Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
پاک فضائیہ کی فتح یابی کا جھومر اپنے سر پر سجائے ہمارے نئے فیلڈ مارشل صاحب نے قوم کو باور کروادیا کہ لڑے چاہے جو بھی، جیت کا کریڈٹ صرف پاکستان آرمی کا ہے۔
خیر، جو شخص ملک کے اندر ہی اپنی عوام کو الیکشن ہروانے کا تمغہ امتیاز سینے پر سجائے پھرتا ہو، اور اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برسانے کے ہنر میں یکتا ہو، اسکی قابلیت اور اہلیت میں کیا شک ہوسکتا ہے؟
پاکستان میں اس مارشل لاء کی تاریخ بہت لمبی ہے، اسی لیئے بہت زیادہ صاف بھی ہے۔ پاکستان نے اس سے پہلے بھی بہت سے آمر دیکھے ہیں اور پھر تاریخ نے انکا انجام بھی ہمارے سامنے رکھا ہے۔
جب محترمہ فاطمہ جناح کا الیکشن چوری ہوا، ملک کا بٹوارہ سامنے تھا۔ جب بھٹو کو پھانسی لگوائی گئی، تو اگلے دس سال تک پیپلز پارٹی کی کمر توڑنے کی کوششیں جاری رہیں، لیکن دس سال بعد ایک طیارے کے حادثے کے بعد قوم نے اسی کی بیٹی کو اقتدار سنبھالتے ہوئے دیکھا۔ مشرّف صرف ایک چیف جسٹس کی ریلی کی مار نکلا۔
دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف یہ حکومتی اور فوجی پارٹنرشپ کتنی دیر نکالتی ہے؟
دراصل ہر آمریت کو ہمیشہ سامراجی طاقتوں کا سہارا رہا ہے، لیکن بدلتے ہوئے حالات میں انھیں انھی سامراجی طاقتوں نے بے تخت بھی کیا ہے۔ جہاں ایّوب خان امریکہ کے لیئے روس کی جاسوسی کرتا پکڑا گیا، وہیں افغانستان جہاد اور جنرل ضیاءالحق کے کردار پر کسی کو شبہہ نہیں۔ مشرّف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن ان تمام جرنیلوں کو ہمیشہ کام ختم ہونے پر تاریخ کے کوڑے دان میں ہی پھینکا گیا۔ تو عاصم منیر صاحب کس خوش فہمی میں ہیں؟ یہ معلوم نہیں۔
دوسری جانب، فی الوقت یہ بھی واضع نہیں کہ کوئی سامراجی طاقت اس وقت کس مقصد کے لیئے انکی پشت پناہی کرے گی؟ ایّوب، ضیاء اور مشرّف تو بساط کے مہرے تھے، لیکن عاصم منیر کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے سامراجی طاقتوں کو دینے کے لیئے، سوائے اسکے کہ خان کو جیل کے اندر رکھے اور پاکستان کو بین الاقوامی طور پر متحرک نہ ہونے دے۔
جی، تو اسرائیل کی جارحیت کے خلاف پاکستان فوج نے کتنے بیان دیئے؟
خان کے دور میں تو اس پر کھلبلی مچی ہوئی تھی۔
اسلاموفوبیا ڈے منوانے پر سامراجی طاقتوں کے دانت کھٹے ہوئے جارہے تھے کہ جس اسلام کو انھوں نے اتنی مشکل سے دہشتگردی کے ساتھ نتھی کیا تھا، اس شیشے کی عمارت پر عمران خان نے پہلا پتھر اٹھا کر مارا۔
آج جس طرح سے ہم ترکی کے صدر کا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ بھارت کی جارحیت کے خلاف انھوں نے ہمارے ساتھ یکجہتی کی اعلیٰ مثال قائم کی، اسی اردگان اور مہاتیر محمد کی بلائی کانفرنس میں ہماری فوج نے خان کو جانے سے منع کیا۔
تو اب اسمیں شک کی گنجائش رہ نہیں جاتی کہ عاصم منیر صاحب کو تب تک پشت پناہی رہے گی جب تک فلسطین کا مسئلہ اسرائیل اپنی مرضی سے حل نہیں کرلیتا۔ ہمارے خوبرو فیلڈ مارشل صاحب اسی طرح ہمیں کبھی چڈی اور کبھی بنیان کی ادلا بدلی میں مصروف رکھیں گے۔
چین کے خلاف پاکستان کو استعمال کے قابل ہی نہیں چھوڑا جائے گا۔ اسکا انتظام چینی بخوبی کرچکے ہیں اور اگر ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی گئی تو عمران خان کو جیل سے باہر نکالنے والا چین ہوگا۔
دوسری جانب، اگر پاکستان امریکہ کی اقتصادی جنگ میں چین کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، تو امریکہ کے لیئے خان ضروری ہو یا نہ ہو، عاصم منیر سخت غیر ضروری بوجھ بن جائے گا۔
تیسری جانب روس اس وقت کھڑا امریکہ اور چین کو دیکھ رہا ہے۔ ان دونوں طاقتوں کی لڑائی میں اسکا اپنا فائدہ ہے۔ یہ دونوں کمزور ہونگے تو روس ان دونوں کے مقابلے میں طاقتور نظر آئے گا۔ لیکن کبھی امریکہ کو چین کے اوپر حاوی نہیں ہونے دے گا۔ اس لیئے خان اس کے لیئے بھی ایک بلواسطہ نہ سہی، لیکن بلاواسطہ ایک ضروری ہستی ہے۔
اس کے علاوہ، مشرقِ وسطیٰ میں لگی جنگوں میں بھی روس بے تحاشہ ملوّث ہے اور اس لحاظ سے ایران اور شام اس کے لیئے اہم ہیں۔ اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایران میں زیادہ کاروائیاں کرنے پر امریکہ کی جانب سے معمور ہوئی، تب بھی اس آمریت کو روس کا سامنا ہوگا اور اس مرتبہ روس میں گوربا چوف نہیں بیٹھا ہوا۔ خان کے روس کے دورے اور اسی دن روس کے یوکرین پر حملے کے اندر ایک بہت واضع پیغام مضمر نظر آتا ہے۔
قصّہ مختصر یہ کہ اس آمریت کی جڑیں اس مرتبہ بہت کمزور ہیں۔ ایک ذرا سی لغزش اسکو شمشان گھاٹ پہنچا سکتی ہے۔
پہلے کے آمروں کی بات اور تھی اور اس وقت یہاں بین الاقوامی طاقتوں کی جنگ کا نقشہ کچھ اور تھا۔
چار دِن بنیان بیچ لیں، اس کے بعد پھر سے پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال، بھارت کے ساتھ تناوٗ اور ملک کے اندر دہشتگردی کی فصلیں پھر قدِ آدم ہوئی انھیں ناک چڑھا رہی ہونگی۔
لہٰذا عقل کو ہاتھ ماریں۔
خیر، جو شخص ملک کے اندر ہی اپنی عوام کو الیکشن ہروانے کا تمغہ امتیاز سینے پر سجائے پھرتا ہو، اور اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برسانے کے ہنر میں یکتا ہو، اسکی قابلیت اور اہلیت میں کیا شک ہوسکتا ہے؟
پاکستان میں اس مارشل لاء کی تاریخ بہت لمبی ہے، اسی لیئے بہت زیادہ صاف بھی ہے۔ پاکستان نے اس سے پہلے بھی بہت سے آمر دیکھے ہیں اور پھر تاریخ نے انکا انجام بھی ہمارے سامنے رکھا ہے۔
جب محترمہ فاطمہ جناح کا الیکشن چوری ہوا، ملک کا بٹوارہ سامنے تھا۔ جب بھٹو کو پھانسی لگوائی گئی، تو اگلے دس سال تک پیپلز پارٹی کی کمر توڑنے کی کوششیں جاری رہیں، لیکن دس سال بعد ایک طیارے کے حادثے کے بعد قوم نے اسی کی بیٹی کو اقتدار سنبھالتے ہوئے دیکھا۔ مشرّف صرف ایک چیف جسٹس کی ریلی کی مار نکلا۔
دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف یہ حکومتی اور فوجی پارٹنرشپ کتنی دیر نکالتی ہے؟
دراصل ہر آمریت کو ہمیشہ سامراجی طاقتوں کا سہارا رہا ہے، لیکن بدلتے ہوئے حالات میں انھیں انھی سامراجی طاقتوں نے بے تخت بھی کیا ہے۔ جہاں ایّوب خان امریکہ کے لیئے روس کی جاسوسی کرتا پکڑا گیا، وہیں افغانستان جہاد اور جنرل ضیاءالحق کے کردار پر کسی کو شبہہ نہیں۔ مشرّف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن ان تمام جرنیلوں کو ہمیشہ کام ختم ہونے پر تاریخ کے کوڑے دان میں ہی پھینکا گیا۔ تو عاصم منیر صاحب کس خوش فہمی میں ہیں؟ یہ معلوم نہیں۔
دوسری جانب، فی الوقت یہ بھی واضع نہیں کہ کوئی سامراجی طاقت اس وقت کس مقصد کے لیئے انکی پشت پناہی کرے گی؟ ایّوب، ضیاء اور مشرّف تو بساط کے مہرے تھے، لیکن عاصم منیر کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے سامراجی طاقتوں کو دینے کے لیئے، سوائے اسکے کہ خان کو جیل کے اندر رکھے اور پاکستان کو بین الاقوامی طور پر متحرک نہ ہونے دے۔
جی، تو اسرائیل کی جارحیت کے خلاف پاکستان فوج نے کتنے بیان دیئے؟
خان کے دور میں تو اس پر کھلبلی مچی ہوئی تھی۔
اسلاموفوبیا ڈے منوانے پر سامراجی طاقتوں کے دانت کھٹے ہوئے جارہے تھے کہ جس اسلام کو انھوں نے اتنی مشکل سے دہشتگردی کے ساتھ نتھی کیا تھا، اس شیشے کی عمارت پر عمران خان نے پہلا پتھر اٹھا کر مارا۔
آج جس طرح سے ہم ترکی کے صدر کا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ بھارت کی جارحیت کے خلاف انھوں نے ہمارے ساتھ یکجہتی کی اعلیٰ مثال قائم کی، اسی اردگان اور مہاتیر محمد کی بلائی کانفرنس میں ہماری فوج نے خان کو جانے سے منع کیا۔
تو اب اسمیں شک کی گنجائش رہ نہیں جاتی کہ عاصم منیر صاحب کو تب تک پشت پناہی رہے گی جب تک فلسطین کا مسئلہ اسرائیل اپنی مرضی سے حل نہیں کرلیتا۔ ہمارے خوبرو فیلڈ مارشل صاحب اسی طرح ہمیں کبھی چڈی اور کبھی بنیان کی ادلا بدلی میں مصروف رکھیں گے۔
چین کے خلاف پاکستان کو استعمال کے قابل ہی نہیں چھوڑا جائے گا۔ اسکا انتظام چینی بخوبی کرچکے ہیں اور اگر ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی گئی تو عمران خان کو جیل سے باہر نکالنے والا چین ہوگا۔
دوسری جانب، اگر پاکستان امریکہ کی اقتصادی جنگ میں چین کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، تو امریکہ کے لیئے خان ضروری ہو یا نہ ہو، عاصم منیر سخت غیر ضروری بوجھ بن جائے گا۔
تیسری جانب روس اس وقت کھڑا امریکہ اور چین کو دیکھ رہا ہے۔ ان دونوں طاقتوں کی لڑائی میں اسکا اپنا فائدہ ہے۔ یہ دونوں کمزور ہونگے تو روس ان دونوں کے مقابلے میں طاقتور نظر آئے گا۔ لیکن کبھی امریکہ کو چین کے اوپر حاوی نہیں ہونے دے گا۔ اس لیئے خان اس کے لیئے بھی ایک بلواسطہ نہ سہی، لیکن بلاواسطہ ایک ضروری ہستی ہے۔
اس کے علاوہ، مشرقِ وسطیٰ میں لگی جنگوں میں بھی روس بے تحاشہ ملوّث ہے اور اس لحاظ سے ایران اور شام اس کے لیئے اہم ہیں۔ اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایران میں زیادہ کاروائیاں کرنے پر امریکہ کی جانب سے معمور ہوئی، تب بھی اس آمریت کو روس کا سامنا ہوگا اور اس مرتبہ روس میں گوربا چوف نہیں بیٹھا ہوا۔ خان کے روس کے دورے اور اسی دن روس کے یوکرین پر حملے کے اندر ایک بہت واضع پیغام مضمر نظر آتا ہے۔
قصّہ مختصر یہ کہ اس آمریت کی جڑیں اس مرتبہ بہت کمزور ہیں۔ ایک ذرا سی لغزش اسکو شمشان گھاٹ پہنچا سکتی ہے۔
پہلے کے آمروں کی بات اور تھی اور اس وقت یہاں بین الاقوامی طاقتوں کی جنگ کا نقشہ کچھ اور تھا۔
چار دِن بنیان بیچ لیں، اس کے بعد پھر سے پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال، بھارت کے ساتھ تناوٗ اور ملک کے اندر دہشتگردی کی فصلیں پھر قدِ آدم ہوئی انھیں ناک چڑھا رہی ہونگی۔
لہٰذا عقل کو ہاتھ ماریں۔