شادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ! Yes its in India!!!!

zagyy

Senator (1k+ posts)
انڈیا کے زیادہ تر علاقوں میں شادی کی تاریخ کا تعین عام طور پر پنڈت کرتے ہیں لیکن یہاں شادی کی تاریخ پانی کے ٹینکر کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔

یہ جگہ شمالی گجرات میں انڈیا-پاکستان کی سرحد پر آباد آخری انڈین گاؤں ہے۔

بھاکھری گاؤں کی واحد جھیل سوکھ چکی ہے اور اب انسان اور جانور دونوں کے پینے کے لیے پانی نہیں ہے۔ لیکن جھیل کے کنارے کھڑا سالوں پرانا ایک درخت خشک سالی کے درمیان اس گاؤں میں ہونے والی شادیوں کا گواہ ہے۔

گذشتہ کافی عرصے سے یہاں شادی کا سیزن اور خشک سالی لگ بھگ ایک ساتھ آتے ہیں اور شادیوں میں پانی کے لیے ٹینکرز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

بھاکھری گاؤں کے پیرابھائی جوشی کہتے ہیں کہ شادی ہو تو یہاں سے 25 کلومیٹر دور سے پانی کے ٹینکر لانے پڑتے ہیں۔


'سوا ارب افراد کو خوراک، پانی کی کمی اور افلاس کا خطرہ'

اب شادی کر لیں

ان کے مطابق شادی کے سیزن میں یہاں ایک ٹینکر کی قیمت دو ہزار ہوتی ہے اور شادی میں تین چار ٹینکر لگ جاتے ہیں جس کا خرچ آٹھ دس ہزار روپے تک آتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شادی میں پانی کے ٹینکرز سب سے زیادہ اہم ہیں۔ شادی کے انتظامات میں سب سے پہلا کام بھی پانی کے ٹینکر کا حصول ہے کیونکہ کبھی کبھی 40-50 کلومیٹر دور جانے پر بھی ٹینکر کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔

شادی کی تاریخ طے کرنے سے پہلے ٹینکر
بی بی سی گجراتی سروس کی ٹیم نے اس سرحدی گاؤں کا دورہ کیا تو امرا جی کے گھر پر شادی کا موقع تھا۔ ان کے گھر میں پینے اور کھانا بنانے کے لیے پانی باہر سے منگوایا گیا تھا۔

گاؤں کے بیکھا بھائی نے کہا کہ 'یہ ریگستانی علاقہ ہے اور یہاں کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ پلانے کے لیے ہی نہیں کھانا بنانے کے لیے بھی میٹھے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چھوٹی شادی ہو تو پانچ ٹینکر اور اگر بڑی ہو تو دس ٹینکر پانی بھی کم پڑجاتا ہے۔'

یہاں لوگ شادی کا منڈپ (سٹیج) تیار کرنے پر جتنا خرچ کرتے ہیں اتنا ہی پانی کے انتظام پر بھی کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 'بغیر پانی شادی ممکن نہیں اس لیے تاریخ سے پہلے ہم ٹینکر کا انتظام کرتے ہیں۔'

انڈیا-پاکستان سرحد کی جانب ایک دوسرا گاؤں جلویا ہے۔ اس گاؤں کے نائب سرپنچ وجے سی ڈوریا کہتے ہیں کہ 'ہمارے گاؤں میں اور اس علاقے کے تمام گاؤں میں شادیوں کے وقت پانی کے ٹینکرز پر ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔‘


گاؤں کی واحد جھیل سوکھ چکی ہے جبکہ یہ درخت بھی سوکھنے کے دہانے پر ہے
خشک سالی زندگی کا حصہ
بھاکھری گاؤں کے نائب سرپنچ پونجی رام بتاتے ہیں کہ جاڑے میں پانی مل جاتا ہے لیکن گرمیوں میں پینے کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہوتا۔ اس بار خشک سالی کے سبب کسی نے کاشتکاری بھی نہیں کی۔

یہ علاقہ دہائیوں سے خشک سالی کی زد میں ہے جو ان کے برتاؤ اور ثقافت میں بھی نظر آتا ہے۔ گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ مسلسل خشک سالی کے سبب اب لوگ شادی کا وقت بدلنے لگے ہیں۔ ہندو رسم و رواج کے مطابق شادیوں کا خاص وقت ہوتا ہے۔

اب وہ گرمی ختم ہونے یا بارش کی راہ دیکھتے ہیں خواہ شادی کا موسم چلا ہی کیوں نہ گیا ہو۔

گاؤں والے اس کا سبب بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بارش کے بعد کچھ حد تک پانی کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور ٹینکر کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔

ان دونوں گاؤں کے لوگوں نے ایک گؤشالہ میں گائے کے رکھنے کا انتظام کیا ہے۔ ہر سال خشک سالی میں وہ گایوں کو وہاں چھوڑ آتے ہیں۔

