
تبصرہ: راشداحمد
مسلم لیگ ق کے طارق بشیرچیمہ جو الیکشن 2013 اور الیکشن 2018 میں تحریک انصاف کی حمایت کی بدولت این اے 172 سے جیت چکے ہیں۔ آج کل وفاقی وزیر ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے خلاف تندوتیزبیانات دے رہے ہیں اور حکومت کو اتحادس ے نکلنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
طارق بشیرچیمہ جن کا تعلق بہاولپور سے ہے انہوں الیکشن 2018 میں 4000 ووٹوں سے فتح حاصل کی، انکے مدمقابل سابق ایم این اے چوہدری سعود مجید تھے جنہوں نے الیکشن 2008 میں پرویزالٰہی کو شکست دی تھی۔
طارق بشیرچیمہ نے این اے 172 سے106383 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ ن کے سعود مجید نے 101971 ووٹ حاصل کئے۔

الیکشن 2018 میں جب تحریک انصاف اور ق لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تو طے یہ پایا کہ تحریک انصاف این اے 172 میں طارق بشیرچیمہ کی حمایت کرے گی لیکن طارق بشیرچیمہ این اے 171 سے نہیں لڑیں گے تحریک انصاف کے نعیم الدین وڑائچ کو سپورٹ کریں گے۔
طارق بشیرچیمہ این اے 171 سے بھی آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کے نعیم الدین وڑائچ 11000 ووٹوں سے ہار گئے۔ طارق بشیرچیمہ نے این اے 171 سے 23012 ووٹ حاصل کئے تھے۔ اگر طارق بشیرچیمہ اس سیٹ سے نہ کھڑے ہوتے تو تحریک انصاف 12000 سے زائد ووٹوں سے یہ سیٹ جیت سکتی تھی۔

الیکشن 2018 ختم ہوا تو تحریک انصاف نے طارق بشیرچیمہ کو وفاقی وزیر ہاؤسنگ بنادیا ، طارق بشیرچیمہ وزارت کو انجوائے کرتے رہے لیکن جب بھی کوئی بجٹ یا حکومت پر بحران آتا تو طارق بشیرچیمہ بجائے حکومت کو سپورٹ کرنے کے حکومت کے خلاف بیانات دیدیتے۔
ایسے بہت سے مواقع آئے جب حکومت مشکل میں تھی تو طارق بشیرچیمہ ٹی وی پر آکر حکومت کو خوب لتاڑتے، ایک چینل پر طارق بشیرچیمہ حکومت پر تنقیدی نشتر برسارہے ہوتے تو دوسرے چینل پر کامل علی آغا حکومت کو آنکھیں دکھاتے جن کی جماعت کے پاس صرف 10 ووٹ تھے اور انہیں یہ سینیٹر بننے کیلئے 56 ووٹ درکار تھے اور وہ تحریک انصاف کے ووٹوں پر سینیٹر منتخب ہوگئے۔
آج کل بھی ایسی ہی صورتحال ہے، طارق بشیرچیمہ بار بار حکومتی اتحاد سے نکلنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانے کیلئے مختلف حربوں سے حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں لیکن گزشتہ روز انہیں اسد عمر کے اس بیان ق لیگ چند ضلعوں کی جماعت ہے سے بہت تکلیف پہنچی۔
طار ق بشیرچیمہ نے ایک چینل پر بیٹھ کر کہا کہ حکومت 3 سال سے ہماری بے عزتی کررہی ہے،ا س طرح مذاکرات نہیں ہوتے۔۔حکومت ہمیں اوقات یاددلانا چاہتی ہے کہ ہم ایک یا 2 ضلعوں کی پارٹی ہیں اور وزارت اعلیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
اسد عمر نے جو کہا وہ حقیقت پر مبنی ہے، مسلم لیگ ق چکوال سے ایک سیٹ جیتی وہ بھی تحریک انصاف کی مدد سے، اس حلقے سے تحریک انصاف کے پاس مضبوط امیدوار تھے لیکن تحریک انصاف نے پہلے پرویزالٰہی اور پھر چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک کو سپورٹ کیا۔
بہاولپور سے ق لیگ نے ایک ہی سیٹ جیتی طارق بشیرچیمہ کی لیکن تحریک انصاف نے یہ قیمت نعیم الدین وڑائچ کی شکست کی صورت میں ادا کی جن کی ہار کے ذمہ دار طارق بشیرچیمہ تھے۔
منڈی بہاؤالدین اور سیالکوٹ سے ق لیگ نے صرف صوبائی اسمبلی ایک سیٹ جیتی لیکن یہاں بیوروکریسی ق لیگ کی مرضی سے لگتی ہے۔
باقی رہا گجرات تو گجرات میں ق لیگ نے 2 سیٹیں جیتیں ایک چوہدری حسین الٰہی کی اور دوسری مونس الٰہی کی، دونوں سیٹوں پر تحریک انصاف نے ق لیگ کو سپورٹ کیا ۔مونس الٰہی والی سیٹ پر پہلے چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہوئے جب انہوں نے سیٹ چھوڑی تو مونس الٰہی کھڑے ہوئے، تحریک انصاف نے مونس الٰہی کی بھی بھرپور حمایت کی اور مونس الٰہی جیت کر وفاقی وزیر بن گئے۔
ق لیگ نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں جورویہ اپنایا ہے ، تحریک انصاف کا آئندہ الیکشن میں ق لیگ کی حمایت کرنا مشکل ہے، اگر تحریک انصاف نے آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو سپورٹ نہ کیا تو ق لیگ یقینی طور پر ان پانچ سیٹوں سے بھی محروم ہوجائے گی۔
آئندہ الیکشن میں ن لیگ کا ق لیگ کو سپورٹ کرنا بہت مشکل ہے جب ن لیگ کے پاس بہاولپور میں طارق بشیرچیمہ کے مقابلے میں سعود مجید جیسامضبوط امیدوار ہو، گجرات میں چوہدریوں کے مقابلے میں نوابزادہ فیملی، چوہدری مبشرحسین جیسے مضبوط امیدوار ہوں، چکوال میں پرویزالٰہی کے مقابلے میں مضبوط تمن برادری ہو تو وہ کیونکر ق لیگ کو سپورٹ کریں گے؟
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/tariq1122h.jpg