عدالت کا عافیہ صدیقی کیس کا معاملہ امریکی سفیر کے سامنے رکھنے کا حکم

ihc-afia-saddiqi-pll.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ نے امریکی جیل میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق کیس میں وزارت خارجہ کو معاملہ پاکستان میں امریکی سفیر کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے وکیل حافظ یاسر عرفات کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا 17 اکتوبر کے بعد ڈیڑھ ماہ میں کچھ نہیں کیا گیا، گزشتہ سماعت پر بھی کہا گیا کہ وزارت خارجہ کے سیکریٹری کو عدالت میں بلا لیتے ہیں،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے عافیہ صدیقی کی صحت کے حوالے سے استفسار کیا، جس پر وزارت خارجہ کے وکیل نے بتایا اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال خاطر خواہ رسپانس نہیں ملا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے امریکا کے ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا جسے مسترد کر دیا گیا، ویب سائٹ سے چیک کیا امریکا میں عافیہ صدیقی کا کیس زیرِ التوا ہے اور یہی وزارت خارجہ کا جواب ہے۔

وکیل نے مزید کہا شاید ان کا سورس بھی ویب سائٹ ہے، اگر ہمیں ویزا مل جائے تو اپنے طور پر کچھ کوشش کی جا سکتی ہے، وزارت خارجہ کے خط و کتابت کا کوئی ایسا جواب بتا دیا جائے جس سے ہمیں کوئی روشنی کی کرن نظر آجائے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک کوئی پلان نہیں ہے، وکیل حافظ یاسر عرفات نے کیس پر مزید کام کرنے کے لیے وقت دینے کی استدعا کی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ مارچ 2020 میں فارن آفس نے ایک خط لکھا اس کا فالو اپ کیا ہے؟ دفتر خارجہ کے مطابق امریکا کے محکمہ انصاف کو لیٹر لکھا کہ عافیہ صدیقی کی صحت کے بارے میں بتایا جائے، اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔

وزارت خارجہ کے وکیل نے بتایا کہ امریکا کے محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر اسٹیٹس پینڈنگ آرہا ہے، اس سے زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں، اور اسلسلے میں محکمے کی جانب سے بھی نہیں بتایا جاتا کہ کیس کس اسٹیج پر ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ فارن آفس پاکستان میں موجود امریکی سفیر سے کیوں نہیں پوچھتا؟ عدالت نے حکم دیا کہ وزارت خارجہ آئندہ رپورٹ وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کے دستخط سے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت بیس جنوری تک ملتوی کردی۔

عافیہ صدیقی کو 2010 میں امریکی وفاقی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی حراست میں تھیں اس وقت فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ 6 دیگر الزامات کے تحت انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

2009 میں ایک جیوری نے انہیں 7 الزامات پر مجرم قرار دیا تھا جن میں قتل کی کوشش کے 2 الزامات بھی شامل تھے، جیوری نے قرار دیا تھا کہ قتل کی کوشش کے الزامات میں کوئی پیشگی ارادہ نہیں تھا،استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی رائفل سے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
ISB HC before playing to the gallery should have checked with the US authorities if the lady was still alive??
I have heard her sister saying the poor lady already passed in early September.
 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
Pata nahi bechari zindah bhi ha ke nahi?
America ke zulamo mein aik ye zulam bhi added ha..