Sarfraz1122
MPA (400+ posts)
٢٠١٣ کے الیکشن سے قبل تحریک انصاف کی پارٹی کے رہنماؤں کا ایک گرینڈ اجلاس ہوا جو تقریباً ٦ گھنٹے جاری رہا۔ اس اجلاس میں الیکشن سے پہلے اور بعد کی حکمت عملی پر تفصیلی بحث ہوئی۔ ایک موقع پر جب یہ امکان ڈسکس ہورہا تھا کہ اگر تحریک انصاف الیکشن جیت جائے تو کیا وہ حکومت سنبھالنے کیلئے تیار ہے، تو اس وقت وہاں موجود ایک خوبرو، نوجوان خاتون رہنما نے اپنے پختون لہجے میں عمران خان سے سوال پوچھ لیا کہ اگر آپ وزیراعظم بن گئے تو ملک کی خاتون اول کون ہوگی؟
سوال سن کر وہاں قہقہہ گونجا اور عمران خان نے جواب دیا کہ پہلے الیکشن جیت لیں، حلف اٹھانے سے پہلے شادی بھی کرلوں گا۔
اسی خاتون نے اگلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ کی نظر میں کوئی خاتون ہے؟ تو اس سے قبل عمران خان جواب دیتے، نعیم الحق نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ مذاق کا وقت نہیں۔
اجلاس کے بعد رات تقریباً ساڑھے دس بجے اس خاتون کا خان صاحب کو میسج موصول ہوا جس میں اس نے اپنی بے تکلفی پر معذرت کی۔ خان صاحب کا ایک سطری جواب تھا " نو پرابلم - میرے خیال میں سوال بالکل درست تھا "
خاتون نے رپلائی میں خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پھر ساتھ ہی اگلے میسج میں پوچھ لیا کہ آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کی نظر میں کوئی خاتون ہے؟
عمران خان کا جواب تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
وہ خاتون عائشہ گلالئی تھی اور پھر یہاں سے میسجز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس کے بعد عائشہ گلالئی کی بنی گالہ آمدورفت کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان پر ان کی بہنوں کی طرف سے دباؤ تھا کہ وہ شادی کرلے اور خود خان صاحب بھی شادی کیلئے کافی سنجیدہ لگ رہے تھے۔
عائشہ گلالئی نے خان صاحب کے ساتھ میسجزایکسچینج کرنا شروع کئے جن میں سیاسی لطائف، لیڈرشپ کے حوالے سے مشہور اقوال اور تحریک انصاف کیلئے تجاویز وغیرہ ہوا کرتی تھیں۔ عمران خان ہر میسج کا جواب ضرور دیتا، یا کم از کم سمائیلی ضرور بھیجتا۔
جن پیغامات کو ' فحش ' کہہ کر عمران خان پر بدکرداری کا الزام لگایا گیا، ان کا سلسلہ تب شروع ہوا جب عائشہ گلالئی نے ایک تیسرے فریق کے زریعے خان صاحب کو شادی کا پیغام بھجوایا جو خان صاحب نے بصد احترام وصول کرکے ' سوچ کر بتاؤں گا ' کی رسید دے دی (یہ شادی کا پیغام خود اس کی طرف سے تھا یا کسی اور خاتون کی طرف سے، یہ ابھی واضح نہیں ہوسکا)
چند دن بعد خان صاحب نے عائشہ کو میسج بھیجا کہ کیا وہ واقعی اپنے پیغام میں سیریس تھی یا خان صاحب کو بڑھاپے میں مذاق کا نشانہ بنانا چاہتی تھی؟
گلالئی کا جواب تھا کہ وہ سنجیدہ تھی، آپ نے پھر کیا سوچا؟
خان: ابھی تک سوچ رہا ہوں
گلالئی: عمر نکلی جارہی ہے، وقت ضائع مت کریں
خان: "فکر مت کرو، عمر کا میرے بڑھاپے یا ازدواجی زندگی سے کوئی تعلق نہیں"
میسج چونکہ انگلش میں تھا، اور اس میں ازدواجی زندگی کو سیکچوئل لائف کے پیرائے میں لکھا گیا، اور چونکہ گلالئی بھی ایک پاکستانی عورت ہی ہے جس کا آج کے دور کا سب سے بڑا ہتھیار سکرین شاٹ ہے، اس لئے گلالئی نے وہ میسج اور اس کے بعد آنے والے چند اور رپلائیز کو ایک مصری ممی کی طرح مصالحہ لگا کر اپنے پاس محفوظ کرلیا تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔
گلالئی کا اس کے بعد حوصلہ بلند ہوگیا۔ گلالئی اپنے آپ کو خیبرپختونخواہ کی " خاتون اول " سمجھنا شروع ہوگئی، اگرچہ خان صاحب کی ریحام کے ساتھ شادی ہوگئی لیکن گلالئی پھر بھی اپنے آپ کو ایک ' پری ویلیجڈ ' خاتون سمجھتی رہی، شاید اس کی وجہ خان صاحب کے چند میسجز تھے جن میں انگلش ٹرمنالوجیز کا استعمال دیسی پاکستانیوں کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرسکتا تھا۔
پچھلے دو سال میں خان نے گلالئی سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی۔ گلالئی کی کرپشن کی خبریں بھی آرہی تھیں اور عمران خان نے نعیم الحق کے زریعے ایک دفعہ اسے اچھی خاصی ڈانٹ بھی پڑوا دی۔
انہی دنوں گلالئی کے ن لیگ سے رابطے شروع ہوئے اور آگے کا کھیل آپ سب جانتے ہیں۔
خان صاحب کو میرں یہی کہنا چاہوں گا کہ آپ کا قصور گلالئی کے میسجز کے رپلائی کرنا نہیں بلکہ ایک دوسری جماعت سے وارد ہونے والی خاتون کو سیدھا ریزروڈ سیٹس پر ایم این اے بنانا تھا۔ کیا آپ کی جماعت میں پڑھی لکھی اور مخلص خواتین کی کمی تھی جو اس خوبرو دوشیزہ کو اٹھا کر ایم این اے کی سیٹ تحفے میں دے دی اور آج وہ آپ کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مرکزی کردار بن گئی؟
گلالئی ڈرامہ جلد اپنے اختتام کو پہنچے گا، ہوسکتا ہے تھوڑا بہت خان صاحب کو سیاسی نقصان بھی پہنچا جائے لیکن اگر خان صاحب نے بڑے نقصان سے بچنا ہے تو اب بھی اپنی پارٹی کے ١٥ سال پرانے مخلص کارکنان کو آگے کریں، انہیں جلسوں میں اہمیت دیں، وہ آج بھی آپ کیلئے اپنی جان لڑانے کو تیار ہیں اور کبھی جاوید ہاشمی یا گلالئی نہیں بنیں گے۔
رہی بات حامد میر کی، تو گلالئی نے جو کانورسیشن اسے دکھائی ہے جو براہ راست عمران خان کے اکاؤنٹ سے نہیں کی گئی تھی، بلکہ گلالئی نے کانٹ چھانٹ کرکے صرف مخصوص میسجز اپنے دوسرے نمبر پر فارورڈ کرکے حامد میر کو دکھائے تھے۔
گلالئی کی اپنی اخلاقی حیثیت اسی وقت ختم ہوگئی جب اس نے یہ کہا کہ پہلا میسج مجھے ٢٠١٣ میں آیا تھا۔ قانونی لحاظ سے یہ نکتہ ثابت کرنا ناممکن ہوتا ہے کہ کونسی چیز فحاشی کی زمرے میں آتی ہے لیکن یہ نکتہ ثابت کرنا بہت آسان ہوگا کہ یہ میسجز گلالئی کی مرضی سے آئے اور انہیں ان پر اعتراض نہیں تھا، ورنہ وہ ٤ سال تک خان صاحب کی مدح سرائی نہ کرتی رہتی۔
عمران خان صاحب، جہاں اس قوم کیلئے اتنا کچھ برداشت کیا ہے، وہاں تھوڑا سا کیچڑ مزید برداشت کرلیں!!! بقلم خود باباکوڈا
سوال سن کر وہاں قہقہہ گونجا اور عمران خان نے جواب دیا کہ پہلے الیکشن جیت لیں، حلف اٹھانے سے پہلے شادی بھی کرلوں گا۔
اسی خاتون نے اگلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ کی نظر میں کوئی خاتون ہے؟ تو اس سے قبل عمران خان جواب دیتے، نعیم الحق نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ مذاق کا وقت نہیں۔
اجلاس کے بعد رات تقریباً ساڑھے دس بجے اس خاتون کا خان صاحب کو میسج موصول ہوا جس میں اس نے اپنی بے تکلفی پر معذرت کی۔ خان صاحب کا ایک سطری جواب تھا " نو پرابلم - میرے خیال میں سوال بالکل درست تھا "
خاتون نے رپلائی میں خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پھر ساتھ ہی اگلے میسج میں پوچھ لیا کہ آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کی نظر میں کوئی خاتون ہے؟
عمران خان کا جواب تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
وہ خاتون عائشہ گلالئی تھی اور پھر یہاں سے میسجز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس کے بعد عائشہ گلالئی کی بنی گالہ آمدورفت کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان پر ان کی بہنوں کی طرف سے دباؤ تھا کہ وہ شادی کرلے اور خود خان صاحب بھی شادی کیلئے کافی سنجیدہ لگ رہے تھے۔
عائشہ گلالئی نے خان صاحب کے ساتھ میسجزایکسچینج کرنا شروع کئے جن میں سیاسی لطائف، لیڈرشپ کے حوالے سے مشہور اقوال اور تحریک انصاف کیلئے تجاویز وغیرہ ہوا کرتی تھیں۔ عمران خان ہر میسج کا جواب ضرور دیتا، یا کم از کم سمائیلی ضرور بھیجتا۔
جن پیغامات کو ' فحش ' کہہ کر عمران خان پر بدکرداری کا الزام لگایا گیا، ان کا سلسلہ تب شروع ہوا جب عائشہ گلالئی نے ایک تیسرے فریق کے زریعے خان صاحب کو شادی کا پیغام بھجوایا جو خان صاحب نے بصد احترام وصول کرکے ' سوچ کر بتاؤں گا ' کی رسید دے دی (یہ شادی کا پیغام خود اس کی طرف سے تھا یا کسی اور خاتون کی طرف سے، یہ ابھی واضح نہیں ہوسکا)
چند دن بعد خان صاحب نے عائشہ کو میسج بھیجا کہ کیا وہ واقعی اپنے پیغام میں سیریس تھی یا خان صاحب کو بڑھاپے میں مذاق کا نشانہ بنانا چاہتی تھی؟
گلالئی کا جواب تھا کہ وہ سنجیدہ تھی، آپ نے پھر کیا سوچا؟
خان: ابھی تک سوچ رہا ہوں
گلالئی: عمر نکلی جارہی ہے، وقت ضائع مت کریں
خان: "فکر مت کرو، عمر کا میرے بڑھاپے یا ازدواجی زندگی سے کوئی تعلق نہیں"
میسج چونکہ انگلش میں تھا، اور اس میں ازدواجی زندگی کو سیکچوئل لائف کے پیرائے میں لکھا گیا، اور چونکہ گلالئی بھی ایک پاکستانی عورت ہی ہے جس کا آج کے دور کا سب سے بڑا ہتھیار سکرین شاٹ ہے، اس لئے گلالئی نے وہ میسج اور اس کے بعد آنے والے چند اور رپلائیز کو ایک مصری ممی کی طرح مصالحہ لگا کر اپنے پاس محفوظ کرلیا تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔
گلالئی کا اس کے بعد حوصلہ بلند ہوگیا۔ گلالئی اپنے آپ کو خیبرپختونخواہ کی " خاتون اول " سمجھنا شروع ہوگئی، اگرچہ خان صاحب کی ریحام کے ساتھ شادی ہوگئی لیکن گلالئی پھر بھی اپنے آپ کو ایک ' پری ویلیجڈ ' خاتون سمجھتی رہی، شاید اس کی وجہ خان صاحب کے چند میسجز تھے جن میں انگلش ٹرمنالوجیز کا استعمال دیسی پاکستانیوں کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرسکتا تھا۔
پچھلے دو سال میں خان نے گلالئی سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی۔ گلالئی کی کرپشن کی خبریں بھی آرہی تھیں اور عمران خان نے نعیم الحق کے زریعے ایک دفعہ اسے اچھی خاصی ڈانٹ بھی پڑوا دی۔
انہی دنوں گلالئی کے ن لیگ سے رابطے شروع ہوئے اور آگے کا کھیل آپ سب جانتے ہیں۔
خان صاحب کو میرں یہی کہنا چاہوں گا کہ آپ کا قصور گلالئی کے میسجز کے رپلائی کرنا نہیں بلکہ ایک دوسری جماعت سے وارد ہونے والی خاتون کو سیدھا ریزروڈ سیٹس پر ایم این اے بنانا تھا۔ کیا آپ کی جماعت میں پڑھی لکھی اور مخلص خواتین کی کمی تھی جو اس خوبرو دوشیزہ کو اٹھا کر ایم این اے کی سیٹ تحفے میں دے دی اور آج وہ آپ کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مرکزی کردار بن گئی؟
گلالئی ڈرامہ جلد اپنے اختتام کو پہنچے گا، ہوسکتا ہے تھوڑا بہت خان صاحب کو سیاسی نقصان بھی پہنچا جائے لیکن اگر خان صاحب نے بڑے نقصان سے بچنا ہے تو اب بھی اپنی پارٹی کے ١٥ سال پرانے مخلص کارکنان کو آگے کریں، انہیں جلسوں میں اہمیت دیں، وہ آج بھی آپ کیلئے اپنی جان لڑانے کو تیار ہیں اور کبھی جاوید ہاشمی یا گلالئی نہیں بنیں گے۔
رہی بات حامد میر کی، تو گلالئی نے جو کانورسیشن اسے دکھائی ہے جو براہ راست عمران خان کے اکاؤنٹ سے نہیں کی گئی تھی، بلکہ گلالئی نے کانٹ چھانٹ کرکے صرف مخصوص میسجز اپنے دوسرے نمبر پر فارورڈ کرکے حامد میر کو دکھائے تھے۔
گلالئی کی اپنی اخلاقی حیثیت اسی وقت ختم ہوگئی جب اس نے یہ کہا کہ پہلا میسج مجھے ٢٠١٣ میں آیا تھا۔ قانونی لحاظ سے یہ نکتہ ثابت کرنا ناممکن ہوتا ہے کہ کونسی چیز فحاشی کی زمرے میں آتی ہے لیکن یہ نکتہ ثابت کرنا بہت آسان ہوگا کہ یہ میسجز گلالئی کی مرضی سے آئے اور انہیں ان پر اعتراض نہیں تھا، ورنہ وہ ٤ سال تک خان صاحب کی مدح سرائی نہ کرتی رہتی۔
عمران خان صاحب، جہاں اس قوم کیلئے اتنا کچھ برداشت کیا ہے، وہاں تھوڑا سا کیچڑ مزید برداشت کرلیں!!! بقلم خود باباکوڈا