شاہ دولہ کے سائنسی چوہے | Sajid Qalam Blog

AwaZ-e-HaQ

MPA (400+ posts)
شاہ دولہ کے سائنسی چوہے اور ڈی این اے کی شہادت
حوالہ و مکمل: ساجد قلم بلاگ


نیشنل انسٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ فیصل آباد میں ہمارا تیسرا ماہ شروع ہو چکا تھا، اپنی یونیورسٹی کے ہم چار طلباء و طالبات تھے جو ایک خصوصی اکیڈمک ٹریننگ کے سلسلے میں یہاں مختلف لیبارٹریز میں مختلف قسم کے ٹیسٹ اور تجربات کر رہے تھے، اسی سلسلے کی کڑی میں اب ہم ہیلتھ ڈویژن میں آئے تھے ، ہیلتھ ڈویژن پنجاب بھر میں ایک عرصے سے نبجی کی مقبولیت کا باعث بنا رہا کیونکہ جینیٹک سائنس کے ابتدائی دنوں میں یہاں کا ہیپا ٹائٹس پی سی آر بہت زیادہ معروف تھا۔ یوں ہمارا پہلا پالا ہی یہاں اسی ٹیسٹ سے پڑا۔ ہم چار طلباء و طالبات کو کہا گیا کہ آپ میں کوئی دو افراد اپنے خون کے نمونے دیں تاکہ اس پر پی سی آر تجربہ کیا جائے۔ دو طالبات نے اپنے خون کی قربانی دی اور یوں سارا دن مختلف مراحل کے ساتھ پی سی آر کا عمل چلتا رہا۔ آخر کار نتیجہ خیز مرحلے میں جب ہماری نظر جیل ڈاک سسٹم کی اسکرین پر پڑی تو نتائج حیران کن تھے دو میں سے ایک طالبہ کا رزلٹ پوزیٹو اور ایک کا نیگٹو تھا، فورا سینئر پروفیسر صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ پی سی آر دوبارہ رن کیا جائے۔ اگلے دن دوبارہ عمل دوہرایا گیا لیکن نتائج کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی اور وہ پوری ڈھڈائی کے ساتھ ایک پوزیٹو اور ایک نیگٹو کے ساتھ برقرار رہا۔ لڑکیوں کی نیچر کا تو آپ کو معلوم ہی ہو گا باقی بھی ہم سب پریشان تھے کہ یونہی لیبارٹریز میں سیکھتے سیکھتے مفت میں ایک مریض بنوا بیٹھے ہیں۔ پروفیسر صاحب سے دوبارہ مشورہ کیا تو انہوں نے پی سی آر کٹس کا ایک باکس اٹھا دیا کہ اس پر چیک کر کے دیکھیں اگر اس پر یہی نتائج آئیں تو سمجھیں حاصل یہی ہے۔ کٹ پی سی آر کم وقت لیتا ہے اور جلد نتائج ملتے ہیں اس بار نتائج کچھ زیادہ ہی ہوش اڑا دینے والے تھے ہوا یہ کہ جن محترمہ کا پہلے پوزیٹو تھا ان کا نیگٹو اور نیگٹو والی کا پوزیٹو نتیجہ نکلا۔ کافی غور و فکر اور مشوروں کے بعد فیصلہ ہوا کہ خون کے نمونے دوبارہ لیے جائیں اور دوبارہ ٹیسٹ کیا جائے تیسرے دن کے اختتام پر ہم اس سسنسی خیز تجربے کا بھی اختتام کر چکے تھے اور سب شکر ادا کر رہے تھے کہ اس بار نتیجہ دونوں کا نیگٹو نکلا ہے۔ ان طالبات نے اپنے اطمینان اور تسلی قلب کے لیے بیس کے قریب کٹس پر بار بار ٹیسٹ کیا لیکن نتائج برقرار رہے۔

آج اس سسپنس سے پھرپور واقعے کو ہوئے تیسرا سال گزر رہا ہے اور میں یاسر پیر زادہ کا ایک کالم پڑھ رہا ہوں۔ آج یاسر پیر زادہ صاحب"عالمی جینیاتی سائنسدان" لگ رہے ہیں صاف محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہ حیثیت ہائی اسکول کی سائنس کی کتاب پڑھ کر حاصل کی ہے ۔ اپنی اسی "سائنس دانی" کی بنیاد پر وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اسلامی اور نظریاتی علماء کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے ہیں جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا کے کیسسز میں بنیادی شہادت ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ اس قبیل کے ایک اور "سائنسدان" محمد حنیف صاحب کا ایک "سائنٹفک آرٹیکل" نما بلاگ بھی میرے سامنے موجود ہے جو بی بی سی نامی معروف نیوز ایجنسی نے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے شائع کیا ہے۔ میں اپنی کم علمی اور نا تجربہ کار معلومات کے باوجود پوری ذمہ داری اور وثوق سے کہتا ہوں کہ موصوف بنیادی طور پر زنا بالرضا کے کیسسز کے وکالت کرتے ہوئے سائنس کے ٹھیکیدار بن رہے ہیں لیکن افسوس اوپر سے انصاف کا راگ بھی الاپے جاتے ہیں اور ان علماء پر غیر منصفی کا الزام بھی دھر رہے ہیں

قرآن و سنت اور اسلامی قانون سے ناواقف ہونا تو خیر اس "روشن خیال تعلیم یافتہ لبرل طبقہ" کے لیے شرمناک نہیں ہے مگر ان کی "سائنس دانی" پانچویں کی سائنس سے آگے نہ بڑھ سکے یہ ضرور ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے​
 

Back
Top