شہادت امام حسین رضی الله عنہ کا مقصد

Status
Not open for further replies.

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
islam_019.jpg



ماہ محرم الحرام میں ہر سال دنیا بھرمیں رہنے والے تمام مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی ، امام حسین ؓ کی مظلومانہ شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی اپنی مجالس میں اپنے اپنے رنگ میں ا ن کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں ۔

میں پاکستان کے تمام اہل نظر حضرات کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ آئیے ہم سب مل جل کر غور کریں کہ امام عالی مقامؓ کس بلند مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جان عزیز قربان کی اور اپنے کنبے کے کئی قیمتی افراد جن میں پاکباز عورتیں اور
معصوم بچے بھی شامل تھے، کی عظیم اور بے مثال قربانی بھی پیش کی ۔

کیا امامؓ حکومت حاصل کرنے کے لئے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لئے آپؓنے سردھڑ کی بازی لگائی تھی؟ہر وہ شخص جو امام حسین ؓکے بلند پایہ گھرانے اور ان کی اعلیٰ اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ حضرات اپنی ذات کے لئے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خونریزی کا خطرہ مول لے سکتے تھے۔

تاریخ اسلام کا بے لاگ جائزہ لینے والا ہر منصف مزاج شخص یہ تسلیم کرے گا کہ امام عالی مقامؓ کی دور بیں و دوررس نگاہیں اس وقت مسلمان معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح ، اس کے مزاج اور اس کے نظام میں ایک بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں، جسے روکنے کی جدوجہد کرنا وہ بہت ضروری سمجھتے تھے۔

وہ تغیر کیا تھا، کیا لوگوں نے اپنادین بدل لیا تھا؟کیا مملکت کا قانون جس پر عدالتوں میں فیصلے ہوتے تھے، بدل دیا گیا تھا؟تاریخ کے غائر مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ نہ لوگوں نے اپنا دین بدل لیاتھا، نہ مملکت کا قانون بدل دیا گیاتھا۔ وہ تغیر یہ تھا کہ امیر معاویہؓ کے بعد یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداءہو رہی تھی ، وہ اسلامی ریاست کے دستور ، اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ ایک صاحب نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے ، وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گا۔یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام عالیؓ مقام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لئے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔مولانا محمد علی جوہررحمتہ اللہ علیہ نے اسی لئے فرمایا تھا۔

قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت شروع ہی سے یہ رہی ہے کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتاتھا ، بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی طریقے سے اس عقیدہ و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھاکہ

۔ ملک خدا کا ہے ۔ کوئی فرد ، ادارہ یا کوئی طبقہ مسلمانوں کے ملک کا مالک نہیں ہے۔

۔ اسلامی ملک کے تمام باشندے خدا کی رعیت ہیں ، کسی بادشاہ ،جرنیل یا ڈکٹیٹرکے غلام یا رعیت نہیں۔بلکہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا کہ الخلق عیال اللہ ۔ یعنی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔

۔ مسلمانوں کی حکومت اپنی تمام رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جواب دہ ہے ۔ خدا کے سامنے جوابدہی کا یہ احساس بہت اہم ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے اور رعیت حکومت کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی گردن میں خدا کی اطاعت، بندگی اور غلامی کا قلادہ ڈالیں ۔ اس کے بعد ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ خدا کی رعیت پر خدا کا قانون نافذ کریں ۔ اپنے بنائے ہوئے کسی قانون یا ضابطے کے بجائے خدا کے قانون کے مطابق حکمرانی کریں اور مکمل اسلامی قانون جاری کریں ۔پہلے سے جاری کسی اسلامی قانون کو نہ منسوخ کریں نہ اس میں ایسی ترمیم کریں کہ اس کا حلیہ ہی بگڑ جائے ۔

لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا ، اس سے خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کرلیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے اور اس وقت دنیا کے دوسرے بادشاہوں کا جو نظریہ رائج تھا، یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان، مال ،آبرو، ہر چیز کا مالک ہے۔ ان میں سے جس چیز کو چاہے روند ڈالے،کوئی اسے پوچھنے والا نہ ہو۔ خدا کا قانون بعد میں مسلمان بادشاہوں کے زمانے میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا۔ بادشاہ اور ان کے خاندان اور امراءو حکام زیادہ تراس سے مستثنیٰ رہے۔

میری شیعہ مکتب فکر کے علمائے کرام اور ذاکرین حضرات سے یہ عاجزانہ گزارش ہے کہ اگر وہ محرم کی مجلسوں میں حضرت امام حسین ؓکی شہادت اور ان کی عظیم قربانی کے اس اصل مقصد کو بیان کیا کریں تو ان کے اس بیان سے نہ کسی شیعہ کو اختلاف ہوسکتا ہے اور نہ کسی سنی کو۔ پھر ملک میں محرم میں امن وامان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔حکومت کو کوئی غیر معمولی انتظامات نہیں کرنا پڑیں گے ۔ کسی جگہ سول انتظامیہ کی مدد کے لئے فوج طلب کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔اسی طرح میں سنی علمائے کرام سے بھی عرض کرتا ہوں کہ وہ امام حسین ؓ کی شہادت کا اصل مقصد بیان کرنے کے ساتھ اہل بیت کے فضائل اور ان کے ساتھ محبت کے تقاضے بھی بیان کریں ۔

آج وطن عزیز میں امن وامان کی خرابی جس حد تک پہنچ چکی ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی جو صورت پیدا ہوگئی ہے، افغانستان اورعراق کی تباہی کے بعد ایران کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ فلسطین کے مسلمان اسرائیل کے مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ غیر مسلم قوتیں مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑرہی ہیں جیسے دسترخوان پر بھوکے ٹوٹ پڑتے ہیں۔میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے باہمی اتحاد، اجتہاد اور جہاد کو ترک کردیا ہے۔ اس لئے ہمارے اندر اندرونی افتراق اور باہمی جنگ و جدل کا مرض کینسر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان ، مسلمان کا دشمن بن گیاہے۔ اس کی عزت کی دھجیاں اڑا رہا ہے ۔ ہمیں پوری کوشش کرکے اس صورت حال کو بدلنا چاہیے ۔

سنت الٰہی یہ ہے کہ دنیا میں قوموں کو جو کچھ پیش آتا ہے وہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ ظلم و تعدی ،حدود سے تجاوز ،باہمی رسہ کشی ،دولت پرستی اور نفاق، یہ وہ اعمال ہیں جو قومو ں کو ہلاک کردیتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں بلند مقاصد کے ساتھ لگن، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و محبت اور اس کے دین کے ساتھ مکمل وفاداری ، انفرادی اور اجتماعی کردارکی پختگی ،اصحاب اقتدار کا بلااستثنیٰ اور بے لاگ احتساب ، خوداحتسابی ، نظم وضبط اور استقامت ، یہ وہ اعمال ہیں ،جن کو اختیار کرنے کے نتیجے میں اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے اور نیچے سے بھی نعمتیں ابلتی ہیں۔ آئیے ہم عہد کریں کہ قوموں کو ہلاک کردینے والے اعمال کو ترک کرکے ہم ان اعمال کو اختیار کریں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مستحق بنادیں۔

عاشورہ محرم کے دنوں میں ہمیں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے اصل مقصد پر غور کرنا چاہیے ۔ نواسہ رسول اکرم،جگر گوشہ بتولؓکربلا کے شہید مظلوم ، خلق خدا کی مظلومیت اور اسلامی ریاست کے بنیادی دستور کی پامالی پر مغموم اور مضطرب ہونے والے حضرت امام حسینؓاور ان کے عالی مرتبہ کنبے کے افراد کی پاکباز عورتوں اور معصوم بچوں کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ اپنے اندر قربانی اور استقامت علی الحق کا بہت بڑا درس رکھتا ہے ۔ہمیں اس درس پر غور کرنا چاہیے۔ سید نا امام حسین ؓکی سیرت، دین پر ان کی ا ستقامت ،مصیبت میں انتہائی صبر و برداشت ، ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے اور اللہ اور اس کے آخری رسول کی عزت و آبرو اور اسلامی ریاست کے بنیادی دستور کی پامالی پر اپنا سب کچھ نثار کردینے کا سبق ہمیں دیتی ہے۔ ہمیں اس سبق کو یاد رکھنا چاہیے ۔

ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غور و فکر کریں کہ حضرت امام عالی مقامؓنے جو عظیم قربانی دی تھی، اس قربانی کی اصل روح ہمارے اندر کس حد تک پیدا یا بیدار ہوئی ہے او رہم قربانی کے حقیقی مفہوم سے کس حد تک آشنا ہوئے ہیں ۔ کیا ہم موجودہ وقت کے یزیدوں کے مقابلے میں قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ؟ کیا ہم اسلامی دستور کی پامالی پر اسی طرح مضطرب ہیں جس طرح حضرت امام حسینؓ مضطرب ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور عظیم قربانی پیش کرکے قیامت تک کے لئے سرخرو ہوگئے؟

 
Last edited:

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
غریب و سادہ و
[font=&amp]رنگین [/font]​
ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل ؑ

ذبیح عظیم
حضرت اسماعیل کی قُربانی کو کربلا سے کیوں بدلا گیا

وفديْناه بذبْحٍ عظيمٍ (سورۃ الصافات 107)
اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اس کو بدل دیا

ذبح اسماعیل علیہ السلام

بارگاہ خداوندی سے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم
اللہ جل جلالہ اپنے بندوں کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور انہیں آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ ان کی قوت ایمانی کا امتحان بھی لیتا ہے اور انہیں ارفع و اعلی مقامات پر فائز بھی کرتا ہے۔ انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات میں سب سے بلند مراتب پر فائز فرمایا اور اپنے قرب و وصال کی نعمتوں سے نوازا اسی طرح انہیں بڑی کٹھن منزلوں سے بھی گزرنا پڑا۔ انہیں بڑی سے بڑی قربانی کا حکم ہوا لیکن ان کے مقام بندگی کا یہ اعجاز تھا کہ سر مو حکم ربی سے انحراف یا تساہل نہیں برتا، ان کی اطاعت، خشیت اور محبت کا یہی معیار تھا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اور اس میں موجود جملہ نعمتوں کو اپنے مولا کی رضا کیلئے وقف کیے رکھا، حتی کہ اولاد جیسی عزیز ترین متاع کے قربان کرنے کا حکم بھی ملتا تو ثابت کردیا کہ یہ بھی اس کی راہ پر قربان کی جاسکتی ہے۔ جملہ انبیائے کرام اپنی شان بندگی میں یکتا اور بے مثال تھے لیکن سلسلہ انبیاء میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی داستان عزیمت بہت دلچسپ اور قابل رشک ہے۔ ان کے لیے اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک بہت بڑی آزمائش تھی لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورا اترے کیسے؟ قرآن کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَo فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍo فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَo فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِo وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَo إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُo وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍo
اے میرے پروردگار مجھ کو نیک بیٹا عطا فرما۔ پس ہم نے ان کو ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (اسمٰعیل) ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچے فرمایا اے میرے بیٹے، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں پس تم بھی غور کرلو کہ تمہارا کیا خیال ہے (اسمٰعیل نے بلا تردد) عرض کیا اے اباجان (پھردیر کیا ہے) جو کچھ آپ کو حکم ہوا کر ڈالئے (جہاں تک میرا تعلق ہے) آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے (اللہ کا) حکم مان لیا اور (ابراہیم نے) ان کو ماتھے کے بل لٹایا۔ اور ہم نے ان کو ندا دی کہ اے ابراہیم (کیا خوب) تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو یوں ہی بدلہ دیتے ہیں۔ (بے شک باپ کا بیٹے کے ذبح کے لئے تیار ہوجانا) یہ ایک بڑی صریح آزمائش تھی (حضرت ابراہیم اس آزمائش میں پورا اترے) اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔
(الصفت، 37 : 100 - 107)

 
Last edited:

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
It was the last effort to save Khalafat.

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس جدوجہد سے کیوں پیچھے رہے؟؟ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں

تاریخ کا غیر جانبدارانہ اور
صحیح روایات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رخت سفر امت کے اتحاد کو قائم رکھنے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والوں کی اصلاح کیلئے باندھا تھا

چاہیں گیے تو تاریخی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں
اور وہ بھی ان شا اللہ مستند اور صحیح سندوں کے ساتھ

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اختلاف یزید سے تو تھا ہی نہیں
وہ تو بیعت بھی کرنا چاہتے تھے...جس سے انھیں روکا گیا...میدان کربلا میں
 
Last edited:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس جدوجہد سے کیوں پیچھے رہے؟؟ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں

تاریخ کا غیر جانبدارانہ اور
صحیح روایات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رخت سفر امت کے اتحاد کو قائم رکھنے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والوں کی اصلاح کیلئے باندھا تھا

چاہیں گیے تو تاریخی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں
اور وہ بھی ان شا اللہ مستند اور صحیح سندوں کے ساتھ

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اختلاف یزید سے تو تھا ہی نہیں
وہ تو بیعت بھی کرنا چاہتے تھے...جس سے انھیں روکا گیا...میدان کربلا میں

دیگر اصحاب نے تسلیم کر لیا تھا کے ان کے پاس اتنی عددی قوت نہیں ہے کے حکومت کا مقابلہ کیا جائے

میں نے کہاں کہا کے آپ جنگ جدل کے لیے تشریف لے گئے تھے. آپ کی یزید سے ملاقات ہو جاتی تو شاید یہ گھتی کھل جاتی کے یزید کی بیعت کن شرائط پر کرتے. آپ کی بیعت دوسروں کے لیے بھی راستہ کھولتی

تیسری قوت اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئی. ملاقات نہیں ہوئی. خلافت کہیں دب گئی ابھی تک دبی ہے. ساری لڑائی اس بات کی ہو رہی ہے کے کون کیا تھا. ہم خود کیا ہیں کوئی سوچنا بھی نہیں چاہتا
 

ALMAHDI

Banned
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس جدوجہد سے کیوں پیچھے رہے؟؟ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں

تاریخ کا غیر جانبدارانہ اور
صحیح روایات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رخت سفر امت کے اتحاد کو قائم رکھنے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والوں کی اصلاح کیلئے باندھا تھا

چاہیں گیے تو تاریخی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں
اور وہ بھی ان شا اللہ مستند اور صحیح سندوں کے ساتھ

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اختلاف یزید سے تو تھا ہی نہیں

وہ تو بیعت بھی کرنا چاہتے تھے...جس سے انھیں روکا گیا...میدان کربلا میں
سب سے پہلے تو کان کھول کر سُن لو اگر تم فرزندِ رسول امامِ حسین علیہ السلام کی شانِ اقدس میں کچھ اچھا کہنے سے معذور ہو تو اُنکی توہین کے ارتکاب میں بھونکنے سے بھی پرہیز کرو۔ جیسا کہ اکثر دیکھا گیا ہے، تم ایڈمن کے وہابی دستے کی ملی بھگت سے آلِ نبی اولادِ علی علیہ السلام پر جھوٹ بکنے کی روایت برقرار رکھی تو ہم تمہارے خود ساختہ بھگوانوں کے بارے سچ بولنے پر مجبور ہونگے جس کے سامنے تمہاری برداشت بہت نحیف ثابت ہوگی۔


سید الشہدا نواسہِ رسول امامِ حسین علیہ السلام جن کی رگوں میں مولا علی مشکل کشا علیہ السلام کا خون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور بہتا تھا وہ کبھی بھی یزید پلید جو ایک غلیظ، حرامزادہ، فاسق و فاجر شرابی غاصب حکمران تھا کی بیعت نہیں کر سکتے تھے کہ حسین ابنِ علی حجتِ خدا و امرِ الہی کی انسانی صورت کا نام ہے اور امرِ الہی نعوذ باللہ کبھی بنو اُمیہ کے غاصب بادشاہوں کی تائید کے گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
aap hindwon ko apney mulk aur muzhab mien chain nhi aata
ju yehan pey muslim key bhais aur pakistani huney k dawaey

key sath bakwasiyaat phielatey ta key muslmaan apus mien muntashir hoon

ALLAH aap key oper reham kerey aur aap key khon ki gandagi ko saaf kerey

تاریخ کا مطالعہ اگر ایک مخصوص عینک لگا کر کرینگے تو اپنی پسند کی ہر صحیح و ضعیف کو قبول کرینگے بغیر تحقیق کے اور آپکواپنی پسند کا مواد ملبھی جائیگا

تاریخ کا مطالعہ غیر جانبدارانہ حثیت سے کرینگے تو صرف صحیح روایات کو قبول کرنا پڑیگا
اور اس صورت میں اگر بات من پسند نا بھی ہو تو قبول کرنی پڑتی ہے

چاہے دنیا ایک رخ پر چل رہی ہو
 

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
ابھی تک پوری کوشش کر رہا ہوں کے بحث متنازہ رخ اختیار نہ کرے
اسلام کی آڑ میں کفر کی بھیڑیں مسلسل جہنمی کتوں کو
نبی pbuh کے لخت جگر سے ملانے کی ناپاک کوششیں کر رہے ہیں
اگر صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو
یزید کے باپ دادا دادی کی اصلیت کھول کر بیان کرنا پڑے گی
بہتر ہے کے بحث تعمیری رہے تخریببی نہی
 

alibaba007

Banned
تاریخ کا مطالعہ اگر ایک مخصوص عینک لگا کر کرینگے تو اپنی پسند کی ہر صحیح و ضعیف کو قبول کرینگے بغیر تحقیق کے اور آپکواپنی پسند کا مواد ملبھی جائیگا

تاریخ کا مطالعہ غیر جانبدارانہ حثیت سے کرینگے تو صرف صحیح روایات کو قبول کرنا پڑیگا
اور اس صورت میں اگر بات من پسند نا بھی ہو تو قبول کرنی پڑتی ہے

چاہے دنیا ایک رخ پر چل رہی ہو




1427207862451457555220719543217614066.jpg

 

ALMAHDI

Banned

یزید پلید کی نسوں میں اُس ہندہ کا خون تھا جو رسول اللہ کے محبوب چچا سید الشہدا جناب حمزہ علیہ السلام کا کلیجہ چبا کر آنحضرت کو رُلانے والی تھی۔ جسے دیکھ کر سید الانبیا صلی اللہ علیہ و آٌہ وسلم نے اپنا "چہرہِ رحمت" بیزاری سے موڑ لیا۔ ذرا اُسکی نسلوں میں جاری نجاست و بدبختی کا اندازہ کیجئے جو رحمت العالمین کی نظرِ عنایت سے محروم رہی۔

دوسری طرف امام حسین علیہ السلام اُس سیدہ النساء العالمین فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے لختِ جگر ہیں جنہیں آتا دیکھ کر سردارِ انبیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ السلام احتراماً میں کھڑے ہو جاتے تھے۔

جہنم کا رزق، گستاخانِ آلِ نبی کو بھونکنے سے پہلے ایک لمحے کیلئے سوچنا چاہئیے کہ
دین است حسین، دین پناہ است حسین

حسین دین بھی ہے، دین کی پناہ بھی ہے، بھلا "دین" یزید پلید کی بیعت کرے گا؟
 

ALMAHDI

Banned

حسین کل بھی زندہ تھا اور اب بھی زندہ باد ہے
یزید کل بھی مُردہ تھا اور اب بھی مُردہ باد ہے
 

Fatema

Chief Minister (5k+ posts)
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس جدوجہد سے کیوں پیچھے رہے؟؟ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں

تاریخ کا غیر جانبدارانہ اور
صحیح روایات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رخت سفر امت کے اتحاد کو قائم رکھنے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والوں کی اصلاح کیلئے باندھا تھا

چاہیں گیے تو تاریخی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں
اور وہ بھی ان شا اللہ مستند اور صحیح سندوں کے ساتھ

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اختلاف یزید سے تو تھا ہی نہیں
وہ تو بیعت بھی کرنا چاہتے تھے...جس سے انھیں روکا گیا...میدان کربلا میں


استغفراللہ۔ ۔ ۔ کہاں کل ایمان کا بیٹا۔ ۔اور کہاں فاسق و فاجر کی بیعت
 

RastGo

Banned
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس جدوجہد سے کیوں پیچھے رہے؟؟ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں

تاریخ کا غیر جانبدارانہ اور
صحیح روایات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رخت سفر امت کے اتحاد کو قائم رکھنے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والوں کی اصلاح کیلئے باندھا تھا


چاہیں گیے تو تاریخی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں
اور وہ بھی ان شا اللہ مستند اور صحیح سندوں کے ساتھ

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اختلاف یزید سے تو تھا ہی نہیں
وہ تو بیعت بھی کرنا چاہتے تھے
...جس سے انھیں روکا گیا...میدان کربلا میں


امام حسین ؑعلیہ السلام کا موقف پہلے ہی سے معیّن تھا ، کیا اب تک بنو امیہ کے حاکموں نے کسی ہاشمی کو اپنے قوت و زور بازوسے ڈرایا تھا تاکہ آج حسین ؑعلیہ اسلام یزید کے قتل کی دھمکی سے ڈرجائے ،یا ذلت کی زندگی کے لئے بیعت کرے ؟ ان دونوں کا جواب امام حسین ؑ کے کلمات اور بیانات میں فراوان ملتا ہے ۔ بے شک اس راستے میں اپنے نانا ﷺ کے دین کو بچانے اور بابا علی مرتضی ؑمشکل کشاء کی سیرت زندہ کرنے کے لئے صرف اپنا سر ہی نہیں بلکہ بہتر سروں کا قربانی بلکہ اہل حرم کا اسیری کو بھی پیش کرنے کے لئے تیار ہے ؛ جن کی شجاعت زبان زد خاص و عام ہے، اس کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :
(ان کان دین محمد لم یستقم الا بقتلی ، فیا سیوف قد خذینی ) یعنی اے نانا ﷺ کی دین اگر میرے قتل کے بغیر زندہ نہیں ہوسکتی ہے تو اے تلوارو آیئے مجھ حسین کو قطعہ قطعہ کردو !
و مثلی لا یبایع مثلہ) یعنی مجھ جیسا حسین ؑ اس جیسے کی کبھی بھی بیعت نہیں کرسکتا ؛
لَيْسَ الْمَوْتُ فی سَبيلِ الْعِزِّ إِلاّ حَياةً خالِدَةً وَ لَيْسَتِ الْحَياةُ مَعَ الذُّلِّ إِلاَّ الْمَوْتُ الَّذی لا حَياةَ مَعَهُیعنی عزت کی راہ میں مرنا ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے ، اور ذلت کے ساتھ زندہ رہنا ایسی موت ہے کہ جس کے ساتھ کوئی زندگی نہیں ہے ۔
موتٌ فی عزِّ خیرٌ من حیاةٍ فی ذلٍّ[iii]یعنی عزت و آزادی کے ساتھ مرنا بہتر ہے، ذلت و پستی کے ساتھ زندگی کرنے سے ۔
الموتُ اولی من رکوبِ العار[iv] یعنی ننگ و عار اور ذلت کو قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے.
انّی لا اَری الموتَ الّا سعادةً و لا الحیاة مع الظالمین الّا برماً [v] یعنی عزت کے ساتھ مرنا سعادت ہے اور ظالمین کی سائے میں ذلت کے ساتھ زندگی کرنا موت کے سوا کچھ نہیں ہے

