Shahid Abassi
Chief Minister (5k+ posts)
سول حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ، خارجہ پالیسی کے آئینے میں
پاکستان کی کسی بھی سویلین گورنمنٹ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والے اختلافات کی بنیادی وجہ ہماری خارجہ پالیسی ہی رہی ہے ۔ انڈیا اور افغانستان بارے رولز آف دی گیم پر ہمارے دونوں پاور ہاوسز بہت کم ہی متفق ہو سکے ہیں۔ چین سے دائمی دوستی ہو یا ہمارے سعودی عرب سے منسلق مفادات، روس سے تعلقات بڑھا کر چین اور روس کو امریکہ سے خراب ہوتے ہوئے تعلقات کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا تاکہ امریکہ کے ہاں پاکستان کی اہمیت کسی حد تک قائم رہے وغیرہ جیسی پالیسیوں پر تو اسلام آباد اور راولپنڈی ایک ہی پیج پر ہیں لیکن جہاں فوج انڈیا کو ایک دائمی دشمن کے طور پر دیکھتی ہے وہاں نواز شریف تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر انڈیا اور پاکستان کی سرحدیں بزنس مین کے لئے کھول دینا چاہتے ہیں ۔ نواز شریف کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ لاہور سے دلّی تک ایک موٹر وے بنے جسے یہ سی پیک کا حصہ قرار دے سکیں۔ لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ نواز شریف ابھی تک ماضی میں سوچ رہے ہیں جب کہ انڈیا کے واجپائی بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات پروان چڑھانے کے حامی تھے ۔ جبکہ آج کا مودی خود بھی ہارڈ لائینر ہے اور ٹخنوں سے گردن تک انتہا پسندوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا بھی ۔ جب کہ وہ الل اعلان بلوچستان میں باغیوں کی سر پرستی کا ڈھنڈورا بھی پیٹ رہا ہے اور پاکستان کے ٹکڑے کرنے،پانی روکنے اور پاکستان کو ڈپلومیٹیکلی تنہا کرنے کے نہ صرف نعرے مار رہا ہے بلکہ امریکہ سے پاکستان کے دہشتگرد ملک ہونے بارے مہر لگوانے کی تگ و دو میں بھی مصروف ہے ۔ ایسے میں میاں نواز شریف کی خارجہ پالیسی کسی دیوانے کا خواب تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت پر مبنی سوچ نہیں ۔ جہاں مودی کا انڈیا اگریسر اور ہندو بنیاد پرست کے ہاتھوں ہائےجیکڈ ہے وہاں نواز شریف اپنے مقاصد کے لئے انڈیا کی اگریسو زبان کو برداشت کرتے ہوئے بھارت بارے کبھی سخت الفاظ کا چناو نہیں کرتے۔
میاں صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لئے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں لکھی گئی تقریر میں وانی کا ذکر اور کشمیر پر بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذکر تو کیا لیکن انہوں نے اسے بیلینس رکھنے کے لئے اپنی آواز دھیمی رکھی اور الفاظ میں سختی ایاں نہ ہونے دی۔ اور انہوں نے اس کے بعد بھی کشمیر میں جاری مظالم کو ورلڈ پلئیرز کے سامنے اجاگر کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی ۔ بلکہ یہاں تک کہ جن پندرہ پارلیمنٹیرینز کے ناموں کا بیرونی ممالک بھیجنے کے حوالے سے اعلان کیا گیا وہ بھی ایک مذاق ہی بن کر رہ گیا اور بلآخر یہ سب کچھ ملتوی کر دیا گیا ۔ میاں صاحب نے انڈیا کو پچھلے چار سال میں ایک دفعہ بھی چیلنج نہیں کیا اور کبھی بھی مودی کو اسی کے لہجے میں جواب نہیں دیا۔ کلبھوشن کے پکڑے جانے پر ساری قوم کی تنقید کے باوجود ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہ کیا ۔جہاں انڈیا نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں نہ صرف شرکت نہیں کی بلکہ اسے سبوتاج کرنے کے لئے افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال کو بھی شرکت سے منع کیا وہاں میاں صاحب نے سرتاج عزیز کو امرتسر میں افغانستان بارے کانفرنس میں بھیجا، بے عزتی کروائی اور ساتھ ساتھ ڈائیلاگ کی بھیک بھی مانگی ۔ بلکہ اجیت دووال کی ڈیمانڈ پر کلبھشن کے خلاف جاسوسی کے الزامات واپس لینے کی طرف پہلا قدم بھی اٹھایا۔ میاں صاحب کشمیر میں موجود فریڈم فائیٹرز کو کرش کر دینا چاہتے ہیں لیکن اس بارے فوج ان کا ساتھ نہیں دے گی ۔
سول حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوسرا اہم مسئلہ افغانستان ہے۔
افغانستان میں طالبان پر ہماری انویسٹمنٹ بہت پرانی ہے ۔ شمالی اتحاد کے خلاف طالبان کی فتح میں ہمارا نا قابل تردید حصہ رہا ہے ۔بلکہ یوں کہیے کہ اپنے مغربی بارڈر پر ہم ہمیشہ ہی پخون افغان کو اپنے مفادات کا نگہبان سمجھتے آئے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کابل کے دری بولنے والی ایلیٹ،اور اوپر کے علاقوں کے تاجک اور ازبک ہمیشہ ہی سے پاکستان مخالف تھے اور شمالی اتحاد بھی انہیں لوگوں پر مشتمل تھا ۔ شمالی اتحاد شروع ہی سے امریکہ کا منظور نظر بھی تھا کیونکہ امریکن جنگیں جیتنے کے لئے تو بنیادپرست مسلمانوں کو استعمال کرتے ہیں لیکن پوسٹ وار انہوں نے اپنے ماڈریٹ تیار رکھے ہوتے ہیں۔ یہی مسئلہ ضیاالحق کی موت کا باعث بھی بنا جب ضیاالحق سوویت یونین کی واپسی کے بعد افغان حکومت گلبدین حکمت یار کو سونپنے پر تیار تھے اور امریکہ شمالی اتحاد کو پروموٹ کر رہا تھا ۔
ہماری فوج آج بھی اسی سوچ پر یقین رکھتی ہے کہ اگر طالبان کا مشرقی افغانستان سے اثر ختم ہوا تو امریکہ اور انڈیا کو پاکستان کے بارڈر پر روکنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کی دو بچی کھچی فوجوں یعنی ترکی اور پاکستان کو عراق اور شام کی طرح لتاڑ دینا چاہتے ہیں اور ترکی میں فوج کو آپس میں لڑا دینے کا ان کا منصوبہ تو ترکی کے عوام نے ناکام بنا دیا لیکن ترکی میں اب بم دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے جبکہ اس کام کے پیچھے موجود کرد امریکہ کے شام میں اتحادی ہیں۔ پاکستان کی حد تک انڈیا اور شمالی اتحاد کے افغانی اس کام میں پاکستان کی حد تک امریکہ اور اسرائیل کے لئے اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق اتحادی ہیں اور خاص کر بلوچستان میں چین کا راستہ روکنے پر یہ چاروں متفق بھی ۔جبکہ اب روس اور ایران طالبان کو فنانس بھی کر رہے ہیں اور ہتھیاروں کی ترسیل بھی۔ روس خطہ میں امریکہ کو مستحکم نہیں ہونے دے گا اور امریکی اکانومی کو افغانستان میں سلگتا رکھے گا۔ روس امریکہ کو سینٹرل ایشیائی ملکوں کے سر پر بیٹھا نہیں دیکھ سکتا ۔ اسی مقصد کے لئے روس اب پاکستان کے ساتھ کوآرڈی نیٹ بھی کر رہا ہے ۔ روس کی طرح ایران بھی امریکہ کو اپنے سر پر بیٹھا نہیں دیکھنا چاہتا ۔
ایسے حالات میں ہماری سول حکومت امریکن پریشر ابزارب نہیں کر سکتی اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اپریشن بارے امریکہ کے مطالبے پر گھٹنے ٹیک دینا چاہتی ہے ۔ جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا امریکہ کو ایک سیدھا سا جواب ہے کہ ہم افغانستان میں ڈائیلاگ کے ذریعے امن کے حامی ہیں اور ہم اپنے مشرقی بارڈر پر موجود پریشر کی وجہ سے طالبان کے ساتھ ایک لمبی جنگ نہیں لڑ سکتے۔
پچھلے ۶۹ سال میں ہماری خارجہ پالیسی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی جہاں ہم امریکہ کے اتحادی ہونے کے ناطے اس کے لئے کرائے کی آرمی کے فرائض انجام دیتے آئے ہیں اور اس دوران ہماری خارجہ پالیسی کسی تھنک ٹینک کی محتاج نہیں تھی اور ہمارے بیرون ممالک میں تعینات آفیشلز کو کوئی آوٹ آف دی باکس سوچنا نہیں پڑتا تھا ۔ لیکن آج ہم جہاں چین اور روس کے قریب بھی جا رہے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو مسلسل یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ ہم اس کی افغانستان میں مستقل موجودگی کے لئے اتنے ہی اہم ہیں جتنا ہم روس کو افغانستان سے نکالنے کے لئے اہم تھے ۔ اور یہ کہ روس چین اور ایران کے بلاک میں ہمیں مستقل دھکیل دینے سے اس کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہونگے ، وہیں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف اور ان کے حصول کے لئے ماسٹر پلان کے مندرجہ جات کو ری وزٹ بھی کرنا ہو گا۔
ہمارے بیرون ملک سفارت خانوں کو اسٹیبلیشڈ میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے میں مہارت پیدا کرنی ہو گی ۔ ہماری ایجنسیز کو افغان میڈیا کو فنانس اور کنٹرول کرنا ہو گا اور انہیں امریکہ اور یورپ میں ایسے جنرلسٹ اور میڈیا ہاوسز کو مینیج کرنے کے ہنر سیکھنے ہونگے ۔ لابی کمپنیز کو فنڈ کرنے سے بہتر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ماس پرسیپشن پر اثر انداز ہونے کی جستجو کرنی پڑے گی کیونکہ لابنگ فرمز کے اقدامات تو ایک سیاستدان پر عیاں ہوتے ہیں لیکن میڈیا کو وہ ہمیشہ سیریس لیتے ہیں۔ اور ویسے بھی لابنگ میں اب شائد انڈیا کا مقابلہ نہ کر سکیں ۔
میاں صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لئے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں لکھی گئی تقریر میں وانی کا ذکر اور کشمیر پر بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذکر تو کیا لیکن انہوں نے اسے بیلینس رکھنے کے لئے اپنی آواز دھیمی رکھی اور الفاظ میں سختی ایاں نہ ہونے دی۔ اور انہوں نے اس کے بعد بھی کشمیر میں جاری مظالم کو ورلڈ پلئیرز کے سامنے اجاگر کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی ۔ بلکہ یہاں تک کہ جن پندرہ پارلیمنٹیرینز کے ناموں کا بیرونی ممالک بھیجنے کے حوالے سے اعلان کیا گیا وہ بھی ایک مذاق ہی بن کر رہ گیا اور بلآخر یہ سب کچھ ملتوی کر دیا گیا ۔ میاں صاحب نے انڈیا کو پچھلے چار سال میں ایک دفعہ بھی چیلنج نہیں کیا اور کبھی بھی مودی کو اسی کے لہجے میں جواب نہیں دیا۔ کلبھوشن کے پکڑے جانے پر ساری قوم کی تنقید کے باوجود ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہ کیا ۔جہاں انڈیا نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں نہ صرف شرکت نہیں کی بلکہ اسے سبوتاج کرنے کے لئے افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال کو بھی شرکت سے منع کیا وہاں میاں صاحب نے سرتاج عزیز کو امرتسر میں افغانستان بارے کانفرنس میں بھیجا، بے عزتی کروائی اور ساتھ ساتھ ڈائیلاگ کی بھیک بھی مانگی ۔ بلکہ اجیت دووال کی ڈیمانڈ پر کلبھشن کے خلاف جاسوسی کے الزامات واپس لینے کی طرف پہلا قدم بھی اٹھایا۔ میاں صاحب کشمیر میں موجود فریڈم فائیٹرز کو کرش کر دینا چاہتے ہیں لیکن اس بارے فوج ان کا ساتھ نہیں دے گی ۔
سول حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوسرا اہم مسئلہ افغانستان ہے۔
افغانستان میں طالبان پر ہماری انویسٹمنٹ بہت پرانی ہے ۔ شمالی اتحاد کے خلاف طالبان کی فتح میں ہمارا نا قابل تردید حصہ رہا ہے ۔بلکہ یوں کہیے کہ اپنے مغربی بارڈر پر ہم ہمیشہ ہی پخون افغان کو اپنے مفادات کا نگہبان سمجھتے آئے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کابل کے دری بولنے والی ایلیٹ،اور اوپر کے علاقوں کے تاجک اور ازبک ہمیشہ ہی سے پاکستان مخالف تھے اور شمالی اتحاد بھی انہیں لوگوں پر مشتمل تھا ۔ شمالی اتحاد شروع ہی سے امریکہ کا منظور نظر بھی تھا کیونکہ امریکن جنگیں جیتنے کے لئے تو بنیادپرست مسلمانوں کو استعمال کرتے ہیں لیکن پوسٹ وار انہوں نے اپنے ماڈریٹ تیار رکھے ہوتے ہیں۔ یہی مسئلہ ضیاالحق کی موت کا باعث بھی بنا جب ضیاالحق سوویت یونین کی واپسی کے بعد افغان حکومت گلبدین حکمت یار کو سونپنے پر تیار تھے اور امریکہ شمالی اتحاد کو پروموٹ کر رہا تھا ۔
ہماری فوج آج بھی اسی سوچ پر یقین رکھتی ہے کہ اگر طالبان کا مشرقی افغانستان سے اثر ختم ہوا تو امریکہ اور انڈیا کو پاکستان کے بارڈر پر روکنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کی دو بچی کھچی فوجوں یعنی ترکی اور پاکستان کو عراق اور شام کی طرح لتاڑ دینا چاہتے ہیں اور ترکی میں فوج کو آپس میں لڑا دینے کا ان کا منصوبہ تو ترکی کے عوام نے ناکام بنا دیا لیکن ترکی میں اب بم دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے جبکہ اس کام کے پیچھے موجود کرد امریکہ کے شام میں اتحادی ہیں۔ پاکستان کی حد تک انڈیا اور شمالی اتحاد کے افغانی اس کام میں پاکستان کی حد تک امریکہ اور اسرائیل کے لئے اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق اتحادی ہیں اور خاص کر بلوچستان میں چین کا راستہ روکنے پر یہ چاروں متفق بھی ۔جبکہ اب روس اور ایران طالبان کو فنانس بھی کر رہے ہیں اور ہتھیاروں کی ترسیل بھی۔ روس خطہ میں امریکہ کو مستحکم نہیں ہونے دے گا اور امریکی اکانومی کو افغانستان میں سلگتا رکھے گا۔ روس امریکہ کو سینٹرل ایشیائی ملکوں کے سر پر بیٹھا نہیں دیکھ سکتا ۔ اسی مقصد کے لئے روس اب پاکستان کے ساتھ کوآرڈی نیٹ بھی کر رہا ہے ۔ روس کی طرح ایران بھی امریکہ کو اپنے سر پر بیٹھا نہیں دیکھنا چاہتا ۔
ایسے حالات میں ہماری سول حکومت امریکن پریشر ابزارب نہیں کر سکتی اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اپریشن بارے امریکہ کے مطالبے پر گھٹنے ٹیک دینا چاہتی ہے ۔ جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا امریکہ کو ایک سیدھا سا جواب ہے کہ ہم افغانستان میں ڈائیلاگ کے ذریعے امن کے حامی ہیں اور ہم اپنے مشرقی بارڈر پر موجود پریشر کی وجہ سے طالبان کے ساتھ ایک لمبی جنگ نہیں لڑ سکتے۔
پچھلے ۶۹ سال میں ہماری خارجہ پالیسی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی جہاں ہم امریکہ کے اتحادی ہونے کے ناطے اس کے لئے کرائے کی آرمی کے فرائض انجام دیتے آئے ہیں اور اس دوران ہماری خارجہ پالیسی کسی تھنک ٹینک کی محتاج نہیں تھی اور ہمارے بیرون ممالک میں تعینات آفیشلز کو کوئی آوٹ آف دی باکس سوچنا نہیں پڑتا تھا ۔ لیکن آج ہم جہاں چین اور روس کے قریب بھی جا رہے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو مسلسل یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ ہم اس کی افغانستان میں مستقل موجودگی کے لئے اتنے ہی اہم ہیں جتنا ہم روس کو افغانستان سے نکالنے کے لئے اہم تھے ۔ اور یہ کہ روس چین اور ایران کے بلاک میں ہمیں مستقل دھکیل دینے سے اس کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہونگے ، وہیں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف اور ان کے حصول کے لئے ماسٹر پلان کے مندرجہ جات کو ری وزٹ بھی کرنا ہو گا۔
ہمارے بیرون ملک سفارت خانوں کو اسٹیبلیشڈ میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے میں مہارت پیدا کرنی ہو گی ۔ ہماری ایجنسیز کو افغان میڈیا کو فنانس اور کنٹرول کرنا ہو گا اور انہیں امریکہ اور یورپ میں ایسے جنرلسٹ اور میڈیا ہاوسز کو مینیج کرنے کے ہنر سیکھنے ہونگے ۔ لابی کمپنیز کو فنڈ کرنے سے بہتر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ماس پرسیپشن پر اثر انداز ہونے کی جستجو کرنی پڑے گی کیونکہ لابنگ فرمز کے اقدامات تو ایک سیاستدان پر عیاں ہوتے ہیں لیکن میڈیا کو وہ ہمیشہ سیریس لیتے ہیں۔ اور ویسے بھی لابنگ میں اب شائد انڈیا کا مقابلہ نہ کر سکیں ۔