
بائیومیٹرک سسٹم بھی کسی کام نہ آیا۔۔ گھوسٹ ملازمین کا سلسلہ جاری ہے، حکومت سندھ کے شعبہ تعلیم میں بہتری کے دعوے بیکار گئے،بائیومیٹرک سسٹم کے نفاذ کے باجود ہزاروں گھوسٹ اساتذہ سامنے آگئے،محکمہ تعلیم کے ذرائع نے جنگ کو بتایا ہے کہ 4ہزار سے زائد اساتذہ سالوں سے صرف گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔
دوسری جانب 9ہزار سے زائد اساتذہ ایسے بھی ہیں جو عادی گھوسٹ ہیں،جن کو ڈیوٹی کا پابند بنانے کے لیے محکمے کے مجاز حکام کی جانب سے سختی کی گئی لیکن اس کے باوجود کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں۔
محکمہ تعلیم کے باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن میں4ہزار 400سے زائد اساتذہ سالوں سے مفت کی تنخواہ بٹور رہے ہیں،ڈیوٹی پر آنے کی زحمت تک نہیں کرتے، جن میں سے بیشتر ملازمین بیرون ملک جاکر ملازمتیں کررہے ہیں یا پھر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں، جبکہ 10ہزار 955 کےعادی گھوسٹ ہونے کا انکشاف ہوا ہے.
محکمہ تعلیم کے ذرائع نےجنگ کو بتایا کہ تھرپارکر، بدین، سجاول، شکارپور، نوابشاہ، خیرپورمیرس، لاڑکانہ، مٹیاری، میرپورخاص، سانگھڑ اور دیگر اضلاع میں گھوسٹ ملازمین کی بھرمار ہے،صوبائی حکومت کے مجاز حکام بخوبی آگاہ ہونے کے باجود چپ سادھے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے جیو نیوز کی رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا تھا کہ سندھ میں ایک ہزار 459 اسکولوں کا صرف کاغذوں میں موجود ہیں، جس کے بعد محکمہ تعلیم نے ان اسکولوں کو اپنی لسٹ سے خارج کر دیا ہے۔ کاغذوں میں موجود ان 1400 سے زائد اسکولوں میں سے کراچی، بدین، دادو، گھوٹکی، جیکب آباد، قمبر، میرپور خاص، جامشورو اور سانگھڑ میں اسکول موجود تھے جبکہ یہاں نہ کوئی ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف اور نہ ہی کوئی طالبعلم رجسٹر ہوا۔
ان گھوسٹ اسکولوں میں سے 62 کراچی جیسے بڑے شہر میں اور 2 اسکول حیدرآباد میں تھے۔ اس کے علاوہ سندھ کے تقریباً 1400 اسکولز کئی سالوں سے مکمل طور پر بند ہیں جب کہ خراب حالت اور فنکشنل نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے تقریباً ساڑھے 3ہزار اسکولوں کو بند کردیا گیا جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کا دعویٰ ہے کہ ان گھوسٹ اسکولوں کے نام پر بجٹ باقاعدگی سے جاری ہوتا رہا ہے۔ تحقیقات کے بعد محکمہ تعلیم نے اس کام میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/2019-bio.jpg