تاریخ : 5 اپریل 2016ء
سنی تحریک کے دھرنے کا حلوہ کڑوا تھا
تحریر: سید انور محمود
تحریر: سید انور محمود
مولانا احمد رضا خان بریلوی، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں 1272ھ ۔ 1856ء میں پیدا ہوئے۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالم دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتے ہیں اور پاکستان میں ان کی ہی اکثریت ہے۔
شاہ احمد نورانی جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ تھے، انہیں قائد اہلسنت بھی کہا جاتا تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی پاکستان کے اسلامی دینی اور سیاسی میدان میں ایک قد آور شخصیت تھے۔ اگر ہم انکی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں گے تو بہت سی جگہ اختلاف کرنے کے باوجود ہم ان کو ایک بااخلاق انسان پاینگے۔ مولانا نورانی سیاسی معاملات میں اگر کسی کی مخالفت کرتے بھی تھےتو کبھی بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتےتھے۔ 1990ء میں محمد سلیم قادری نے پاکستان سنی تحریک کی بنیاد رکھی لیکن انہیں مئی 2001ء میں شہید کردیا گیا۔ آجکل ثروت اعجاز قادری پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ہیں۔ پاکستان سنی تحریک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ دہشتگردی کےمخالف رہے ہیں۔ سربراہ پاکستان سنی تحریک ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور دہشتگردی کے خلاف آخری سانس تک جہدمسلسل جاری رکھیں گے، دہشتگردوں کی حمایت اور پناہ دینے والوں کی کسی صورت حمایت نہیں کرسکتے۔
پاکستان سنی تحریک و دیگر مذہبی جماعتوں نے لبیک یارسول ﷺ کانفرنس کے بعد اتوار 27 مارچ کی دوپہر ممتاز قادری کے چہلم کے اختتام پر اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہائوس کی طرف مارچ شروع کیا ۔پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، اس دوران جھڑپوں میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔آخر میں مظاہرین نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دئے دیا، یہ دھرنا چار روز کے بعد مظاہرین اور حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدئے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس دھرنے میں جس قسم کی شرمناک حرکتیں اور گالم گلوچ کی گئی وہ باعث حیرت ہے اور ناقابل برداشت بھی۔ پاکستان سنی تحریک کے رہنما جو عالم دین بھی ہیں انکی حرکتوں سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے لیکن شاید سنی تحریک کے رہنماوں کو اسکا احساس بھی نہیں ہے، افسوس ہوا جب کراچی میں مفتی منیب الرحمان صاحب نے فرمایا کہ مذہبی پُرجوش کارکنوں کے جذبات کا خیال رکھا جائےاور ڈی چوک پر دھرنا دینے والوں اور مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال ہرگز نہ کیا جائے۔ شاہ احمد نورانی کے صابزادے اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ شاہ اویس نورانی نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں گالیاں دینے والوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ نوجوان ہیں ، غصے میں تھے اس لیے جذبات میں آکر یہ حرکتیں کربیٹھے۔گویا دونوں مذہبی اسکالر کے نزدیک ملک کے وزیر اعظم نواز شریف، انکی صابزادی مریم نواز، ممتاز مذہبی اسکالرطاہرالقادری اور ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما عمران خان کو مغلظات بکنا اور گالیاں دینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 14 جنوری 2013ء کو طاہر القادری کا پہلا چار روزہ دھرنا، دوسری بار نواز شریف حکومت میں 14اگست 2014ء کو طاہر القادری کا دوسرا دھرنا اور تحریکِ انصاف کی جانب سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل 126 روزہ دھرنا۔ طاہر القادری نے اپنے پہلے دھرنے میں بہت پرجوش انداز میں تقاریر کیں ، مسائل بیان کیے، پیپلز پارٹی کی حکومت کو برا بھلا بھی کہا۔ خالی ہاتھ واپس گئے لیکن ایک مرتبہ بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ دوسرے دھرنے میں طاہر القادری کے ساتھ عمران خان بھی شامل تھے، طاہر القادری کا بلڈ پریشر بڑھا تو کفن لے آئے جس کے بارئے میں انہوں نے کہا کہ یا تو میں پہنونگا یا نواز شریف کی حکومت ، دھرنا چھوڑ کر جانے تک ان کی زبان سےکوئی بے ہودہ لفظ نہیں سنائی دیا۔عمران خان کے دھرنے میں عمران خان نے سب سے زیادہ ‘‘اوئے ’’ کا لفظ استمال کیا مثلاً ‘‘اوئے نواز شریف’’، جس پر انکو ایک بدتمیز سیاستدان کہا جانے لگا۔ انکے دھرنے میں زیادہ اکثریت نوجوانوں کی تھی جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔
اپنی سیاسی مخالفت میں مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کےدھرنے کے بارئے میں کہا تھا کہ عمران خان کے لوگ دن میں دھرنا دیتے ہیں اور رات کو مجرا کرتے ہیں ، مولانا کے اس بیان کو خود ان کے ہمدردوں نے پسند نہیں کیا تھا اور پورئے ملک میں اسکی مذمت کی گئی۔ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کو بھی اپنی زبان پر قابو نہیں اس لیے انہوں نے دھرنے کے شرکا اور تحریک انصاف کی ترجمان شیری مزاری کے بارئے میں بے ہودہ کلمات کہے جس پر تحریک انصاف نے بھرپور احتجاج کیا، بعد میں الطاف حسین نے ایک ٹی وی چینل پر اپنے بیان پر معذرت کی اور شیری مزاری سے بھی ذاتی طور پر معذرت کی۔مفتی منیب الرحمان فرمارہے تھے کہ اس سے پہلے بھی دھرنے ہوئے ہیں ، مفتی صاحب کی بات بلکل درست کہ دھرنے ہوئے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ پاکستان سنی تحریک کے دھرنے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی جس میں موجود مذہبی شخصیات حکومت اور حریف مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو ایسی گالیاں دے رہی تھیں جنہیں شاید کوئی بھی مہذب انسان سننا پسند نہیں کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں اس دھرنے کےتعلق سے لاہور میں واپڈا ہاؤس کے سامنے ایک مولوی دوسرئے چند لوگوں کے ساتھ لوہے کا ایک پائپ اٹھاکر وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ برا سلوک کرنے کا کہہ رہا ہے۔ ڈی چوک کے دھرنے میں نواز شریف کے علاوہ انکی صابزادی مریم نواز کو بہت ہی غلیظ الفاظ سےنوازا گیا۔ دھرنے کے شرکا باپ بیٹی کے متعلق اپنے گھٹیا ریمارکس دیتے رہے۔ڈی چوک کی سڑکوں کوبھی اپنے گندئے نعروں کےلیے استمال کیا، وہاں موجود کنٹینر گندی گالیوں سے بھرئے ہوئے ہیں۔عمران خان کے بیان پر کہ ‘‘ہمارے دھرنے کا اس دھرنے سے موزانہ نہ کریں’’ مولانا خادم حسین نے عمران خان کو گندی گالیاں دیں۔ طاہر القادری کو بھی مولانا خادم حسین نے دل کھول کر گالیاں دیں۔ مسلکی اختلاف کے باوجود جو رائے عامہ ممتاز قاردی کے حق میں تھی، اب اس کا کہنا ہے کہ سنی تحریک کے دھرنے کا حلوہ کڑوا تھا۔ کوئی کیسے مان لے کہ یہ عاشق رسول ﷺ ہیں؟ لوگ مذہب کتابوں سے نہیں، افراد اور معاشروں سے سیکھتے ہیں۔اگر خود یہ رہنما ایسی شرمناک گالیاں دیتے ہیں، تو ان کے زیر تعلیم رہنے والوں کی اخلاقی تربیت اور حالت کیسی ہو گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
شاہ احمد نورانی جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ تھے، انہیں قائد اہلسنت بھی کہا جاتا تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی پاکستان کے اسلامی دینی اور سیاسی میدان میں ایک قد آور شخصیت تھے۔ اگر ہم انکی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں گے تو بہت سی جگہ اختلاف کرنے کے باوجود ہم ان کو ایک بااخلاق انسان پاینگے۔ مولانا نورانی سیاسی معاملات میں اگر کسی کی مخالفت کرتے بھی تھےتو کبھی بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتےتھے۔ 1990ء میں محمد سلیم قادری نے پاکستان سنی تحریک کی بنیاد رکھی لیکن انہیں مئی 2001ء میں شہید کردیا گیا۔ آجکل ثروت اعجاز قادری پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ہیں۔ پاکستان سنی تحریک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ دہشتگردی کےمخالف رہے ہیں۔ سربراہ پاکستان سنی تحریک ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور دہشتگردی کے خلاف آخری سانس تک جہدمسلسل جاری رکھیں گے، دہشتگردوں کی حمایت اور پناہ دینے والوں کی کسی صورت حمایت نہیں کرسکتے۔
پاکستان سنی تحریک و دیگر مذہبی جماعتوں نے لبیک یارسول ﷺ کانفرنس کے بعد اتوار 27 مارچ کی دوپہر ممتاز قادری کے چہلم کے اختتام پر اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہائوس کی طرف مارچ شروع کیا ۔پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، اس دوران جھڑپوں میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔آخر میں مظاہرین نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دئے دیا، یہ دھرنا چار روز کے بعد مظاہرین اور حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدئے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس دھرنے میں جس قسم کی شرمناک حرکتیں اور گالم گلوچ کی گئی وہ باعث حیرت ہے اور ناقابل برداشت بھی۔ پاکستان سنی تحریک کے رہنما جو عالم دین بھی ہیں انکی حرکتوں سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے لیکن شاید سنی تحریک کے رہنماوں کو اسکا احساس بھی نہیں ہے، افسوس ہوا جب کراچی میں مفتی منیب الرحمان صاحب نے فرمایا کہ مذہبی پُرجوش کارکنوں کے جذبات کا خیال رکھا جائےاور ڈی چوک پر دھرنا دینے والوں اور مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال ہرگز نہ کیا جائے۔ شاہ احمد نورانی کے صابزادے اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ شاہ اویس نورانی نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں گالیاں دینے والوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ نوجوان ہیں ، غصے میں تھے اس لیے جذبات میں آکر یہ حرکتیں کربیٹھے۔گویا دونوں مذہبی اسکالر کے نزدیک ملک کے وزیر اعظم نواز شریف، انکی صابزادی مریم نواز، ممتاز مذہبی اسکالرطاہرالقادری اور ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما عمران خان کو مغلظات بکنا اور گالیاں دینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 14 جنوری 2013ء کو طاہر القادری کا پہلا چار روزہ دھرنا، دوسری بار نواز شریف حکومت میں 14اگست 2014ء کو طاہر القادری کا دوسرا دھرنا اور تحریکِ انصاف کی جانب سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل 126 روزہ دھرنا۔ طاہر القادری نے اپنے پہلے دھرنے میں بہت پرجوش انداز میں تقاریر کیں ، مسائل بیان کیے، پیپلز پارٹی کی حکومت کو برا بھلا بھی کہا۔ خالی ہاتھ واپس گئے لیکن ایک مرتبہ بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ دوسرے دھرنے میں طاہر القادری کے ساتھ عمران خان بھی شامل تھے، طاہر القادری کا بلڈ پریشر بڑھا تو کفن لے آئے جس کے بارئے میں انہوں نے کہا کہ یا تو میں پہنونگا یا نواز شریف کی حکومت ، دھرنا چھوڑ کر جانے تک ان کی زبان سےکوئی بے ہودہ لفظ نہیں سنائی دیا۔عمران خان کے دھرنے میں عمران خان نے سب سے زیادہ ‘‘اوئے ’’ کا لفظ استمال کیا مثلاً ‘‘اوئے نواز شریف’’، جس پر انکو ایک بدتمیز سیاستدان کہا جانے لگا۔ انکے دھرنے میں زیادہ اکثریت نوجوانوں کی تھی جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔
اپنی سیاسی مخالفت میں مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کےدھرنے کے بارئے میں کہا تھا کہ عمران خان کے لوگ دن میں دھرنا دیتے ہیں اور رات کو مجرا کرتے ہیں ، مولانا کے اس بیان کو خود ان کے ہمدردوں نے پسند نہیں کیا تھا اور پورئے ملک میں اسکی مذمت کی گئی۔ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کو بھی اپنی زبان پر قابو نہیں اس لیے انہوں نے دھرنے کے شرکا اور تحریک انصاف کی ترجمان شیری مزاری کے بارئے میں بے ہودہ کلمات کہے جس پر تحریک انصاف نے بھرپور احتجاج کیا، بعد میں الطاف حسین نے ایک ٹی وی چینل پر اپنے بیان پر معذرت کی اور شیری مزاری سے بھی ذاتی طور پر معذرت کی۔مفتی منیب الرحمان فرمارہے تھے کہ اس سے پہلے بھی دھرنے ہوئے ہیں ، مفتی صاحب کی بات بلکل درست کہ دھرنے ہوئے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ پاکستان سنی تحریک کے دھرنے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی جس میں موجود مذہبی شخصیات حکومت اور حریف مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو ایسی گالیاں دے رہی تھیں جنہیں شاید کوئی بھی مہذب انسان سننا پسند نہیں کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں اس دھرنے کےتعلق سے لاہور میں واپڈا ہاؤس کے سامنے ایک مولوی دوسرئے چند لوگوں کے ساتھ لوہے کا ایک پائپ اٹھاکر وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ برا سلوک کرنے کا کہہ رہا ہے۔ ڈی چوک کے دھرنے میں نواز شریف کے علاوہ انکی صابزادی مریم نواز کو بہت ہی غلیظ الفاظ سےنوازا گیا۔ دھرنے کے شرکا باپ بیٹی کے متعلق اپنے گھٹیا ریمارکس دیتے رہے۔ڈی چوک کی سڑکوں کوبھی اپنے گندئے نعروں کےلیے استمال کیا، وہاں موجود کنٹینر گندی گالیوں سے بھرئے ہوئے ہیں۔عمران خان کے بیان پر کہ ‘‘ہمارے دھرنے کا اس دھرنے سے موزانہ نہ کریں’’ مولانا خادم حسین نے عمران خان کو گندی گالیاں دیں۔ طاہر القادری کو بھی مولانا خادم حسین نے دل کھول کر گالیاں دیں۔ مسلکی اختلاف کے باوجود جو رائے عامہ ممتاز قاردی کے حق میں تھی، اب اس کا کہنا ہے کہ سنی تحریک کے دھرنے کا حلوہ کڑوا تھا۔ کوئی کیسے مان لے کہ یہ عاشق رسول ﷺ ہیں؟ لوگ مذہب کتابوں سے نہیں، افراد اور معاشروں سے سیکھتے ہیں۔اگر خود یہ رہنما ایسی شرمناک گالیاں دیتے ہیں، تو ان کے زیر تعلیم رہنے والوں کی اخلاقی تربیت اور حالت کیسی ہو گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