[/FONT][FONT=Alvi Nastaleeq v1.0.0]۔ نفس المهموم،ص562 ؛ [/FONT]
[/FONT]

[/FONT][FONT=Alvi Nastaleeq v1.0.0]۔ [/FONT][FONT=Alvi Nastaleeq v1.0.0]نفس المهموم،ص 562 ؛ مثیر الاحزان ص 85[/FONT]​
[/FONT]

[/FONT][FONT=Alvi Nastaleeq v1.0.0]۔ [/FONT][FONT=Alvi Nastaleeq v1.0.0]لهوف ص 138 ؛ مثیر الاحزان ص 44[/FONT]​
[/FONT]
 

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
Fake pics upload na kro yar...daleel se baat kro

[h=2]واقعہ حرہ
[/h]یزید نے اہل مدینہ کو بیعت پر مجبور کرنے کے لیے مسلم بن عقبہ کو دس ہزار فوجیوں کے ساتھ حجاز روانہ کیا۔ اہل مدینہ نے شامی افواج کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا مگر تین دن کی جنگ کے بعد شکست کھائی۔ شامی افواج میں اکثریت عیسائی فوجیوں کی تھی جنھوں نے مسلمانوں کی عزت و آبرو پر بڑے بے دردی سے ہاتھ ڈالا اور ان کے مال اسباب کو جی بھر کر لوٹا۔ اس تباہی سے جو لوگ زندہ بچ گئے انھوں نے بیعت کر لی ۔ تاریخ اسلام میں اس شرمناک واقعہ کو سانحہ حرہ اور واقعہ حرہ کا نام دیا جاتا ہے

ان کے لئے جو یزید کو انسان کا درجہ دینے کے بارے سوچ بھی سکتے ہیں اگر اس کربلا میں حسین دشمنی کی وجہ سے وو یزید کے ساتھ ہیں تو موہبت یزید میں نبی کی تردید کرنا واجب ہوگا ان پر
 

ALMAHDI

Banned

سید الانبیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلِ وسلم نے فرمایا: الحسین و منی و انا من الحسین
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں


کوئی صاحبِ ایمان و عقل سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ جس حسینِ عظیم الشان کو رسول اللہ نے "بقائے رسالت" قرار دیا وہ ہندہ کے پوتے یزید پلید کی بیعت کرے گا؟
 

khandimagi

Minister (2k+ posts)
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس جدوجہد سے کیوں پیچھے رہے؟؟ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں

تاریخ کا غیر جانبدارانہ اور
صحیح روایات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رخت سفر امت کے اتحاد کو قائم رکھنے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والوں کی اصلاح کیلئے باندھا تھا

چاہیں گیے تو تاریخی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں
اور وہ بھی ان شا اللہ مستند اور صحیح سندوں کے ساتھ

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اختلاف یزید سے تو تھا ہی نہیں
وہ تو بیعت بھی کرنا چاہتے تھے...جس سے انھیں روکا گیا...میدان کربلا میں

ہوسکتا ہے آپ کے پاس جامع تاریخی حقایق ہوں، ہو سکتا ہے آپ کے پاس مستند روایات ہوں
مگر ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کا ایک طبقہ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق
رسومات کرنے جارہا ہے،،اس طرح کی بات دل آزاری کا سبب بنے گی،، اور نہ جانے یہ دل آزاری ،،ٹینشن میں تبدیل ہوکر کس حادثہ کا سبب بنے
آپ کے احترام کے ساتھ آپ سے عرض ہے کہ اپ جس چیز کو سچ سمجھ رہے ہیں،،اسے مناسب موقع پر ظاہر کیجے گا

 
Status
Not open for further replies.

Back
Top