بل گیٹس اور میلنڈا گیٹس نے 27 سال ایک ساتھ بطور میاں بیوی گزارنے کے بعد اب علیحدگی یعنی طلاق کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دونوں نے یہ فیصلہ باہمی رضامندی اور خوشی سے کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ پہلے کی طرح مل کر اپنے فاؤنڈیشن کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ یہ وہ عنصر ہے جو ہمارے معاشروں میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کا مطلب ہوتا ہے، لڑائی، جھگڑا، ناراضگی، ناپسندیدگی وغیرہ وغیرہ۔ جب تک میاں بیوی ایک ساتھ رہتے رہیں، بھلے ان کے تعلقات کتنے ہی خراب ہوں، بھلے وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی ناخوش کیوں نہ ہوں، اس کو کامیاب شادی تصور کیا جاتا ہے اور طلاق کو نہایت ہی ناپسندیدہ اور معیوب فعل سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر عورت کے معاملے میں۔ ہماری قوم چونکہ عقل و فہم کے استعمال سے دور بھاگتی ہے اور صدیوں پرانی روایات سے چمٹنے رہنا پسند کرتی ہے، اس لئے ہم آج تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ شادی ہو یا طلاق ان کا مقصد زندگی کو آسان بنانا اور انسانوں کیلئے راحت کا سامان کرنا ہے، ناکہ مشکلات پیدا کرنا۔
ہمارے ہاں شادی کا تصور بھی نہایت گھسا پٹا اور فرسودہ ہے، جن دو افراد نے ایک ساتھ زندگی گزارنی ہوتی ہے، ان کی بجائے فیصلہ کون کرتے ہیں، ان کے والدین ، ان کے گھر کے بڑے۔ اور یہاں جنریشن گیپ کو بھی کلی طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے، وہ والدین جن کا اپنی اولاد سے عمر کا فرق کم از کم بیس پچیس سال کا تو ضرور ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اولاد کی سوچ، مزاج ، پسند ناپسند بھی ان کے جیسے ہی ہوگی یا ہونی چاہئے۔ وہ اپنی پسند ناپسند اور مزاج کے حساب سے اپنے بیٹے یا بیٹی کا جیون ساتھی چنتے ہیں، اور بھیڑ بکری کی طرح دو لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ چونکہ پورے معاشرے میں ہی یہی فرسودہ رِیت چل رہی ہے، لہذا بہت کم ہوتا ہے کہ اولاد ماں باپ سے بغاوت کرنے کی ہمت کرپائے۔ یہاں میں ان لڑکوں اور لڑکیوں کو داد دیتا ہیں جو سماج اور گھر کے جبر کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی مرضی سے اپنا جیون ساتھی چنتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور فرسودہ سوچ پائی جاتی ہے جو کہ ازدواجی زندگی کو بے سکون بنادینے کی سب سے بڑی وجہ ہے، وہ یہ کہ شادی سے پہلے لڑکے لڑکی کا ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، وقت گزارنا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج ، طبیعت اور سوچ سے ناواقف رہ جاتے ہیں اور شادی کے بعد جب ان کے مزاج اور عادات میں تفاوت سامنے آتا ہے تو ان کیلئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ شادی سے پہلے ہونا چاہئے تاکہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ آیاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟ ایک دوسرے کو برداشت کرسکتے ہیں؟
شادی میں طلاق سب سے اہم عنصر ہے اور ہمیں معاشرے سے اس بیہودہ سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ طلاق کوئی بری چیز ہے۔ طلاق کوئی بری یا معیوب چیز نہیں ہے۔ دو انسانوں کا ساری عمر ایک ساتھ رہنا بیشتر کیسز میں بہت ہی مشکل ہوتاہے چاہے وہ شروعات میں آپس میں کتنی ہی محبت کیوں نہ رکھتے ہوں۔ میاں بیوی کو صرف تب تک شادی کے بندھن میں بندھے رہنا چاہئے جب تک انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے خوش ہیں اور ان کی زندگی اچھی گزر رہی ہے۔ جب انہیں محسوس ہونے لگے کہ اب وہ مجبوراً ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کی زندگی میں کوئی مزہ نہیں رہ گیا تو دونوں کو بڑی آسانی سے آپسی رضامندی سے طلاق لے لینی چاہئے۔ ہمارے ہاں چونکہ زندگی میں لطف، راحت، سکون وغیرہ جیسی چیزوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اور اگر کوئی لڑکی اپنے والدین سے کہے کہ میں اپنے شوہر سے خوش نہیں ہوں یا میری زندگی میں سکون نہیں ہے تو اسکو تو ایک نہایت ہی غیر اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تمام آسائشوں، راحتوں وغیرہ کو مرنے کے بعد کی خیالی زندگی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اوراس دنیا کی زندگی کو تو بس جیسے تیسے کاٹنے پر زور دیا جاتا ہے۔۔ معاشرے سے فرسٹریشن ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس سوچ کو ختم کیا جائے، طلاق کو معاشرے میں نارملائز کیا جائے، طلاق کے بارے میں غلط تاثر ختم کیا جائے اور اس سوچ کو پروان چڑھایا جائے کہ طلاق کا مقصد افراد کی زندگی کو سکون فراہم کرنا ہے۔
ہمارے ہاں شادی کا تصور بھی نہایت گھسا پٹا اور فرسودہ ہے، جن دو افراد نے ایک ساتھ زندگی گزارنی ہوتی ہے، ان کی بجائے فیصلہ کون کرتے ہیں، ان کے والدین ، ان کے گھر کے بڑے۔ اور یہاں جنریشن گیپ کو بھی کلی طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے، وہ والدین جن کا اپنی اولاد سے عمر کا فرق کم از کم بیس پچیس سال کا تو ضرور ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اولاد کی سوچ، مزاج ، پسند ناپسند بھی ان کے جیسے ہی ہوگی یا ہونی چاہئے۔ وہ اپنی پسند ناپسند اور مزاج کے حساب سے اپنے بیٹے یا بیٹی کا جیون ساتھی چنتے ہیں، اور بھیڑ بکری کی طرح دو لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ چونکہ پورے معاشرے میں ہی یہی فرسودہ رِیت چل رہی ہے، لہذا بہت کم ہوتا ہے کہ اولاد ماں باپ سے بغاوت کرنے کی ہمت کرپائے۔ یہاں میں ان لڑکوں اور لڑکیوں کو داد دیتا ہیں جو سماج اور گھر کے جبر کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی مرضی سے اپنا جیون ساتھی چنتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور فرسودہ سوچ پائی جاتی ہے جو کہ ازدواجی زندگی کو بے سکون بنادینے کی سب سے بڑی وجہ ہے، وہ یہ کہ شادی سے پہلے لڑکے لڑکی کا ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، وقت گزارنا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج ، طبیعت اور سوچ سے ناواقف رہ جاتے ہیں اور شادی کے بعد جب ان کے مزاج اور عادات میں تفاوت سامنے آتا ہے تو ان کیلئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ شادی سے پہلے ہونا چاہئے تاکہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ آیاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟ ایک دوسرے کو برداشت کرسکتے ہیں؟
شادی میں طلاق سب سے اہم عنصر ہے اور ہمیں معاشرے سے اس بیہودہ سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ طلاق کوئی بری چیز ہے۔ طلاق کوئی بری یا معیوب چیز نہیں ہے۔ دو انسانوں کا ساری عمر ایک ساتھ رہنا بیشتر کیسز میں بہت ہی مشکل ہوتاہے چاہے وہ شروعات میں آپس میں کتنی ہی محبت کیوں نہ رکھتے ہوں۔ میاں بیوی کو صرف تب تک شادی کے بندھن میں بندھے رہنا چاہئے جب تک انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے خوش ہیں اور ان کی زندگی اچھی گزر رہی ہے۔ جب انہیں محسوس ہونے لگے کہ اب وہ مجبوراً ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کی زندگی میں کوئی مزہ نہیں رہ گیا تو دونوں کو بڑی آسانی سے آپسی رضامندی سے طلاق لے لینی چاہئے۔ ہمارے ہاں چونکہ زندگی میں لطف، راحت، سکون وغیرہ جیسی چیزوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اور اگر کوئی لڑکی اپنے والدین سے کہے کہ میں اپنے شوہر سے خوش نہیں ہوں یا میری زندگی میں سکون نہیں ہے تو اسکو تو ایک نہایت ہی غیر اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تمام آسائشوں، راحتوں وغیرہ کو مرنے کے بعد کی خیالی زندگی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اوراس دنیا کی زندگی کو تو بس جیسے تیسے کاٹنے پر زور دیا جاتا ہے۔۔ معاشرے سے فرسٹریشن ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس سوچ کو ختم کیا جائے، طلاق کو معاشرے میں نارملائز کیا جائے، طلاق کے بارے میں غلط تاثر ختم کیا جائے اور اس سوچ کو پروان چڑھایا جائے کہ طلاق کا مقصد افراد کی زندگی کو سکون فراہم کرنا ہے۔