جہاں سے جانور پانی پیتے ہیں وہیں سے ہم بھی پانی لاتے ہیں
انڈیا-پاکستان سرحد پر قائم یہ دونوں دیہات بھاکھری اور جلویا میں دوپہر کو کڑی دھوپ میں 45-46 ڈگری درجۂ حرارت میں کچی سڑکوں پر خواتین سرپر گھڑے لیے آتی جاتی نظر آتی ہیں۔

بھاکھری گاؤں کی بیواڑی بہن بتاتی ہیں کہ 'پینے کا پانی آیا ہے یہ پتہ چلتے ہیں ہم لوگ اپنے سارے کام چھوڑ کر پانے بھرنے بھاگتے ہیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ یہاں دو تین دنوں میں ایک بار 15 منٹ کے لیے پانی آتا ہے۔ کبھی کبھار 15 دنوں میں ایک بار بھی آتا ہے۔

گاؤں کے زیادہ تر گھروں میں پانی کے نل لگے ہوئے ہیں لیکن ان میں پانی نہیں۔ ایسی صورت حال میں گاؤں کی خواتین روز مرہ کے کام کاج کے لیے وہیں سے پانی لاتی ہیں جہاں سے جانور پانی پیتے ہیں۔ جس سے وہ بیماریوں کی زد میں بھی آتے رہتے ہیں۔

65 سالہ آوی بہن کہتی ہیں 'یہاں سوکھا (قحط) پڑا ہے اس لیے تالاب کی زمین میں دڑاریں نظر آ رہی ہیں۔ ہم تو کہیں سے بھی پانی لے آتے ہیں لیکن جانوروں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔'

گایوں کے لیے گؤشالہ ہے لیکن بھینسوں کو مرنے کے لیے چھوڑنا پڑتا ہے
جلویا گاؤں کے وجے سی کہتے ہیں 'اس سال سوکھا پڑا ہے۔ لیکن کوئی پوچھنے نہیں آیا۔ جانور مر رہے ہیں۔ کھیتی ہوئی نہیں اور انسانوں کے پینے کے لیے بھی پانی نہیں ہے۔ گایوں کو تو گؤشالہ میں چھوڑ آتے ہیں لیکن بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے انھیں سوکھے میں مرنے کے لیے چھوڑنا پڑتا ہے۔'

ان دونوں گاؤں میں مویشی پالنے والے خاندان بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ خشک سالی کے سبب ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔


تھراڈ اور واو نامی گاؤں سے پاکستان کی سرحد کی جانب بڑھتے ہیں تو راستوں کے دونوں جانب پھیلی ہوئی بنجر زمینوں پر چند مردہ جانور نظر آتے ہیں۔

یہاں سے سات کلومیٹر آگے کی جانب رات کی تاریکی میں پاکستان کے گاؤں کی چھوٹی چھوٹی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ جب سرحد پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی اس وقت یہ مویشی پالنے والے اپنے مویشیوں کو چراتے ہوئے سرحد تک پہنچ جاتے تھے۔ لیکن باڑ لگانے کے بعد ایسے واقعے کم ہو گئے ہیں۔

وجے سی کہتے ہیں کہ 'یہ پاکستان کے پاس کا گاؤں ہے اور یہ ریگستانی علاقہ ہے اس لیے یہاں کام اور صنعت نہیں ہے اس لیے ہمیں موشیوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔'

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر انڈین حکومت نے 'سرحد درشن' (سرحد کے نظارے) کے لیے سیاحتی مقام بنائے ہیں۔ وہاں جانے کے لیے پکی سڑکیں ہیں لیکن اس گاؤں میں آج بھی کچی سڑکیں ہیں اور پینے کے پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے۔

وجے سی کا کہنا ہے کہ 'ہماری زندگی یہاں دوزخ ہے کیونکہ ان خشک علاقوں میں جانوروں کو زندہ رکھنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری چارہ لینے کے لیے یہاں سے 30 کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔'

اسی گاؤں کے میگھ جی ربائی اور شیوانجی ربائی کہتے ہیں کہ 'یہ جانور ہم لوگوں کے لیے اپنے بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ حکومت گائے اور بھینس کے لیے چارے دیتی ہے لیکن بھیڑ بکریوں کے لیے کچھ نہیں ملتا۔'

گجرات کے نائب وزیر اعلی نتن پٹیل نے صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد کے پاس کے گاؤں میں پانی کی لائنیں ڈالنے کا کام جاری ہے اور اس کام کے پورا ہوتے ہی پانی کا مسئلہ حل ہو جا‌ئے گا۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس بار ڈیم اور دوسرے آبی زخائر میں گذشتہ سال کے مقابلے میں بہت کم پانی ہے۔

پانی کی لائن بچھانے کا کام اپنے انجام تک پہنچے تب تک انڈیا-پاکستان کے سرحدی گاؤں میں پانی لوگوں اور مویشیوں کے لیے سراب ہی ہیں۔



https://www.bbc.com/urdu/regional-48571690
 
Last edited by a moderator:

raaja.bcn

Politcal Worker (100+ posts)
Bhai Kuch time baad Pakistan main bhi aisi hi hoga hamara paani bhi bahut neechay Chala Gaya hai
 

Back
Top