سید ضامن علی حسینی کی" معارف سرائیکی"

saeedahmed

Voter (50+ posts)

سید ضامن علی حسینی کی" معارف سرائیکی" کے اقتباسات


سید ضامن علی حسینی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایم اے نصاب میں پڑھائی جانے والی معورف کتاب " معارف سرائیکی " کے مصنف 23 اکتوبر 1906ء کو احمد پور شرقیہ میں پیدا ہوئے ۔ برطانوی یونیورسٹی شیفیلڈ سے
انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ۔


ء1933میں محکمہ آبپاشی ریاست بہاولپور میں ایس ڈی او تعینات ہوئے ایڈیشنل چیف انجینئر مغربی پاکستان کے عہدے تک پہنچے 1966ء میں ریٹائرمنٹ لی اور 27 دسمبر 1976ء اللہ کو پیارے ہوئے ۔ ضامن علی حسینیکو دیارؤں کے علم کے حوالے اَتھارٹی مانا جاتا تھا ۔ ضامن علی حسینی نے اس موضوع پر صرف پاکستان اور ہندستان ہی نہیں بلکہ اہل یورپ کے دانش کو بھی متاثر کیا ۔

سید ضامن علی حسینی
کو ستلج ویلی پرواجیکٹ مکمل کرانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔ اپ نے دریاؤں کی بود باش اور رہنے والے لوگوں کی بول چال پر تحقیق بھی کی " معارف سرائیکی " 1972ء کو شائع ہوئی ۔اس کتاب سے ماخوذ چند اقتاباس حاضر ہیں ۔

ملتان اور اوچ کے قدیم مدنی مراکز کے باشندوں کی زبان جو سرائیکی کے نام سے اب مشہور دراصل معروف زمانہ " وادی شندھ کی تہذیب " کے (1) باشندوں کی زبان تھی ۔

(2) قران مجید کے بیان کردہ " اصحاب الرس " کی زبان سرائیکی تھی
(3) تورات کے صحیفہ استھر کے بتلائے ہوئے " آناپورس " کی رعایا کی زبان سرائیکی تھی ۔

(4) سنسکرت میں جس " بھیرس " قوم کا ذکر ہے اسکی زبان سرائیکی تھی
(5) مہابھارت نے جس قوم کو " سندھو سویراس " کہا اس قوم کی مادری زبان سرائیکی تھی "سویرا " کی نسبت سے انکی زبان سرائیکی کہلائی ۔

(6) چچ نامہ کے بیان کردہ " رائے ساہیرس " کی پوری سلطنت کی از کشمیر تا مکران بولی جانے والی زبان سرائیکی تھی ۔

(7) قصور کے بلھے شاہ ، لہور کے مادھولال حسین ، گولڑہ شریف کے پیر مہر علی شاہ سے شروع ہوکر کوہ سلیمان کے اندر تک درہ بولان کے ڈھلوان سے کوہ کیرتھر کے آرپار لاس بیلا میں وادی حب کی تحصیل دریچی تک بولی جانے والی زبان سرائیکی ہے ۔

(8) تاریخ حدود العالم من المشرق الی المغرب (336ھجری )
کے مطابق ملتان سے لہور تک کا علاقہ ملتان کے زیر نگیں رہا ہے اس وجہ سے یہاں کی زبان پر سرائیکی کے اثرات بہت گہرے ہیں ۔
(9)
پنجابی ، اردو اور سرائیکی جملوں کی ترتیب اور فرق سے واضع ہوتا ہے سرائیکی ہی واحد زبان ہے جس نے اردو کو جنم دیا مثال

الف : اردو ! کس کو
سرائیکی بول ! کیکوں
پنجابی بول ! کنوں

ب: اردو بول ! مجھ کو
سرائیکی بول ! میکوں
پنجابی بول ! مینوں

پ : اردو بول ! تجھ کو کیا
سرائیکی بول ! تیکوں کیا
پنجابی بول ! تینوں کی

ت : اردو بول ! کس کو
سرائیکی بول ! کیکوں
پنجابی بول ! کنوں

() یہاں پر یہ بات بھی واضع ہوتی ہے پنجابی ایک رف لہجہ ہے الگ سے زبان نہیں ہے اسکو اپ ہندی کا ترش لہجہ کہیں یا ہندی ترش لہجہ میں سرائیکی الفاظ کی کثیر ملاوٹ یہ بات ٹھوس دلیل پر مبنی ہے کہ پنجابی ایک ترش لہجہ ہے زبان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ۔ یہاں پر برٹش عدالت کا فیصلہ بھی ٹھوس دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے پنجابی ہندی کا ترش لہجہ ہے زبان نہیں ہے برٹش عدالت کا فیصلہ

 
Last edited: