سزاؤں کی معافی نہیں چاہئے، عمران خان کا صدر علوی کو پیغام

ansai1b11hh22.jpg

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے واضح کردیا کہ انہیں سزاؤں کی معافی نہیں چاہئے, پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان نے صدر پاکستان عارف علوی کو پیغام بھجوایا ہے کہ مجھے کسی بھی صورت میں صدارتی اختیار کے تحت خود کو ملنے والی سزاؤں کی معافی نہیں چاہئے۔

دی نیوز سے گفتگو میں پارٹی کے انفارمیشن سیکریٹری نے کہا صدر مملکت کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف حلقوں، بشمول سوشل میڈیا سے ایسے مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ صدر علوی کو عمران خان کی سزائیں معاف کر دینا چاہئیں۔

رؤف حسن کا کہنا تھا ایسے مطالبات کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے صدر مملکت کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ سزائیں معاف نہ کریں, پارٹی کے بانی چیئرمین ایسی کوئی معافی قبول نہیں کریں گے, صدر کے پاس کسی بھی سزا یافتہ مجرم کو معاف کرنے کا اختیار ہے۔ آئین کے آرٹیکل 45؍ اسی موضوع کے بارے میں ہے۔


آرٹیکل میں لکھا ہے صدر مملکت کو کسی عدالت، ٹریبونل یا دیگر ہئیت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصہ کیلئے روکنے، اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔ کئی ماہرین آئین اور ماہرین قانون کی رائے ہے کہ صدر مملکت صرف وزیراعظم کی سفارش پر ہی کسی کی سزا معاف یا معطل کر سکتے ہیں، لیکن دیگر کی رائے ہے کہ صدر مملکت یہ اقدام اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں اور اس کیلئے انہیں چیف ایگزیکٹو کی سفارش کی ضرورت نہیں۔

گزشتہ سال اگست میں اسلام آباد کی ضلعی عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد سینئر وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اپنی صوابدید پر یا وزیر اعظم کے مشورے پر آرٹیکل 45 کے تحت کسی بھی سزا کو ختم یا معاف کر سکتے ہیں۔


معافی دینے کے صدر مملکت کے اختیار پر کوئی پابندی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں ریاستوں کے سربراہ کو کسی بھی مجرم کی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصہ کیلئے روکنے کا اختیار حاصل ہے۔

گزشتہ سال عمران خان کی سزا کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دیا تھا لیکن 8 فروری کے عام انتخابات سے قبل، عمران خان کو یکے بعد دیگرے تین مقدمات میں سزا سنائی گئی۔ سائفر کیس میں انہیں شاہ محمود قریشی کے ساتھ مجرم قرار دیا گیا اور دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بعد ازاں دو مقدمات (نیب کا توشہ خانہ کیس اور غیر قانونی نکاح کیس) میں سزا سنائی گئی۔

توشہ خانہ کیس میں دونوں کو 14 سال جبکہ غیر قانونی نکاح کیس میں دونوں کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ تینوں سزائیں عام انتخابات سے کچھ وقت قبل ایک ہفتے میں سنائی گئیں۔

عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے صدر مملکت سے عمران خان کی سزاؤں کو معاف کرنے کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ کی قانونی ٹیم تینوں سزاؤں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ہی چیلنج کر چکی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو وکلاء سے اکیلے میں ملاقات کی اجازت دے دی۔

ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی وکلاء سے پرائیویسی اور اکیلے میں ملاقات کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ہائی کورٹ نے جیل انتظامیہ کو پرائیویسی میں ملاقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وکلاء کی ملاقات کے دوران کوئی اہلکار کھڑا نہیں ہوگا۔

عدالت نے وکلاء کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے دوران کاغذات اور پینسل لے جانے کی بھی اجازت دے دی۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے حکم دیا کہ اس حوالے سے تحریری حکمنامہ جاری کردینگے ، جیل میں ملاقات سے متعلق ساری درخواستیں نمٹا رہے ہیں آئندہ درخواست دائر نہ کریں۔شیر افضل مروت نے دلائل دیے کہ وکلاء سے ملاقات کے دوران دو جیل اہکار زبردستی موجود ہوتے ہیں، جیل انتظامیہ نئے پارٹی ممبران، نو منتخب اراکین سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی۔

عدالت نے عمران خان کی سیاسی معاونین سے بھی ملاقات کرانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے جیل انتظامیہ کو احکامات جاری کرتے ہوئے درخواستیں نمٹا دیں۔
 

Husain中川日本

Senator (1k+ posts)
ansai1b11hh22.jpg

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے واضح کردیا کہ انہیں سزاؤں کی معافی نہیں چاہئے, پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان نے صدر پاکستان عارف علوی کو پیغام بھجوایا ہے کہ مجھے کسی بھی صورت میں صدارتی اختیار کے تحت خود کو ملنے والی سزاؤں کی معافی نہیں چاہئے۔

دی نیوز سے گفتگو میں پارٹی کے انفارمیشن سیکریٹری نے کہا صدر مملکت کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف حلقوں، بشمول سوشل میڈیا سے ایسے مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ صدر علوی کو عمران خان کی سزائیں معاف کر دینا چاہئیں۔

رؤف حسن کا کہنا تھا ایسے مطالبات کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے صدر مملکت کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ سزائیں معاف نہ کریں, پارٹی کے بانی چیئرمین ایسی کوئی معافی قبول نہیں کریں گے, صدر کے پاس کسی بھی سزا یافتہ مجرم کو معاف کرنے کا اختیار ہے۔ آئین کے آرٹیکل 45؍ اسی موضوع کے بارے میں ہے۔


آرٹیکل میں لکھا ہے صدر مملکت کو کسی عدالت، ٹریبونل یا دیگر ہئیت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصہ کیلئے روکنے، اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔ کئی ماہرین آئین اور ماہرین قانون کی رائے ہے کہ صدر مملکت صرف وزیراعظم کی سفارش پر ہی کسی کی سزا معاف یا معطل کر سکتے ہیں، لیکن دیگر کی رائے ہے کہ صدر مملکت یہ اقدام اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں اور اس کیلئے انہیں چیف ایگزیکٹو کی سفارش کی ضرورت نہیں۔

گزشتہ سال اگست میں اسلام آباد کی ضلعی عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد سینئر وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اپنی صوابدید پر یا وزیر اعظم کے مشورے پر آرٹیکل 45 کے تحت کسی بھی سزا کو ختم یا معاف کر سکتے ہیں۔


معافی دینے کے صدر مملکت کے اختیار پر کوئی پابندی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں ریاستوں کے سربراہ کو کسی بھی مجرم کی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصہ کیلئے روکنے کا اختیار حاصل ہے۔

گزشتہ سال عمران خان کی سزا کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دیا تھا لیکن 8 فروری کے عام انتخابات سے قبل، عمران خان کو یکے بعد دیگرے تین مقدمات میں سزا سنائی گئی۔ سائفر کیس میں انہیں شاہ محمود قریشی کے ساتھ مجرم قرار دیا گیا اور دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بعد ازاں دو مقدمات (نیب کا توشہ خانہ کیس اور غیر قانونی نکاح کیس) میں سزا سنائی گئی۔

توشہ خانہ کیس میں دونوں کو 14 سال جبکہ غیر قانونی نکاح کیس میں دونوں کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ تینوں سزائیں عام انتخابات سے کچھ وقت قبل ایک ہفتے میں سنائی گئیں۔

عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے صدر مملکت سے عمران خان کی سزاؤں کو معاف کرنے کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ کی قانونی ٹیم تینوں سزاؤں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ہی چیلنج کر چکی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو وکلاء سے اکیلے میں ملاقات کی اجازت دے دی۔

ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی وکلاء سے پرائیویسی اور اکیلے میں ملاقات کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ہائی کورٹ نے جیل انتظامیہ کو پرائیویسی میں ملاقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وکلاء کی ملاقات کے دوران کوئی اہلکار کھڑا نہیں ہوگا۔

عدالت نے وکلاء کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے دوران کاغذات اور پینسل لے جانے کی بھی اجازت دے دی۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے حکم دیا کہ اس حوالے سے تحریری حکمنامہ جاری کردینگے ، جیل میں ملاقات سے متعلق ساری درخواستیں نمٹا رہے ہیں آئندہ درخواست دائر نہ کریں۔شیر افضل مروت نے دلائل دیے کہ وکلاء سے ملاقات کے دوران دو جیل اہکار زبردستی موجود ہوتے ہیں، جیل انتظامیہ نئے پارٹی ممبران، نو منتخب اراکین سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی۔

عدالت نے عمران خان کی سیاسی معاونین سے بھی ملاقات کرانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے جیل انتظامیہ کو احکامات جاری کرتے ہوئے درخواستیں نمٹا دیں۔
معافی تو جھوٹی سزائیں دینے اور دلوانے والوں کو مانگنی پڑے گی خان تو ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے
مٹی
کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں
تھے