افغانستان کے صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکرگاہ اور مغربی شہر ہرات میں طالبان اور افغان فوج کے مابین شدید لڑائی جاری ہے اور افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ طالبان کی پیش قدمی کو روکتے ہوئے انھیں واپس دھکیلا جا رہا ہے۔
مغربی شہر ہرات میں افغان حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شہر کے اندر لڑائی جاری ہے اور گذشتہ رات سے طالبان کے کئی ٹھکانوں پر فضائی بمباری کرتے ہوئے اُن کے شہر میں داخلے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
افغانستان میں فوجی آپریشن کے سربراہ جنرل سمیع سادات نے لشکر گاہ کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں کو چھوڑ دیں اس سے پہلے کہ سکیورٹی فورسز یہاں آپریشن شروع کریں۔
اس اعلان کے بعد اطلاعات کے مطابق لشکرگاہ سے عوام کا بڑی تعداد میں انخلا جاری ہے تاہم بی بی سی کو چند رہائشیوں نے بتایا کہ شدید لڑائی کی وجہ سے وہ شہر میں پھنس چکے ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے گذشتہ روز کابل کے علاقے شیرپور میں افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع بسم اللہ محمدی کے گھر پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس حملے میں چار حملہ آوروں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 20 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
افغان طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ متعدد خودکش حملہ آوروں نے ایک کار بم کے ذریعے کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس حملے کے وقت وزیرِ دفاع کے گھر پر ایک اہم ملاقات ہو رہی تھی اور حملے کے نتیجے میں انھیں شدید نقصان پہنچا ہے۔
اس حملے کے بعد دارالحکومت کابل میں افغان شہریوں نے گلیوں اور چھتوں پر آ کر افغان فورسز کی حمایت میں اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کے نعرے لگائے۔ اس سے قبل ہرات شہر میں بھی طالبان کی پیش قدمی روکنے کے بعد شہریوں کے جانب سے یہی نعرے لگائے گئے تھے۔
افغان صدر اشرف غنی نے اللہ اکبر کے نعروں سے متعلق ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ ’طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ اس ملک کی عوام نے اللہ اکبر پر اُن کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔‘
افغانستان میں نعرے لگانے کی اس مہم کا آغاز مغربی شہر ہرات سے شروع ہوا تھا۔ صدر غنی نے مزید کہا کہ ’ہرات کے باسیوں نے گذشتہ شب یہ ثابت کر دکھایا کہ اللہ اکبر نعرے کی نمائندگی کون کر رہے ہیں۔‘
اس کے جواب میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ ہمارا نعرہ ہے نہ کے امریکہ کے غلاموں اور سیکولرز کا۔‘
ادھر افغانستان کی وزارتِ دفاع کے مطابق تازہ فضائی حملوں کے نتیجے میں 75 طالبان ہلاک اور 17 زخمی ہوئے ہیں۔ اس وقت قندہار اور ہرات کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی لڑائی جاری ہے۔
وزارتِ دفاع کے مطابق سمانگن صوبے میں طالبان کے شیڈو گورنر مولاوی انس سمیت 40 طالبان ایک فضائی حملے میں ہلاک کر دیے گئے۔
افغانستان میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران افغانستان کے 25 صوبوں سے 32 ہزار خاندان اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ ننگرہار صوبے میں سب سے بڑی تعداد میں نقل مکانی دیکھنے میں آئی۔
ہرات کے گورنر عبدالصبور قانع نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں دعویٰ کیا کہ شہر کی حفاظت کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ عوامی لشکر بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔
’ہم ہرات کے باسیوں کو آپ کے توسط سے یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز جنگ کے میدان میں ہیں اور شہر کی حفاظت کر رہی ہیں۔ ہرات شہر طالبان کے قبضے میں نہیں جا رہا۔‘
ہرات شہر میں طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے ساتھ سابق جنگجو کمانڈر اسماعیل خان بھی میدان میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ ’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اللہ کی مدد سے دشمن کو شہر میں گھسنے نہ دیں۔‘
لشکرگاہ کے ایک شہری نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔ ’ایک طرف فضائی بمباری ہو رہی ہے اور دوسری جانب زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی محصور ہیں۔‘