
سری لنکا میں معاشی بحران کے بعد آئینی بحران بھی سر اٹھانے لگا، حکومت کے 41 اراکین اسمبلی اپوزیشن سے جا ملے جس کے سبب صدر گوٹابیا راجہ پکسا پارلیمنٹ میں اکثریت سے محروم ہو گئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک طرف سری لنکا میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال ہے تو دوسری طرف ملک میں جاری شدید معاشی بحران کے خلاف کئی روز سے مظاہرے جاری ہیں۔
سری لنکا کے صدر گوتابایا راجاپاپارلیمانی اکثریت سے محروم ہو گئے۔ اب ان کے سابق اتحادی ان پر استعفیٰ کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
منگل کو سری لنکا کے نئے وزیر خزانہ نے عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک دن بعد مستعفی ہونے کے اعلان کر دیا۔ جب کہ مشتعل عوام نے متعدد حکومتی شخصیات کے گھروں پر دھاوا بولنے کی کوشش کی۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سری لنکا کا بحران حکومتی بدانتظامی، برسوں کے جمع شدہ قرضے اور ناجائز ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔
وجایا داسا راجاپاکسے کا کہنا تھا کہ "اگر ہم نے اب قدم نہ اٹھایا تو ملک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ ہمیں پارٹی سیاست بھولنی پڑے گی اور عبوری حکومت کو یقینی بنانا ہو گا۔"
صدر نے پارٹی سے الگ ہونے ہونے والے قانون ساز پارلیمنٹ کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور بگڑتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے دوسروں کے لیے جگہ بنائیں۔
راجا پاکسے کی حکومت سے الگ ہونے والے سابق وزیر نمل لانزا نے تسلیم کیا ہے کہ حکمران جماعت حکومت کرنے کے اختیار سے محروم ہو چکی ہے۔ انہوں نے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبے کرنے والے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ارکان سے اپیل کی وہ مظاہرین کی حمایت کریں۔ جبکہ اس پر بھی اجلاس میں شریک وزیراعظم راجا پاکسے خاموش رہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/sril1111.jpg