سوشل میڈیا پر #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام ٹاپ ٹرینڈ ہے، سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کے حامی اور مخالف سامنے آگئے ہیں ۔ صدارتی نظام کے حامی اس نظام کے فوائد گنوارہے ہیں جبکہ مخالفین کے نزدیک یہ نظام ایک ڈکٹیٹرشپ کا نظام ہے جو سابق آمروں نے نافذ کررکھا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام انتہائی فرسودہ ہوگیا ہے جس میں حکومت بنانے کیلئے خریدوفروخت کرنا پڑتی ہے۔نہ عدالتیں کیسز کے فیصلے کرتی ہیں اور نہ انصاف کرتی ہیں، نہ حکومتیں ڈلیور کرتی ہیں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔
صدارتی نظام کے حامیوں کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی نظامِ حکومت کے قریب تر اگر کوئی نظام ہے تو وہ صدارتی نظام ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں اگر ترقی ہے تو صرف صدارتی نظام کی وجہ سے کیونکہ صدر کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں اور وہ فیصلوں میں خودمختار ہوتا ہے۔
بعض سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ قائداعظم اسلامی صدارتی نظام چاہتے تھے، انکا ایک خط بھی تھا جو آج تک چھپایا گیا ہے۔ان کا دعویٰ تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کے خواہاں تھے اور انہوں نے 10 جولائی 1947 کو کھل کر اظہار بھی کیا
ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم پابند ہوتا ہے کہ صرف منتخب افراد کو وزارتیں دے سکتا ہے اور وہ افراد محض سیاستدان ہوتے ہیں، اپنے شعبے کے ماہر نہیں صدارتی نظام میں منتخب افراد کی شرط نہیں ہے اس لیئے کسی بھی ماہر کو وزارت دی جا سکتی ہے۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے ڈاکٹر اسرار کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ اس پارلیمانی نظام کی لعنت جو انگریزوں سے ہمیں وراثت کے طور پر ملی ہے۔ اسے چھوڑ کر صدارتی نظام نافذ کیا جائے جو نظام خلافت کے قریب تر ہے۔ انہوں نے ہم سے ہی صدارتی نظام لیا ہے۔
اس کلپ میں ڈاکٹر اسرار کہتے ہیں کہ امریکی صدارتی نظام خلافت سے مستعار لیا تھا جس میں مواخذہ بھی شامل ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی مواخذے کی بات ہوئی تو نکسن بھاگ کھڑا ہوا۔
ڈاکٹر اسرار مزید کہتے ہیں کہ صدارتی نظام کیساتھ ساتھ چھوٹے صوبوں کی ضرورت ہے۔ پھر ہی لوگوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔
دوسری جانب صدارتی نظام کے مخالفوں نے بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صدارتی نظام آمروں کا پسندیدہ نظام ہے جو انہوں نے نافذ کررکھا تھا، اسکا کیا نتیجہ نکلا؟ یحییٰ خان کے دور میں پاکستان دو لخت ہوا، ضیاء دور میں ہمیں فرقہ پرستی، افغان مہاجرین کا تحفہ ملا اور مشرف دور میں طالبان پاکستان پر نازل ہوئے۔
مخالف رائے دینے والوں نے مزید کہا کہ صدارتی نظام میں پاکستان ٹوٹا، سیاچن الگ ہوا، سوات پر طالبان کا قبضہ ہوا اور پاکستان پر دہشتگردی کا لیبل لگا ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف اور صرف اسلامی نظام صدارتی نظام بھی ایک دھوکا ہے کیونکہ پاکستان میں مشرف اور زرداری صدارتی نظام حکومت میں جو کر کے گئے ہیں سب کے سامنے ہے۔
صدارتی اور پارلیمانی جمہوریت ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں. بس یہ ایک اور ٹرک کی بتی ہے جسکے پیچھے کچھ سادہ لوح لوگوں کو لگایا جا رہا ہے.
صدارتی نظام کے مخالفوں کی رائے تھی کہ بہتر ہے کہ پارلیمانی نظام کو ہی بہتر کرلیا جائے، الیکشن سسٹم، بلدیاتی نظام، پولیس اصلاحات عدالتی نظام، گورننس ماڈل کو بہتر کرلیں، بیوروکریسی کو لگام ڈال لیں تو ہمیں کسی صدارتی نظام کی ضرورت نہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ خان صاحب آپکے تمام وزراء اپوزیشن کے پیچھے پڑیں ہیں۔۔۔جبکہ انکو اپنی وزارت کی کارکردگی کواجاگر کرنا چاہیے۔۔عوام نے کارکردگی پر ووٹ دینا ہے ۔۔ اپوزیشن پر بولنے پر نہیں۔۔