پاکستان میں آئے روز توہینِ رسالت، توہینِ قرآن اور توہینِ اسلام پر کسی نہ کسی کو پکڑ کر لوگ قتل کردیتے ہیں یا زندہ جلادیتے ہیں۔ کل سوات میں لوگوں نے ایک شخص پر توہینِ قرآن کا الزام لگنے پر اسے زندہ جلادیا۔ پوری دنیا میں یہ مناظر جارہے ہیں، کیا ایسے پاکستان کی طرف کوئی ٹوئرسٹ منہ کرنے کی ہمت کرے گا۔ ایسے کسی بھی واقعے کے بعد سب سے پہلا جملہ مذمت کرنے والے مسلمانوں کی طرف سے یہ سننے کو ملتا ہے "اسلام تو یہ نہیں سکھاتا"۔۔ یہیں سے سارا مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ ایک قدیم فلاسفر کا کہنا ہے جب آپ اپنی خامی کو پہچان لیں اور تسلیم کرلیں تو سمجھ لیں آپ نے آدھا سفر طے کرلیا۔۔ ہم اپنی خامی کو ہی نہیں تسلیم کررہے ، تو مسئلے سے نبردآزما کیسے ہوں گے۔
اسلام قرآن اور احادیث پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ اسلامی تاریخ کی کتب بھی اسلام کی تعلیمات کو بیان کرنے کیلئے بہت بڑے سورس کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ان کتب میں آپ کو بہت سی ایسی احادیث اور واقعات مل جائیں گے جن میں پیغمبر اسلام نے خود اپنی توہین کرنے والوں کو قتل کا حکم دیا یا ایسا کام کرنے والوں کو شاباش دی۔ ایک نابینا صحابی نے جب اپنی بیوی / لونڈی کو اس لئے قتل کردیا کیونکہ وہ پیغمبر اسلام کو برا بھلا کہتی تھی، پیغمبر اسلام کو جب پتا چلا تو انہوں نے اس عورت کا خون ضائع قرار دے دیا (حوالے کے طور پر حدیث آخر میں درج ہے)۔ ایسی بہت سی احادیث کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کی کتب میں آپ کو بے شمار واقعات ملیں گے جن میں صحابہ نے پیغمبر اسلام کے خلاف بولنے والوں کو گستاخ قرار دے کر ان کی گردن اڑادی۔
جب مولوی حضرات ممبر پر بیٹھ کر ان احادیث اور واقعات کو بیان کرتے ہیں تو آپ ان کو روک نہیں سکتے، کیونکہ جب تک یہ واقعات اسلامی کتب میں موجود ہیں، یہ اسلام کا حصہ ہیں اور اگر آپ ان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا آپ اسلام کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریت جو دن رات یہ جگالی کرتی ہے کہ "اسلام تو یہ نہیں سکھاتا" اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ عوام کا آئے روز توہینِ اسلام پر قتل و غارت گری کرنا اسلام کے خلاف ہے تو پھر وہ آگے آئیں اور اپنی مذہبی کتابوں کی صفائی کریں۔ اپنی کتابوں سے وہ تمام واقعات اور احکامات نکال دیں جن میں کسی کو گستاخ قرار دے کر قتل کا حکم یا ترغیب دی گئی ہو۔ مسلمانوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہماری اکثریت امن پسند ہے اور یہ صرف چند لوگ ہیں جو ایسی حرکات کرتے ہیں تو پھر آئیے اور اس کو ثابت کریئے، جب اکثریت آگے آکر اپنی کتابوں کی صفائی کرے گی تو اقلیت کچھ نہیں کرپائے گی۔ ہر وہ مسلمان جو سمجھتا ہے کہ جنونی مذہبی لوگوں کا یہ فعل اسلام کے خلاف ہے، وہ ان تمام کتابوں کو جلادے جن میں ایسے واقعات اور احکامات لکھے ہیں جن کو مولوی حضرات سنا سنا کر عوام کو اس کام پر لگائے ہوئے ہیں۔
ہر مذہب کو نئے زمانے کے حساب سے ریفارم کی ضرورت پڑتی ہے، عیسائیت میں بھی ریفارم ہوا تھا تبھی آج آپ کو یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بائبل کی توہین یا جیزز کی توہین پر لوگ ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے نظر نہیں آتے۔ ہر قوم نے خود ہی اپنی اصلاح کرنی ہوتی ہے۔ اگر مسلمان اپنی کتابوں سے قبائلی دور کا مواد صاف نہیں کریں گے تو مسلمان کبھی بھی جدید دور میں رہنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔
حوالہ احادیث۔۔۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی ، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی ، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو شروع کی ، اور آپ کو گالیاں دینے لگی ، تو اس ( اندھے ) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا ، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا ، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا ، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا ، اور فرمایا : ” جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے “ تو وہ اندھا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ، اور عرض کرنے لگا : اللہ کے رسول میں اس کا مولی ہوں ، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی ، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی ، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی ، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے ہیں ، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو جب کل رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی ، اور ہجو کرنی شروع کی ، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا ، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو ! سنو تم گواہ رہنا کہ اس لونڈی کا خون ضائع ہے “ ۔
سورس: https://sunnah.com/abudawud:4361
درج ذیل واقعہ بھی اسلامی کتب میں درج ہے
ابن خطل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کیخلاف شعر کہتا اور اس کی دو لونڈیاں یہ غلیظ شعر اس کو گاگا کے سناتیں۔ فتح مکہ کے دن وہ حرم مکہ میں پناہ گزیں تھا ابوبرزہؓ صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کیمطابق اسے وہیں جہنم رسید کردیا۔
عام طورپر غزوات اور جنگوں میں آپﷺ کا حکم ہوتا تھا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیاجائے، لیکن توہین رسول اسلامی شریعت میں اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کی مرتکب عورت بھی قابل معافی نہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کے علاوہ دو اور عورتوں کے بارے میں بھی جو آپﷺ کے حق میں بدزبانی کی مرتکب تھیں، قتل کا حکم جاری کیا تھا۔۔
اسلام قرآن اور احادیث پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ اسلامی تاریخ کی کتب بھی اسلام کی تعلیمات کو بیان کرنے کیلئے بہت بڑے سورس کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ان کتب میں آپ کو بہت سی ایسی احادیث اور واقعات مل جائیں گے جن میں پیغمبر اسلام نے خود اپنی توہین کرنے والوں کو قتل کا حکم دیا یا ایسا کام کرنے والوں کو شاباش دی۔ ایک نابینا صحابی نے جب اپنی بیوی / لونڈی کو اس لئے قتل کردیا کیونکہ وہ پیغمبر اسلام کو برا بھلا کہتی تھی، پیغمبر اسلام کو جب پتا چلا تو انہوں نے اس عورت کا خون ضائع قرار دے دیا (حوالے کے طور پر حدیث آخر میں درج ہے)۔ ایسی بہت سی احادیث کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کی کتب میں آپ کو بے شمار واقعات ملیں گے جن میں صحابہ نے پیغمبر اسلام کے خلاف بولنے والوں کو گستاخ قرار دے کر ان کی گردن اڑادی۔
جب مولوی حضرات ممبر پر بیٹھ کر ان احادیث اور واقعات کو بیان کرتے ہیں تو آپ ان کو روک نہیں سکتے، کیونکہ جب تک یہ واقعات اسلامی کتب میں موجود ہیں، یہ اسلام کا حصہ ہیں اور اگر آپ ان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا آپ اسلام کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریت جو دن رات یہ جگالی کرتی ہے کہ "اسلام تو یہ نہیں سکھاتا" اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ عوام کا آئے روز توہینِ اسلام پر قتل و غارت گری کرنا اسلام کے خلاف ہے تو پھر وہ آگے آئیں اور اپنی مذہبی کتابوں کی صفائی کریں۔ اپنی کتابوں سے وہ تمام واقعات اور احکامات نکال دیں جن میں کسی کو گستاخ قرار دے کر قتل کا حکم یا ترغیب دی گئی ہو۔ مسلمانوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہماری اکثریت امن پسند ہے اور یہ صرف چند لوگ ہیں جو ایسی حرکات کرتے ہیں تو پھر آئیے اور اس کو ثابت کریئے، جب اکثریت آگے آکر اپنی کتابوں کی صفائی کرے گی تو اقلیت کچھ نہیں کرپائے گی۔ ہر وہ مسلمان جو سمجھتا ہے کہ جنونی مذہبی لوگوں کا یہ فعل اسلام کے خلاف ہے، وہ ان تمام کتابوں کو جلادے جن میں ایسے واقعات اور احکامات لکھے ہیں جن کو مولوی حضرات سنا سنا کر عوام کو اس کام پر لگائے ہوئے ہیں۔
ہر مذہب کو نئے زمانے کے حساب سے ریفارم کی ضرورت پڑتی ہے، عیسائیت میں بھی ریفارم ہوا تھا تبھی آج آپ کو یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بائبل کی توہین یا جیزز کی توہین پر لوگ ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے نظر نہیں آتے۔ ہر قوم نے خود ہی اپنی اصلاح کرنی ہوتی ہے۔ اگر مسلمان اپنی کتابوں سے قبائلی دور کا مواد صاف نہیں کریں گے تو مسلمان کبھی بھی جدید دور میں رہنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔
حوالہ احادیث۔۔۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی ، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی ، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو شروع کی ، اور آپ کو گالیاں دینے لگی ، تو اس ( اندھے ) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا ، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا ، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا ، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا ، اور فرمایا : ” جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے “ تو وہ اندھا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ، اور عرض کرنے لگا : اللہ کے رسول میں اس کا مولی ہوں ، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی ، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی ، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی ، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے ہیں ، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو جب کل رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی ، اور ہجو کرنی شروع کی ، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا ، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو ! سنو تم گواہ رہنا کہ اس لونڈی کا خون ضائع ہے “ ۔
سورس: https://sunnah.com/abudawud:4361
درج ذیل واقعہ بھی اسلامی کتب میں درج ہے
ابن خطل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کیخلاف شعر کہتا اور اس کی دو لونڈیاں یہ غلیظ شعر اس کو گاگا کے سناتیں۔ فتح مکہ کے دن وہ حرم مکہ میں پناہ گزیں تھا ابوبرزہؓ صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کیمطابق اسے وہیں جہنم رسید کردیا۔
عام طورپر غزوات اور جنگوں میں آپﷺ کا حکم ہوتا تھا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیاجائے، لیکن توہین رسول اسلامی شریعت میں اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کی مرتکب عورت بھی قابل معافی نہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کے علاوہ دو اور عورتوں کے بارے میں بھی جو آپﷺ کے حق میں بدزبانی کی مرتکب تھیں، قتل کا حکم جاری کیا تھا۔۔
Last edited: