
سماء نیوز کے مطابق ایرانی کوکنگ آئل کراچی کی مارکیٹ میں نہ صرف قدم جما رہا ہے بلکہ اس نے پاکستانی مارکیٹ کو ہائی جیک کر لیا ہے اور کراچی شہر میں ہر طرف غیرقانونی اسمگلڈ ایرانی کوکنگ آئل بک رہا ہے۔ یہ آئل بلوچستان کے مختلف راستوں سے اداروں کی پلکوں کے سائے میں کراچی لایا جا رہا ہے۔
سماء کا دعویٰ ہے کہ لیاری کا غریب شاہ روڈ اس وقت کراچی والوں کے لیے غریب نواز روڈ بنا ہوا ہے مگر اس غریب نوازی کی بہت بھاری قیمت ملکی معیشت اور قومی خزانے کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ کیونکہ ایران سے پاکستان کی سمندری اور زمینی حدود میں اسمگل ہوکر آنے والے کوکنگ آئل کی کراچی میں سب سے بڑی پرچون مارکیٹ لیاری کا یہی بازار ہے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والے برانڈ کے مقابلے میں 30 سے 40 فیصد سستا ہونے کی وجہ سے کراچی کے کونے کونے سے لوگ غریب شاہ روڈ پہنچ رہے ہیں۔ ایک ایرانی آئل ڈیلر کا کہنا ہے کہ اس میں عوام کا فائدہ ہے کیونکہ کسٹم ڈیوٹی نہ ہونے کی وجہ سے یہ آئل سستا ہے۔
مارکیٹ اطلاعات کے مطابق پاکستانی تیل کا 5 کلو کا ڈبہ 22 سے 23 سو روپے کا ہے جبکہ ایرانی تیل کا ڈبہ 1500 روپے کا ہے۔ ایران سے پاکستان کی سمندری حدود سے گزر کر بلوچستان سمگلنگ کا گیٹ وے ان دنوں جیونی ساحل بنا ہوا ہے کیونکہ کسٹمز حکام نے قومی خزانے کو چونا لگانے کے لیے اسمگلرز کو سہولت دے رکھی ہے یقینا یہ سہولت مفت میں نہیں ملتی۔
جیونی ساحلی کے علاقہ کنٹانی میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی رفتار اتنی تیز ہے کہ دن میں تقریباً ہر ایک منٹ بعد تیل سے لدی ایک کشتی پہنچ رہی ہوتی ہے ۔ کنٹانی ساحل پر ہی بڑے بڑے زیرزمین ٹینک بنے ہوئے ہیں جہاں لانچوں کے ذریعے آنے والا تیل جمع کیا جاتا ہے۔
کسٹمز کی طرح سمندری حدود کی سیکیورٹی اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے ذمہ دار دیگر اداروں کو بھی ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے منظم کاروبار سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ جب پاکستانی آئل اینڈ گھی مینوفیکچررز نے ایرانی تیل اور اس تیل کی دھار کی ایسی روانی دیکھی تو انہوں بھی اس بہتی گنگا سے صرف ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ پانچوں انگلیوں کے ساتھ سر بھی ایرانی تیل کی کڑھائی میں ڈال دیا ہے۔
پاکستانی کوکنگ آئل کی ایک فیکٹری میں ایران سے اسمگلڈ کوکنگ آئل کے ڈرموں کے ڈھیر لگے ہیں ۔ جنہیں مقامی برانڈ کے لیبلز میں پیک کر کے بیچ دیا جاتا ہے۔ ٹیکس چوری کرکے قومی خزانے کا چونا لگانے والی یہ واحد کمپنی نہیں ہے۔ آئل ڈیلر کا کہنا ہے کہ بہت سی پاکستانی کمپنیاں اپنی پیکنگ میں ایرانی مال بیچ کر 3 گنا زیادہ منافع کما رہے ہیں۔
سما کی جانب سے اسمگلڈ تیل بیچنے سے متعلق غریب شاہ روڈ کے پرچون دکانداروں سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بازار میں تو معمولی پرچون فروش ہیں ، کارروائی کرنی ہے تو یوسف گوٹھ میں ہونی چاہیے جو ایرانی تیل کی سب سے بڑی منڈی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں خوردنی تیل کی سالانہ کھپت 42 لاکھ ٹن ہے جس میں سے 38 لاکھ درآمد کیا جاتا ہے جبکہ 4 لاکھ مقامی سطح پر کاٹن سیڈ سے تیار کیا جاتا ہے۔ ایرانی تیل کی اسمگلنگ تقریبا 3 لاکھ ٹن سالانہ سے زائد ہے اور اس کی شرح مسلسل بڑح رہی ہے۔
اگر ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے متعلق آئل اینڈ گھی مینوفیکچررز کے دعوے کو درست مان لیا جائے تو اس سے قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں تقریبا 30 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایرانی تیل کے ساتھ چاکلیٹس، بسکٹس اور دیگر مصنوعات بھی غریب شاہ روڈ کی دکانوں میں موجود ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/oil-in-pak-cooking.jpg
Last edited: