
انصار عباس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا خیال ہے سنی اتحاد کونسل کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کیخلاف کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے نہ صرف کمیشن کے آئینی کردار کو بری طرح متاثر کیا بلکہ آئین کے متعلقہ آرٹیکلز اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی شقوں کو بھی بے معنی کر دیا۔
انصار عباسی نے رپورٹ میں بتایا کہ باخبر ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے اندرونی بحث و مباحثے میں یہ بات کہی ہے کہ فیصلے سے کمیشن کے فرائض اور کام براہ راست اور منفی طور پر متاثر ہوئے, سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے اب کسی پارٹی کے امیدواروں کو الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 کے تحت ضروری تصدیق کے بغیر ہی کامیاب قرار دینا ہوگا۔
سیکشن 66 میں لکھا کہ پارٹی وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے کیلئے الیکشن لڑنے والا امیدوار انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے قبل، ریٹرننگ آفیسر کے سامنے کسی مخصوص سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی کے بارے میں سیاسی جماعت کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ یہ ثابت کرے گا کہ وہ اِس حلقے سے اُس پارٹی کا امیدوار ہے, پارٹی کے امیدواروں کی فہرست، جو آئین کے آرٹیکل 51(6) اور آرٹیکل 106 اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت کوئی پارٹی عہدہ نہ رکھنے والے شخص کی طرف سے جمع کرائی گئی ہے، کو بھی اب تسلیم کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کےمطابق کمیشن کے کام کاج، فرائض اور اختیارات پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات سمجھنے کیلئے آئین اور قانون کے تحت کمیشن کے کاموں، فرائض اور اختیارات کو جاننا بہتر ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ قانون اور آئین کے مطابق الیکشن کمیشن صرف ان سیاسی جماعتوں کو فہرست میں شامل کرتا ہے جو سیکشن 201، 206، 208 اور 210 کی شرائط کو پورا کرتی ہیں اور اپنے اندرونی معاملات کو منظم رکھتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو فعال رہنے کیلئے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ضرورت ہے۔ یہ تنظیمی ڈھانچہ ہے جس میں سیاسی جماعت کے سربراہ اور دیگر عہدیدار شامل ہوتے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1819433347396841646
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/ansa1h11h21.jpg
Last edited by a moderator: