شادی کی رسومات اور ہم

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
شادی کی رسومات میں سُنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و سیرت اھلبیتعلیھم السلام اور ہم

n00488991-b.jpg



تحریر: محمد زکی حیدری

آگ آگ آگ! یہ کسی انسان کی چیخ نہیں ہے، یہ آگ کسی ایک گھر میں نہیں لگی، کسی ایک گودام یا دکان میں نہیں لگی، کسی کھیت کھلیان میں بھی نہیں لگی، نہ ہی یہ آگ کسی ایک گاؤں یا کسی ایک محلے میں لگی ہے بلکہ یہ آگ پورے پاک و ہند میں لگی ہے، دونوں ممالک کے لوگ اس میں جھلس رہے ہیں، بھارت و پاکستان کا ہر خاندان اس میں جل رہا ہے، ہر انسان کے تن بدن میں یہ آگ لگی ہے، ہر عمر کے افراد جوان، بوڑھے، عورتیں سب اس آگ میں جل رہے ہیں، بچے بھی اپنے بڑوں کے ہاتھوں اس آگ میں جھونکے جانے کے منتظر ہیں، اس آگ سے انسانی گوشت کے جلنے کی بدبو آ رہی ہے، اس آگ میں زندگیاں جھلس گئیں، جوانیاں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں، اس آگ میں دھڑا دھڑ شرافت، انسانیت، حیا، ایمان، رشتہ داریاں، جل کر دھواں دھواں ہو رہی ہیں. مگر کچھ لوگ اس آگ سے تاپ رہے ہیں، اس آگ سے گھر میں اجالا کر رہے ہیں، اس آگ پر اپنے چولھے ہانڈی چڑھا رہے ہیں! آپ حیران ہوں گے کہ میں کس آگ کی بات کر رہا ہوں اور کن لوگوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں، جو اسے ہوا دے رہے ہیں تو سنیئے بھیا اس آگ کا نام ہے شادی کی رسومات! اس کا ایندھن ہے جہیز، رسمیں، گھراتی، براتی اور وہ آدم خور جلاد ہیں دولھا اور دولھا کے گھر والے اور تمام خود فریب جو رسموں کے، شگن کے اور شکوک کے پجاری ہیں! یہ تمام لوگ بیک وقت بھیڑ بھی ہیں اور بھیڑیئے بھی، ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی، رونے والے بھی یہی رلانے والے بھی، یہ ڈستے بھی ہیں اور ڈسے جاتے بھی ہیں، نوچتے ہیں اور نوچے جاتے بھی ہیں۔

اس معاشرے کو سب سے پہلے ایک پاگل کتے نے کاٹا، جس کا نام ہے "لوگ کیا کہیں گے۔" اس کتے کے اگلے پیروں کا نام ہے جہیز اور رسمیں اور اس کے پچھلے پیروں کے نام ہیں قرض و حرص اور ساری زندگی لڑکی والوں سے خوفزدہ رہنا، اس کتے پر سوار ہیں دولہا میاں اور اس کے گرد جمع ہیں گھراتی، باراتی اور رسموں کے پجاری، اس پاگل کتے کے تیز دانتوں کا نام ہے دکھاوا! اس کتے نے اپنے تیز دانتوں سے دین و ایمان و شرافت و رحمدلی و قناعت و ۔۔۔ سب کو بھبھوڑ ڈالا ہے۔ پاگل کتا جسے کاٹ لیتا ہے وہ پاگل ہوجاتا ہے اور یہ پاگل جسے ناخن مار دے وہ بھی پاگل ہوجاتا ہے، سب پاگل کتے کی طرح بھونکتے ہیں اور سب کے منہ میں کتے کی شکل کے کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ "لوگ کیا کہیں گے" کو ملحوظ رکھ کر جو پہلی شادی ہوئی تھی، اس دن اس کتے کا جنم ہوا تھا اور جنم دن پر ہی جہاں اس نے لڑکی والوں کو جہیز کے نام پر خوب نوچا اور پھاڑا، وہاں لڑکے والوں کو بھی رسومات کے نام پر کاٹ کاٹ کر لہولہاں کیا۔ اس کے یکے بعد دیگرے خاندان کے خاندان اس پاگل کتے کے زیر اثر آتے چلے گئے اور پاگل ہوتے چلے گئے۔

دین کا ویکسین ناپید تھا یا اسے جان بوجھ کر ایک طرف رکھ دیا گیا تھا۔ آج ہم اور آپ اسی پاگل سماج میں جی رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ بیٹی رحمت ہوتی ہے، کے ماننے والے کے یہاں جب پہلی بیٹی ہوتی ہے تو پریشان ہوجاتا ہے، جب دوسری کی پیدائش ہوتی ہے تو کانپ اٹھتا ہے۔ اور پوری زندگی رعشہ کی یہ بیماری نہیں جاتی۔ حوا کی بیٹی جب سمجھدار ہوتی ہے تو اسے اپنے چاروں طرف جہنم کی سی جنسی آگ سلگتی ہوئی نظر آتی ہے، اس آگ سے بچانے والی پرمسرت شادی کے امکانات جہیز اور رسموں نے بلکل ختم کر دیئے ہیں۔ لیکن کیا کیجئے بھیا! بیٹی کی شادی کے وقت آٹھ آنسو رونے والے کے یہاں جب بیٹے کی شادی کی تیاری ہوتی ہے تو وہ لڑکی والوں کو آٹھ ہزار آنسو رلاتا ہے۔ اس طرح یہ آگ ہے کہ جس میں ہم ہی ایندھن ڈالے جا رہے ہیں۔

سچ کہہ رہا ہوں، رسمیں جہالت کا نتیجہ ہیں، دباؤ ڈال کر جہیز لینا حرام ہے، رسومات کی پابندی کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے، ان کے ذریعے ملنے والا مال حرام، ہم منگنی سے لیکر رخصتی تک جو خرچ کرتے ہیں، اس میں 90٪ فضول خرچ ہے اور فضول خرچی ناجائز ہے۔ ہماری زبردستیاں، ہماری بے مہار نفسانی خواہشیں، معاشرے کی باتوں کا ہماری سوچ اور فکر پر غلبہ۔۔۔ ہم ہر واجب ہوگیا ہے خود کو آگ میں جھونکنا! کیونکہ معاشرہ ہمیں آگ میں جھلستا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، جو معاشرہ چاہے گا ہم کریں گے، ہر عمل معاشرے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر کریں گے، معاشرے کے خلاف کچھ نہیں کریں گے، معاشرے کے مقابلے میں اللہ کا حکم محمد و آل محمد علیھم السلام کی سیرت بھی آگئی تو ترجیح معاشرے کی بات کو دیں گے۔۔۔ اور شام کو جا کر جانماز بچھا کر اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوں گے! علی کرم اللہ وجہہ اور زہرا سلام اللہ علیھا کی شادی کے دن آئے تو جھوم جھوم کر خوشی منائیں گے! واہ میاں تمہاری نماز۔۔۔ واہ محبِ اھلبیت تیرا علی و زہرا علیھماالسلام کی شادی کا جشن منانا!۔

تو کسیے بجھے گی یہ آگ؟ یہ آگ بُجھے گی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے، علی کرم اللہ وجہہ اور زہرا سلام اللہ علیھا کی شادی کے طریقے پر اپنے گھر میں موجود مُحِب علی اور کنیزِ زہرا کی شادیاں کرنے سے! اللہ نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے، یہ زندگی یہ اولاد تمہاری ہے، انہیں اس طرح پال پوس کر بڑا کرو، اللہ و رسول
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے جینا سکھاؤ، اپنے لئے جینا سکھاؤ، سر پر لہراتی معاشرے کی تلوار کو ہٹا دو، اپنے لئے شادیاں کرنا سکھاؤ، "لوگ کیا سمجھیں گے؟" کی جگہ "میرا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا سمجھیں گے؟" رکھ کر زندگی کا ہر عمل انجام دو، دین اطاعت کا نام ہے، ہم لوگ اپنے روز مرہ کے امور میں معاشرے کی اطاعت کر رہے ہیں یا اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی؟ سوچئے۔

میری شادی نہیں ہوئی، میں علی کرم اللہ وجہہ و زہرا سلام اللہ علیھا کی بابرکت شادی کی قسم کھا کر کہتا ہوں ان شاءاللہ فضول خرچہ نہیں ہونے دونگا، چاہے مجھے میرے والدین سے ہی کیوں نہ لڑنا پڑے، بری رسموں کا آغاز بھی ہم جیسے انسانوں نے کیا تھا تو کیا ان کا قلع قمع کرکے اچھی روایتوں کا آغاز ہم جیسے انسان نہیں کرسکتے؟ اگر ہاں تو اور کوئی کیوں، میں خود سے ہی کیوں نہ شروعات کروں، قرآن بھی یہی کہتا ہے، "وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔" اب آپ کا کیا خیال ہے میرے جوان دوستو؟ معاشرے کو دکھانے کیلئے شادی کرنی ہے یا علی کرم اللہ وجہہ اور زہرا سلام اللہ علیھا کے نمونے سے شادی کرنی ہے۔؟
Source
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
[h=2]یکم ذوالحجۃالحرام، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی[/h]​
4bhh02f2f06098xiq_800C450.jpg



رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے۔ تکبیر و تہلیل کی صداؤں نے مدینہ کی گلیوں کو ایک روحانی کیفیت بخشی تھی جبکہ دلوں میں سرور و شادمانی کی لہریں موج زن تھیں۔

شروع ہی سے سب جانتے تھے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے علاوہ کوئی دختر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کفو و ہم رتبہ نہیں ہے۔

لیکن اس کے باوجود بھی اپنے آپ کو پیغمبر
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی سمجھنے والے کئی افراد اپنے دلوں میں دختر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔

مورخین نے لکھا ہے: جب کُچھ لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہنا شروع کردیا : اے علیؑ آپ دختر پیغمبر
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کے لئے خواستگاری کیوں نہیں کرتے؟ تو آپ کرم اللہ وجہہ فرماتے کہ ’’میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں‘‘۔

تو انھوں نے جواب دیا ’’پیغمبر
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ سے کچھ نہیں مانگیں گے‘‘۔
آخر کار حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا۔ اور ایک دن رسول اکرم
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاہر نہیں کر پا رہے تھے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ :آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھ ہی لیا : اے علیؑ کیا کوئی کام ہے ؟

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا : جی یا رسول اللہ، اور خاموش ہوگئے۔ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ہو ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا، جی۔ چونکہ مشیت الٰہی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ہو لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے آنے سے پہلےہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا اور بتایا جا چکا تھا کہ وہی جناب سیدہ کے کفو ہیں۔ پس پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس نسبت کا تذکرہ سیدہ زہراء سے بھی کریا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ ، علیؑ کو بہت اچھی طرح جانتیں ہیں ، وہ مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں ، علیؑ اسلام سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ہیں، انھوں نے آپؑ کا رشتہ مجھ سے مانگا ہے میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمہارے لئے بہترین شوہر کا انتخاب کرے۔
اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علیؑ سے کر دوں آپؑ کی کیا رائے ہے ؟

حضرت زہراء سلام اللہ علیھا خاموش رہیں ، پیغمبر اسلام
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیرکہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شادی کی بشارت دی۔

حضرت فاطمہ زہرا کا حق مہر
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا مہر 40 مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شادی کے وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ایک تلوار ، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تلوار کو جہاد کے لئے رکھو ، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب سلمان فارسیؓ سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو جناب سلمانؓ نے اس زرہ کو پانچ سو درہم میں بیچا۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئی اور اس شادی کا ولیمہ ہوا۔ جہیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر لایا گیا تھا ،اس میں چودہ چیزیں تھی۔

شہزادی عالم، زوجہ علی کرم اللہ وجہہ، فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا۔ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے۔ تکبیروں اور تہلیلوں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ہو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی صاحب زادی کا ہاتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انہیں خدا کے حوالے کر دیا۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے۔
Source

 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیھا

news-1343011322-8097.jpg

خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہرارضی اللہ عنہا کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمةؓجنت کی عورتوں کی سردار ہیں....ایک اور موقعہ پرحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاطمةؓ (عورتوں میںسے) سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی۔

احادیث مبارکہ میں حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ کے بہت زیادہ فضائل و مناقب آئے ہیں حضرت سیدہ فاطمة الزہراءؑ حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہیں، آپؓ جنتی نوجوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسنؓ اورسیدنا حضرت حسینؓ کی والدہ اور سیدنا حضرت علیؓ کی زوجہ محترمہ ہیں۔

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے طور و طریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی، نشست و برخاست،طرزگفتگواور لب ولہجہ میں حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہہ حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا....ایک اور موقعہ پر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا سیدہ فاطمة الزہرائؓ سے سچا اور صاف گو کسی کو نہیں دیکھا(الاستعاب) ام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ رفتاروگفتارمیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بہترین نمونہ تھیں، صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمةؑ خواتین امت کی سردار ہیں۔
ایک موقعہ پر حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمةؓ میرے جگر کا ٹکرا ہے جس نے اس کو تنگ کیا اس نے اللہ کو تنگ کیا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ کریں، مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوت کے وقت جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک 41 سال تھی تو حضرت سیدہ فاطمةؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں

حضرت فاطمة الزہراءؑ کے بہن بھائیوں میں حضرت سیدہ زینبؓ، حضرت سیدہ رقیہؓ، حضرت سیدہ ام کلثومؓ، حضرت قاسمؓ، حضرت طاہر طیبؓ اور ابراہیمؓ شامل ہیں، مشہور روایت کے مطابق فاتح خیبر سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ، سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سعد ابن ابی وقاصؓ کی ترغیب اور مشورہ پر حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ کے ساتھ نکاح کے لئے حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پیغام بھیجا.... حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو فوراً قبول فرما لیااور پھرحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمةؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بزبان خاموشی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا، ایک اورروایت کے مطابق انصارؓ اور مہاجرینؓ کی ایک جماعت نے حضرت علی المرتضیٰؓ کوحضرت سیدہ فاطمةؓ کے لئے پیغام بھیجنے کی ترغیب دی، حضرت علیؓ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میںحاضر ہوئے اور حرف مدعا زبان پرلائے،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فوراً ”اھلاً و مرحبا“ فرمایا۔

حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس ”حق مہر“ ادا کرنے کے لئے بھی کچھ ہے؟سیدنا حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ ایک زرہ اور ایک گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑا تو جہاد کے لئے ضروری ہے، زرہ کو فروخت کر کے اس کی قیمت لے آﺅ....سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے یہ زرہ فروخت کرنے کے لئے صحابہ کرامؓکے سامنے پیش کی....خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے یہ زرہ 480 درہم میں خرید لی اور پھر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے یہ زرہ بھی حضرت علی المرتضیٰؓ کو ہدیةً واپس کر دی، حضرت علیؓ یہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰؓ سے فرمایا کہ اس رقم میں سے دوتہائی خوشبووغیرہ پر صرف کردو اور ایک تہائی سامان شادی اور دیگر اشیائے خانہ داری پر خرچ کرو....پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت انس بن مالکؓ کو حکم دیا کہ جاﺅ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت زبیرؓ،حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ اور دیگر مہاجرین و انصار کو مسجد نبوی میں بلا لاﺅ....خود حضرت انسؓ کابیان ہے کہ اس سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی آنے کی سی کیفیت طاری ہوئی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ کا نکاح سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ سے کر دیا جائے۔

جب صحابہ کرامؓ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے تو حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ”اے گروہ مہاجرین و انصار مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح علی بن ابی طالبؓ سے کردوں، میں تمہارے سامنے اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتا ہوں“، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ نکاح پڑھااور دعائے خیر فرمائی، صحیح روایت کے مطابق یہ نکاح 3ھ میں ہوا اور فوری رخصتی عمل میں آئی(ازکتاب سیرت فاطمة الزہرائؓ صفحہ نمبر 94

دوسرے روز ”ولیمہ“ کیا گیا، دعوت ولیمہ میں دستر خوان پر کھجور، پنیر، زمان جو اورگوشت تھا، حضرت فاطمہؑ کو جو جہیز دیا، مختلف روایتوں کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے،۔

۔(1)ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی
۔(2)ایک نقشی تخت یا پلنگ
۔(3)ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی
۔(4)ایک مشکیزہ
۔(5)دومٹی کے برتن(یاگھڑے)پانی کے لئے
۔(6)ایک چکی (ایک روایت کے مطابق دوچکیاں)۔
۔(7)ایک پیالہ
۔(8)دوچادریں
۔(9)دوبازو بند نقرائی
۔(10)ایک جائے نماز

شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ ”مدارج النبوة“ میں رقمطراز ہیں کہ حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت سیدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیھا کے درمیان گھریلو کاموں کی تقسیم فرما دی تھی، چنانچہ گھرکے اندرجتنے کام تھے مثلاً چکی پیسنا، جھاڑو دینا، کھانا پکانا وغیرہ وہ سب حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ کے ذمہ تھے، اور باہر کے سب کام مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ سیدنا علیؓ کے ذمہ تھے اس طرح ان کی ازدواجی زندگی میں نہایت خوشگوار توازن پیدا ہو گیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،حضرت سیدہ فاطمة الزہرؑ کے ہر رنج وراحت میں شریک ہوتے، تقریباً ہرروز ان کے گھر تشریف لے جاتے، ان کی خبر گیری کرتے، کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دور کرنے کی کوشش فرماتے، اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس میں سے کچھ نہ کچھ حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ کو بھی بھجواتے تھے۔

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ حضور نبی کریم
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ازراہ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت سید فاطمة الزہراؑکے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں، محبت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر مبارک کو چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں(ابوداﺅد) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غلام حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ سے رخصت ہوتے اور سفر سے واپسی پر خاندان بھر میں سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ ہی سے ملاقات کرتے پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے (مدارج النبوة

ایک بار حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ کو بخار آگیا، رات انہوںنے سخت بے چینی میں کاٹی، سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی، فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ سیدہ فاطمة الزہراؑ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں، میں نے کہا کہ فاطمةؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر تمہیں بخاررہا، صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا اب چکی پیس رہی ہو، خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہو جاﺅ، حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جاﺅں تو کچھ پروا نہیں ہے، میں نے وضو کیا نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کے لئے اور چکی پیسی تمہاری اطاعت و فرمانبرداری اور بچوں کی خدمت کے لئے....حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی اپنی کسی رشتہ دار یا ہمسایہ کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں....کام کی کثرت اور نہ ہی کسی قسم کی محنت و مشقت سے گبھراتی تھیں....ساری عمر شوہر کے سامنے حرف شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی، حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ کو عبادت الٰہی سے بے انتہا شغف تھا....خوف الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں....۔

مسجد نبوی
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں گھر تھا، سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات و مواعظ گھر بیٹھے سنا کرتی تھیں....ان میں عقوبت اور محاسبہ آخرت کا ذکر آتا تو ان پر ایسی رقت طاری ہوتی کہ روتے روتے غش آجاتا تھا....تلاوت قرآن کرتے وقت عقوبت و عذاب کی آیات آجاتیں تو جسم اطہر پر کپکپی طاری ہو جاتی تھیں....عبادت کرتے وقت سیدہ فاطمة الزہراؑ کا نورانی چہرہ زعفرانی ہو جاتا تھا، جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا....اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکامات کی تعمیل، اس کی رضاجوئی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی....وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اللہ کی ہو کر رہ گئی تھیں اسی لئے حضرت فاطمة الزہراؑ کالقب ”بتول“ پڑگیا تھا۔ مشہور روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے چھ ماہ بعد خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہراؑ بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہنے کے بعد تین رمضان المبارک 11 ھ کو منگل کی شب آپؑ کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے 28 یا 29 سال ذکر کی ہے۔
Source
 
Last edited:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
???? ???? ?? ???? ??????? ???? ??? ?? ???? ? ?????? ?? ???? ???? ?? ??? ??? ?? ??? ????? ??



 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
اچھی کاوش ہے لیکن ابتدائی پوسٹ مہر کو جہیز و رسومات کے ساتھ نتھی کر دیا گیا جو غیر مناسب ہے
نشاندہی کیلیے شکریہ انصاری بھائی۔ یہاں مہر سے مراد بھاری مہر ہے لیکن پھر بھی یہ ایک شرعی حقیقت ہے۔ پس اسلئے مہر کے لفظ کو یوں بدل کر غلطی کی درستگی کر دی ہے اس کے پچھلے پیروں کے نام ہیں قرض و حرص اور ساری زندگی لڑکی والوں سے خوفزدہ رہنا۔ متنبہ کرنے پر ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔ کاوش کو سراہنے کا بھی شکریہ۔
 

Back
Top