے اس کے لئے جتنی بھی مہنگائی کرنی پڑے یا گالیاں سننی پڑیں۔
چنداقدامات جو ۲۰۲۸ میں عمران خان کو اقتدار دلواسکتے ہیں۔
برامدات کو بڑھانے کی بھرپور کوشش
ڈائریکٹ ٹیکس بڑھانے کی بھرپور کوشش، ٹریڈرز مافیا کو لگام، ۵۰ ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط دوبارہ لاگو کی جائے، حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن سمجھوتا نہ کیا جائے
صحت کارڈ اور خواتین کی تعلیم کے منصوبوں کی بھرپور کوشش
انڈیا سے تجارت کی جائے چاہے اسکی حکومت جاتی ہے تو جائے، سبزیاں اور چینی غریب آدمی کو سستی ملنی چاہئے
فی الوقت گیارہ کروڑ غریبوں کے لئے اپنی انا اور غیرت کی قربانی دے دے، اقتدار ویسے بھی ۲۰۲۳ میں نہیں ملنا لیکن ۲۰۲۸ کی کوشش کرلے
میرے خیال میں کسی بھی حکومت کا سب سے بنیادی مقصد معیشت کی بہتری ہے۔
پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو میرے خیال میں بنگلہ دیش سے بہتر مثال پاکستان کے لئے موجود نہیں ہے۔ بنگلہ دیش زبان کے فرق کے باوجود ۱۹۷۱ میں ہمارے جیسے تعصبات اور ذہنیت رکھنے والا ملک تھا، وہاں وسائل شاید ہم سے بھی کم ہیں لیکن وہ آج ہم سے آگے نکل گیا۔
بنگلہ دیش نے اپنے اداروں کو مذہبی شدت پسندی سے دور رکھا۔سیاست میں مذہبی جماعتوں پر پابندی لگائی، اپنی فوج کو ایک سائیڈ پر کیا، اپنی خواتین کو تعلیم دی، آبادی پر کنٹرول کیا، اور خواتین کو معیشت میں کھپایا، اور وہ آگے نکل گیا۔
پاکستان کے بنیادی مسائل بھی وہی ہیں جو بنگلہ دیش کے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک مسئلہ کشمیر ہے۔ جو پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
ہماری نوجوان آبادی نیم خواندہ ہے، لوگ حد درجے سے زیادہ جذباتی ہیں، ، مذہبی جنونیت اور سیاسی انتہاپسندی بھی حد درجے کو چھورہی ہے۔ ۵۲ مسلم ممالک میں سے کسی نے فرانس کا سفیر باہر نہیں نکالا لیکن آج پاکستان فرانس کا سفیر باہر نکالنا چاہتا ہے۔
سیاستدانوں کو دیکھا جائے تو ہمارے پاس پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ن لیگ موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے نظریات کے حساب سے سب سے زیادہ ماڈرن ہے لیکن معاشی اعتبار سے وہ سوشلسٹ ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کرپشن اور اقربا پروری کا شکا ر ہیں۔ نظریات میں ن لیگ ایک گرگٹ کی طرح کا ہے جن کا نظریہ اقتدار ہے اگر اقتدار مذہبی انتہاپسندی میں ملے گا تو وہاں چلے جائیں گےورنہ ماڈرن بھی رہ سکتے ہیں۔ عمران خان ان دونوں جماعتوں کے نسبت کرپٹ نہیں ہے، ملک کے ساتھ مخلص ہے اور بہت محنتی ہے لیکن اس کے سوچنے کے انداز اور نظریات اور ان نظریات کی وجہ سے ابھرنے والی انداز حکمرانی پر سنجیدہ سوالات ہیں، اس کو سمجھنا چاہئئے کہ وہ کوئی پیشوا نہیں ہے، وہ ایک حکمران ہے جس کا مقصد بائیس کروڑ لوگوں کی زندگیاں اور معاش بہتر کرنا ہے،
عمران خان پچھلے دو سال میں بہت ساری غلطیاں کر چکا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کو بری طرح استعمال کیا جارہا ہے، نواز شریف ایک بھاری تجارتی خسارہ اور ڈوبتی معیشت چھوڑ کر گیا، اسٹیبلشمنٹ نے دیکھا کہ عمران خان پاپولر ہورہا ہے تو اسے دانہ ڈالا گیا اور اس نے چگ لیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ اس کی مقبولیت کو استعمال کرچکی ہے، مہنگائی کرکے معیشت سنببھال لی گئی ہے اور جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے
وہ اگلے چند مہینوں میں پوری ہوجائیگی اور یوں عمران خان کا مقصد پورا ہوجائیگا اور اسکی مقبولیت بھی مزید کم ہوجائیگی۔ اس کے بعد پھر خان صاحب کو دوبارہ اقتدار نصیب نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں خان صاحب کو سمجھ لینا چاہئیے کہ بیانیہ وغیرہ فضول چیزیں ہیں، یہ نعروں اور اپوزیشن کی سیاست سے نکلیں اور واقعی میں صرف اور صرف معیشت کے لئے کام کریں چاہے اس کے لئے جتنی بھی مہنگائی کرنی پڑے یا گالیاں سننی پڑیں۔
چنداقدامات جو ۲۰۲۸ میں عمران خان کو اقتدار دلواسکتے ہیں۔
برامدات کو بڑھانے کی بھرپور کوشش
ڈائریکٹ ٹیکس بڑھانے کی بھرپور کوشش، ٹریڈرز مافیا کو لگام، ۵۰ ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط دوبارہ لاگو کی جائے، حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن سمجھوتا نہ کیا جائے
صحت کارڈ اور خواتین کی تعلیم کے منصوبوں کی بھرپور کوشش
انڈیا سے تجارت کی جائے چاہے اسکی حکومت جاتی ہے تو جائے، سبزیاں اور چینی غریب آدمی کو سستی ملنی چاہئے
فی الوقت گیارہ کروڑ غریبوں کے لئے اپنی انا اور غیرت کی قربانی دے دے، اقتدار ویسے بھی ۲۰۲۳ میں نہیں ملنا لیکن ۲۰۲۸ کی کوشش کرلے