کراچی: شاہ زیب کے والدین کی جانب سے قاتلوں کو معافی دینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔
زیادہ ترلوگوں نے مقتول کے والدین کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ کچھ کاکہنا تھا کہ والدین نے یہ اقدام خوف اور دھمکیوں کے باعث کیا۔ سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا کہ شاہ زیب25 دسمبر کو نہیں بلکہ اب مرا ہے ، یہ بھی لکھا گیا باپ بڑا نہ بھیا ، سب سے بڑا روپیہ ، پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آئندہ اب کوئی کسی کے قتل پر ہمدردی کے لیے بھی ساتھ کھڑا نہیں ہوگا ، شاہ زیب کے والدین کا یہ اقدام ناانصافی پر مبنی ہے۔ کسی نے یہاں تک بھی لکھا کہ ابھی تو ایک شاہ زیب مرا ہے ، آئندہ نجانے کتنے شاہ زیب مارے جائیں گے ۔
سوشل میڈیا پر شہریوں کا کہنا ہے کہ شاہ زیب کے قاتلوں کو اس کے والدین نے تو معاف کردیا لیکن ہم معاف نہیں کریں گے ، ہمارے جذبات سے کھیلا گیا ، والدین کے اس اقدام سے ہمارے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ شاہ زیب کے اہل خانہ اس کے قتل کے وقت تنہا تھے لیکن اب تو ہزاروں افراد ان کے ساتھ تھے، پھر بھی انھوں نے یہ قدم اٹھایا ، سوشل میڈیا پر ایک تبصرہ یہ بھی سامنے آیا کہ شاہ زیب کے والدین کو خوف ، دبائو اور دھمکیوں کا سامنا ہوگا ، انھیں اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی تو بچانا ہوگا ۔
Han shahzeb abh mara hai aur usky parents nay he usay mara hai.
Diat katal amad par nahi hoti , ye kanon quran ky mutabiq nahi isay badal daina chaye nahi to rooz iss mulk main ramond davis peda hotay rahin gay aur greeb rooz martay rain gay.
Issay saza zaroor milni chahiyay jo shaksh muashray kay liya fasad ka bais babnay ka khatra ho uss ko muafi nahi ho sakti. mout ki saza mat do magar ussay 10 saal kay liyay ander rakho.
some ulema say that there can not be any pardon of qatale amad (a killing by will).the muaafi and diyyat is only applicable if one kills another person by mistake.like while driving a car you kill someone by accident.....observe how Pakistani society distorts islam to benefit their rich and pawa people
کراچی(وقائع نگار+ایجنسیاں) شاہ زیب قتل کیس میں مقتول کے ورثاءنے تمام ملزمان کو معاف کردیا۔ شاہ زیب کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ قصاص و دیت کے تحت معافی فی سبیل اللہ ہوئی، اس حوالے سے مقتول کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب خان، والدہ اور بہنوں نے بیان حلفی سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ ملزمان نے سزا کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے۔ شاہ زیب کے ورثاءکی جانب سے بیان حلفی کے بعد سندھ ہائی کورٹ معاملے کا فیصلہ کرے گی۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے شاہ رخ سمیت 4ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی، شاہ زیب کو گزشتہ سال 25 دسمبرکو ڈیفنس میں اسکی بہن کے ولیمے کے روز قتل کیا گیا تھا۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت جبکہ ملزمان سجاد تالپور اور غلامرتضیٰ لاشاری کو عمر قید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ مقدمے کی سماعت میں استغاثہ کے23 جبکہ صفائی میں 7گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔ اس دوران 4 بار سرکاری وکلاءبھی تبدیل ہوئے۔ انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمے کا فیصلہ سات روز میں کیا جانا تھا لیکن کیس کی پیچیدگیوں کے باعث کارروائی 2 ماہ اور 20 دن میں مکمل کی گئی۔ واقعے میں شاہ رخ جتوئی، نواب سراج علی تالپور، ان کے بھائی نواب سجاد علی تالپور اور ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری پر الزام عائد کرکے 4 ملزمان کو گرفتارکرلیا گیا تھا جبکہ تین ملزمان مفرور ہیں جنہیں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔ آئی این پی کے مطابق مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہوگیا میڈیا میں اس واقعہ کی ہونے والی بے پناہ کوریج کی وجہ سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد ملزم شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان واپس لایا گیا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم کے والد سکندر جتوئی نے ورثاءکو 30 کروڑ روپے دیت کی پیشکش کی رپورٹس بھی میڈیا پر آئی تھیں جسے مقتول کے والد، والدہ اور بہنوں نے مسترد کردیا تھا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی مقتول کے اہل خانہ بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ملزمان کی طرف سے ورثاءکو 50 کروڑ کے لگ بھگ دیت کی مد میں بیرون ملک ادائیگی ہوئی۔نجی ٹی وی کے مطابق شاہ زیب قتل کیس کے فریقوں میں ڈیل میں 2 سیاسی شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔ ذرائع کے مطابق ڈیل دبئی میں ہوئی، معافی کے بدلے اہل خانہ کو بھاری معاوضہ دیا گیا۔ ڈی ایس پی اورنگزیب علالت کے باعث میڈیکل چھٹیوں پر دبئی میں ہیں۔ دونوں فریقین معاہدے سے کسی کو آگاہ نہیں کریں گے۔ سیاسی شخصیات کی جانب سے شاہ زیب خاندان کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ دوسری جانب کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹیڈیز کے سربراہ ڈاکٹر شکیل نے کہا ہے کہ جان بوجھ کر کئے گئے قتل کی سزا صرف موت ہے، اس میں خون بہا نہیں ہوسکتا جبکہ غلطی سے قتل ہو گیا تو دیت کے ذریعے معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔ قتل اور قتل خطا الگ الگ معاملات ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق دونوں خاندانوں کے درمیان 35 کروڑ روپے میں معاملات طے ہوئے۔ شاہ زیب کے والد اور اہل خانہ کو آسٹریلیا کا رہائشی ویزا جاری کیا گیا ہے اور انکے جلد آسٹریلیا روانگی کا امکان ہے۔ شاہ زیب کے اہل خانہ نے حلف ناموں میں کہا ہے کہ ہم نے چاروں ملزمان کو بغیر کسی دباﺅ اور لالچ کے معاف کردیا۔ اللہ کے نام پر قاتلوں کو معاف کرتے ہیں۔ ہم قصاص اور دیت کا حق بھی معاف کرتے ہیں۔ عدالت ملزمان کو بری کر دے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ شاہ زیب کے اہل خانہ نے 17جولائی کو حلف نامے عدالت میں جمع کرائے۔
نو عمر مقتول شاہ زیب کے والدین نے35کروڑ روپے لے کر بیٹے کا خون بھلا دیا۔
گویا یہ ملک ریمنڈ ڈیوسوں کی جاگیر ہے۔ قتل کرو او رپیسے دے کر چھوٹ جاؤ۔ یہ سمجھوتہ نہیں ہے، پاکستان کے نیم جان ضمیر کے منہ پر ایک اورطمانچہ ہے۔
سمجھوتے کا فوری مطلب تو یہی ہے کہ35کروڑ میں بیٹے کی لاش بیچ دی لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ پورے خاندان کو فنا کرنے کی دھمکیاں تھیں۔ چنانچہ بااثر وڈیرہ خاندان نے آخری موقع یہ کہہ کر دیا کہ لو، اتنے روپے سنبھالو اور ملک بدر ہو جاؤاور سنو،خبردار جو کبھی واپس لوٹے، ہمارے بیٹوں کا خون بہت غیرت مند ہے۔
مقتول شاہ زیب کا گھرانہ قدرے دولت مند اور بااثر تھا، اس لئے اتنا ہوا کہ قاتل کچھ ماہ کے لئے جیل رہے ورنہ عام آدمی کے معاملے میں تو یہ بھی نہیں ہوتا۔ اخبارات میں کون سا دن ہے جب یہ خبر(غیر نمایاں) نہیں چھپتی کہ بھائی کے قتل کی پیروی کرنے والے بھائی کو، بیٹے کے قتل کی پیروی کرنے والے باپ کو اور باپ کے قتل کی پیروی کرنے والے بیٹے کو بھی مار دیا ۔ مقتول کا پورا خاندان مارنا ہمارے دولت مندوں کی غیرت کا بنیادی پتھر ہے۔ اور لاکھوں افراد کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے اور اس دن گویا سورج مغرب سے نکلے گا جب عام آدمی کے بیٹے کو بھی شاہ زیب سمجھ کر اس کے قتل پر کوئی ایکشن لے گا۔
وڈیرہ شاہ رخ جتوئی کوشاہ زیب کے قتل پر سزا ہوئی تھی تب اس نے پورے یقین سے وکٹری کا نشان بنایا تھا۔یہ یقین برحق نکلا۔
وڈیرے کو وکٹری مل گئی، مقتول کے لواحقین کو ملک بدری جو ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ساتھ وہ نہیں ہو اجو اس ملک کے کروڑوں لاوارث عام آدمیوں سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا جائیگا۔