شام میں جھڑپوں اور انتقامی قتل عام میں ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں

screenshot_1741538316986.png


دمشق: شام کی سیکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے وفاداروں کے درمیان 2 دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں اور اس کے بعد ہونے والے انتقامی قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 750 شہری شامل ہیں۔ برطانیہ میں قائم شامی مبصر گروپ برائے انسانی حقوق کے مطابق، 745 شہریوں میں سے زیادہ تر قتل عام کا نشانہ بنے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کے 125 ارکان اور بشار الاسد کے حامی 148 عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے۔

شہر لاذقیہ کے اطراف کے بڑے علاقوں میں بجلی اور پینے کے پانی کی فراہمی منقطع کر دی گئی ہے۔ اسد حکومت کے خاتمے کے 3 ماہ بعد شروع ہونے والی ان جھڑپوں کو دمشق میں وجود میں آنے والی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ بشار الاسد کی فوج کی باقیات کی طرف سے کیے گئے حملوں کا جواب دے رہی تھی، اور بے قابو تشدد کو "انفرادی کارروائیوں" کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

جمعے کے روز حکومت کے وفادار سنی مسلمانوں کی جانب سے بشار الاسد کے اقلیتی علوی فرقے کے ارکان کے خلاف شروع ہونے والی انتقامی ہلاکتیں ہئیت تحریر الشام کے لیے بڑا دھچکا ہیں، جس نے سابق حکومت کا تختہ الٹنے کی قیادت کی تھی۔ علویوں نے کئی دہائیوں تک بشار الاسد کی حمایت کا ایک بڑا حصہ بنایا تھا۔

علویوں کے دیہات اور قصبوں کے رہائشیوں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مسلح افراد نے علویوں، جن میں اکثریت مردوں کی تھی، کو سڑکوں پر یا ان کے گھروں کے دروازوں پر گولی مار دی۔ شام کے ساحلی علاقے کے دو رہائشیوں نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں علویوں کے بہت سے گھروں کو لوٹ لیا گیا اور پھر آگ لگا دی گئی۔

رہائشیوں نے بتایا کہ ہزاروں افراد جان بچانے کے لیے قریبی پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ہیں۔ تشدد سے سب سے زیادہ متاثرہ قصبوں میں سے ایک بنیاس کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ لاشیں سڑکوں پر بکھری پڑی ہیں یا بے گور و کفن گھروں اور عمارتوں کی چھتوں پر پڑی ہیں۔

شامی مبصر گروپ کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے کہا کہ انتقامی کارروائیاں ہفتے کی علی الصبح رک گئیں۔ انہوں نے علوی شہریوں کے قتل عام کے بارے میں کہا کہ یہ شام کے تنازع کے دوران سب سے بڑے قتل عام میں سے ایک تھا۔ مبصر گروپ نے اس سے قبل 200 سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ کی تھیں، تاہم کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تھے۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے وزارت دفاع کے ایک نامعلوم عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ سرکاری فورسز نے بشار الاسد کے حامیوں سے زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکام نے ساحلی علاقے کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خلاف ورزیاں روکنے اور امن و امان کی بتدریج بحالی کے لیے بند کر دیا ہے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہفتے کی صبح وسطی گاؤں تویم میں انتقامی حملوں میں ہلاک ہونے والے 31 افراد کی لاشوں کو اجتماعی قبر میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں 9 بچے اور 4 خواتین بھی شامل ہیں۔ رہائشیوں نے اے پی کو سفید کپڑے میں لپٹی لاشوں کی تصاویر بھیجی ہیں۔

یہ واقعات شام میں جاری تنازع کی ایک المناک تصویر پیش کرتے ہیں، جس میں شہریوں کو شدید تشدد اور قتل عام کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے فوری انسانی امداد اور امن کی بحالی کے لیے اقدامات کی اپیل کی جا رہی ہے۔
 

Back
Top