saeedahmed
Voter (50+ posts)
برطانوی سامراج کے دوران مغربی پنجاب میں سکھوں کی آبادکاری قسط اولعباس سیال، سڈنی، آسٹریلیاہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران پنجاب کی ڈیموگرافی(آبادی) میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔آبادی میں ہونے والی اس تبدیلی کا سب سے اہم عنصر مغربی پنجاب میں بنائی گئی ایگری کلچرل کالونیاں ـ تھیں جنہیں پنجاب کے دوآب میں نہریں نکال کر خشک اور بنجر زمینوں کو آبادکرکے قائم کیا گیا تھا اور اس سارے منصوبے کو خطے کے ترقیاتی عمل سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ پنجاب کا یہ خطہ تقسیم ہند کے بعد پاکستانی پنجاب کہلایا۔مشرقی پنجاب کی نسبت مغربی پنجاب کا علاقہ زیادہ تر بارانی تھا جہاں مون سون کی بارشیں ناکافی تھیں جس کی وجہ سے یہاں معقول مقدار تک پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا۔
اگرچہ موسم سرما کی بارش سے کبھی کبھار گندم کی فصل اچھی ہو جایاکرتی تھی،مگر چونکہ یہاں کی اکثر زمینیں بارانی اور کچھ چاہی(کنوؤں کے پانی سے سیراب ہونے والی ) تھیں ،اسی لیے آب پاشی کے اس محدودوسیلے سے وسیع تک زرعی رقبوں کی سیرابی مشکل تھی اورپانی کی کمیابی کے باعث وسیع پیمانے پر پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا ۔مغربی پنجاب کا جو حصہ نہری پانی سے سیراب ہوتا تھا وہ ساری نہریں سیلابی تھیں جو ساراسال بہنے کی بجائے زیادہ تر خشک رہتیں اور ان میں پانی اس وقت آتا جب دریاؤں کی سطح طغیانی کے باعث بلند ہو جاتی تھی،لہٰذا ان سیلابی نہروں کے بھروسے پر بھی صرف محدود پیمانے تک کاشتکاری ممکن تھی ۔
مغربی پنجاب کی سیلابی نہری علاقوں کے اردگرد یہاں کا ایگری کلچرل طبقہ ( مقامی کسان) آباد تھا۔چونکہ ان نہروں کے زیعے بالائی سطح تک پانی پہنچانا ممکن نہ تھا اسی لیے مغربی پنجاب کی بالائی سطح خشک و بنجر رہتی اور ان زمینوں پر کھیتی باڑی کی بجائے یہاں کے مقامی خانہ بدوش اُسے چراگاہوں کے طور پر استعمال میں لایا کرتے تھے۔ برطانوی حکومت نے 1885ء میں مغربی پنجاب کے وسیع تر رقبے پر اپنی نظریں مزکور کیں اور اسے آب پاشی کے قابل بنانے کیلئے نہروں کا جال بچھانے کا فیصلہ ہوا ۔برٹش راج کے دوران بننے والی نہریں چونکہ دریاؤں کے بند باندھ کر نکالی گئی تھیں اسی لیے ان میں سارا سال پانی وافر مقدار میں موجود رہتا تھا۔سال بھر بہنے والی ان نہروں سے مغربی پنجاب کے وسیع حصے کو سیراب کرنے کے ساتھ ہی وہاں کینال کالونیز کے نام سے آبادکاری کے قیام کو ممکن بنانے کے ساتھ ہی اس خطے کی اقتصادیات میں نمایاں تبدیلی آئی اور یوں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر بند باندھ کر نکالی گئی نہروں کا جال پنجاب اور سندھ تک پھیل گیا ،جسے دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا آب پاشی کا منصوبہ کہا جاتا ہے۔
مغربی پنجاب میں نہروں کی فراوانی کی وجہ سے رقبے سیراب ہونے لگے مگر ہنرمند افراد کی کمی کے باعث اتنے وسیع و عریض خطے سے زرعی پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا ۔ان علاقوں میں قلیل تعداد میں لوگ آباد تھے اور دوسری طرف سے یہ خطہ لیبر شارٹیج کا شکار تھا۔لہٰذا نئے خطے کو آباد کرنے کیلئے مزدوروں ، کاشتکاروں اور ہنرمند افرد کی قلت تھی۔ مغربی پنجاب میں تین قسم کے لوگ آبا دتھے۔ ایک ز میندار طبقہ ،دوسرا مزدور کاشتکار( مزارعہ ) اور تیسرا چرواہا جن کا کام بھیڑ بکریاں چرانا تھا۔ہنرمندکاشتکار چونکہ قلیل تعداد میں تھے اور وہ پہلے ہی سے جاگیردار طبقے کی زمینوں تک محدو دتھے اس لیے انگریز افسران جاگیرداروں کے مزدوروں کو نئے سیرابی علاقوں میں لے جانے اور ان سے کام لینے میں ہچکچاہٹ محسوص کرتے تھے اور وہ کسی طور بھی جاگیردار طبقے کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے تھے۔اسی لیے نئے آبادکاروں کو بسانے کا فیصلہ ہوا ۔مغربی پنجاب کے علاقے میں نہریں آجانے سے یہاں کے مقامی افراد کی چراگاہیں ختم ہو گئیں اور غیر کاشتکار طبقہ ( چرواہے) تتر بتر ہوگیا۔برطانوی حکومت کے زرعی افسران کے مطابق یہ نیم دیہاتی،بے زمین غیر کاشکار لوگ جنہیں وہ جانگلی کہتے تھے چونکہ کاشتکاری سے لابلدتھے اسی لیے ان کے کسی کام کا نہ تھااور انہیں اس خطے میں نقد زر فراہم کرنے والی فصلوں کی پیداوار کو ممکن بنانے کیلئے ہنر مند کسانوں کی ضرورت تھی۔ مغربی پنجاب کے مقامی (جانگلی) کئی قبیلوں میں منقسم تھے۔ان میں سے جو سب سے اعلیٰ طبقہ تھا اس کے پاس اپنے مال مویشی ،بھیڑ بکریاں،اونٹ وغیرہ تھے۔دراصل کینالز اور کینال کالونیز جن جنگلوں کو صاف کرکے اور دریا کے جن کناروں سے نکالی گئی تھیں وہ سارے علاقے مقامیوں کی ملکیت تھے ،مگر نہریں نکلتے ہی مقامیوں( جانگلیوں) کو اپنے علاقوں سے دھکیل دیا گیااور وہ جبراًاپنی چراگاہوں سے محروم کر دئیے گئے۔اس دھکم پیل اور روزگار سے محرومی کے نتیجے میں مقامی لوگوں نے باقاعدہ احتجاج بھی کیا۔مقامی افراد کے احتجاج سے مجبور ہو کر انگریز حکومت نے انہیں قلیل تعداد میں کینال کالونیز سے کچھ رقبے الاٹ کردیئے مگر اس الاٹمنٹ میں بھی صرف وہی مقامی افراد مستحق قرار پائے جن کے پا س اپنے مال مویشی اورا ونٹ تھے جبکہ بقیہ افراد زمینوں پر محنت مزدوری کرکے زندگی بسر کرنے لگے۔برطانوی حکومت نے اپنے طور پر وہاں کی موجود مقامی آبادی کو محفوظ کرلیا مگر اصولاً اور قانوناً ایسا نہ تھا،بلکہ جہاں جہاں سے نہریں نکلتیں وہاں کی ان زمینوں سے نہ صرف جانگلیوں کو نکال دیا جاتا بلکہ ان کے مالکانہ حقوق ماننے سے بھی انکار کر دیا جاتا اور یہ دلیل پیش کی جاتی کہ نا قابل کاشت زرعی رقبہ ہمیشہ سرکار کی ملکیت تصور ہوتا ہے۔
مغربی پنجاب کے نہری رقبوں میں کینال کالونیز بنتے ہی اسے سرکاری زمین کا درجہ دے دیا گیا جسے انگریز سرکار کسی بھی طریقے اور منشاء سے الاٹ کیے جانے کا حق اپنے پاس رکھنے کی مجاز تھی، اسی طرح جسے یہ زمینیں گرانٹ کی جاتیں وہ کسی کو بھی بیچ سکتا تھا۔اس طرح نہروں کے زریعے سیراب ہونے والی زمینوں میں کینال کالونیز کے زریعے مغربی پنجاب میں کولونائزیشن پالیسی کا اجراء کر دیا گیا۔اس پالیسی کے تحت برطانوی حکومت نے کچھ ہنگامی اور فوری فیصلے کیے۔ کینال کالونیز بنانے سے قبل ہی انگریز نے برٹش پنجاب میں ایگری کلچرل کاسٹس(زرعی ذاتیں ) اور غیر ایگری کلچرل کاسٹس (غیر زرعی ذاتیں) کی درجہ بندی کر دی تھی اور اسی غیر منصفانہ درجہ بندی کے تحت اس نے غیر ایگری کلچرل ذاتوں کو زمین کی تقسیم پر پابندی عائد کردی تھی۔اس کے بعد انگریز حکومت نے ایک ایکٹ بنایا جسے پنجاب ایلی نیشن آف لینڈ ایکٹ کہا جاتا ہے۔اس ایکٹ کے تحت اس نے کینال کالونیز میں غیر ایگری کلچرل ذاتوں پر زمین خریدنے اور ان کو زمین کی الاٹمنٹ پر پابندی عائدکر دی تھی۔پنجاب ایلی نیشن آف لینڈ ایکٹ کے تحت زمینوں کی الاٹمنٹ کو صرف پنجابیوں تک محدود رکھا گیا اور باقی ماندہ صوبوں کے لوگوں کو اس سے محروم کر دیا گیا۔اس کے علاوہ انگریز وں نے مغربی پنجاب میں جو کینال کالونیاں بنائیں اُن میں ان لوگوں کو بسانے کی کوششیں کی گئیں جن کا تعلق آبادی کے دباؤ والے علاقے سے تھا ۔چونکہ مغربی پنجاب کے مقابلے میں مشرقی پنجاب میں آبادی کا دباؤ زیادہ تھا اسی لیے آبادکاری کے دوران ان لوگوں کو مغربی پنجاب میں بسا کر مشرقی پنجاب میں آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔برطانوی حکومت کے اس فیصلے میں سیاسی مفاد بھی پوشیدہ تھا تاکہ مشرقی پنجاب میں اکالی دل اور خلافتی تحریک کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے ۔قیمتی زرعی اراضی کی الاٹمنٹ اور کینال کالونیز میں اقتصادی و سیاسی مقاصد کو کچھ اس انداز میں حاصل کیا گیا کہ جن جن خاندانوں کو زمینوں کی گرانٹس ملیں وہ انگریز سرکار کے ممنون و مشکور اور مزید تابعدار بن گئے۔ اس طرح پنجاب میں جاگیردارانہ نظام کو مزید تقویت ملی ۔برٹش انڈین آرمی کی ریکروٹمنٹ کیلئے بھی وسطی پنجاب(سکھوں کا علاقہ) اور شمال مغربی پنجاب(مسلم اکثریتی علاقہ)بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔تیسری چیز جو کینال کالونیز میں زمینیں گرانٹ کرتے ہوئے مدنظر رکھی گئی وہ ہنرمند و پیشہ ور کاشتکاروں کا تعین تھا۔ ایک مرتبہ پھر برطانوی حکومت نے سوچا کہ ان زمینوں کو آبا دکرنے اور پیداوار حاصل کرنے کیلئے وسطی پنجاب کے اضلاع کا وہ طبقہ جو وہاں کی زمینوں کا پہلے سے مالک ہے زیادہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔اس چیز کو بنیاد بناتے ہوئے زمینوں کی الاٹمنٹ صرف پنجاب کے ان لوگوں تک محدود رکھی گئی جو پہلے سے زمینوں کے نہ صرف مالک تھے بلکہ اس سے مستفید بھی ہو رہے تھے۔اس سفاکانہ قانون کے تحت غیر کاشتکار امیر طبقے پر زمینیں خریدنے پر بھی قطعاً پابندنہ تھی اوروہ سرکاری نیلامی کے زریعے کینال کالونیز کی زمینیں سکتے تھے ۔اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے افراد کو بھی زمینیں الاٹ کی جاتی تھیں ۔اس طریقے سے افسر شاہی کی بنیادیں بھی مضبوط ہوئیں اور جو لوگ انتظامی عہدوں پر فائز تھے وہ زمینوں سے فوائد سمیٹنے لگے۔مختصر یہ کہ ان ایگری کلچرل کالونیز سے پنجاب کا وہی طبقہ مستفید ہوا جو پہلے سے کھاتاپیتا، امیر کبیر اور خوشحال تھا جبکہ غریب کو ایک بار پھر کچل دیاگیا۔
مغربی پنجاب (سرائیکی علاقوں)کی زمینوں کو حاصل کرنے والوں میں وسطی پنجاب کے پنجابیوں کی اکثریت شامل تھی۔جن میں سے ایک خاص اکثریتی تعداد سکھوں پر مشتمل تھی۔ سکھ زمیندار دراصل کئی قسم کی جٹ ذاتوں میں منقسم تھا ۔مغربی پنجاب میں کینال کالونیز کے زریعے سکھوں کی آباد کاری کی ابتداء کر دی گئی (جاری ہے) ۔ Sikh Settlers in Western Punjab during British rule..By. Dr. Imran AliUrdu Translation (Abbas Sial)http://www.newsplus24.com//the-settlement-of-sikhs-/Second part
مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات سِدھانی کالونی: کینال کالونیز کے اولین منصوبوں میں ضلع ملتان کی سِدھانی کالونی سب سے پہلی کالونی تھی، جس میں امرتسرکے بدیچھا ذات کے سکھوں کو 1886 ء میں ملتان میں لا کر بسایا گیا۔جب ملتان کی سدھانی کینال کالونی کا تجربہ کامیاب ہو ا تو مستقبل میں اس قسم کی دیگرکالونیاں بنانے کی طرف توجہ دی گئی ۔سدھانی کالونی میں کم از کم پچاس ایکڑ زمین کسی ایک فردِ واحد کو گرانٹ کی گئی جو رقبے کے لحاظ سے بعدمیں بسائی گئی کسی بھی کینال کالونی سے چار گنا بڑی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سدھانی کالونی کا علاقہ سیلابی نہروں پر مشتمل تھا اور اس علاقے کو سیراب کرنے کیلئے گرانٹ شدگان کو کچھ رقم اپنی جیب سے انوسٹ کرنا پڑتی تھی تاکہ وہاں کنوئیں کھدوا کر کھیتی باڑی کو یقینی بنایاجا سکے ۔چونکہ ان آبادکاروں کا تعلق وسطی پنجاب کے امیر طبقے سے تعلق تھا اسی لیے ان کے لیے سرمایہ کاری کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔سدھانی کالونی کیلئے جو مسلمان کاشتکارتھے ان کا تعلق ملتان،لاہور اور امرتسر سے تھا،جس میں 20فیصدہندو اور سکھ شامل تھے۔سدھانی کالونی کی 57,000 بیگھہ زمین کو تقریباً تیس سو افراد میں تقسیم کیا گیا تھا۔سوہاگ پار کالونی: اگلے مرحلے میں ضلع منٹگمری(ساہیوال) کی سوہاگ پار کالونی تھی،جسے 1886-88کے دوران تیار کیا گیا۔سدھانی کالونی کے مقابلے میں یہ رقبے کے لحاظ سے چھوٹی تھی ،جس کا کل رقبہ 90,000ایکڑ تھا۔یہ کالونی بھی سیلابی اور طغیانی کے زریعے بہنے والی نہروں کی مرہون منت تھی ۔یہاں پر اوسطاً ہر ایک آبادکار کے حصے میں ساٹھ ایکڑ زمین آئی،جسے انہوں نے خود سے قابل کاشت بنایا۔484جٹ سکھوں کو اس کالونی کا38 فیصد حصہ ملا جو تقریباً29,000ایکڑ بنتا ہے۔جس میں ضلع راولپنڈ ی کے 37کھتری سکھ بھی شامل تھے جنہیں 3,500 ایکڑ رقبہ تفویض کیا گیا تھا،جو کل حصے کا 45فیصدبنتا ہے ۔اس طرح ہر ایک آباد کار کی ملکیت میں اوسطاً 95ایکڑ حصہ آیا۔اس میں سب سے بڑی گرانٹ 7,800ایکڑ تھی جو دس فیصد بنتی ہے،جسے سر کھیم سنگھ بیدی کو الاٹ کیا گیا۔کھتری سکھ کھیم سنگھ بیدی کا تعلق راولپنڈ ی سے تھا اور وہ سکھوں کے پیشوا بابا گرونانک کی لڑی میں سے تھا ۔انگریزوں کا خیال تھا کہ مذ ہبی رہنماؤں کو زمینیں الاٹ کرنے سے نہ صرف انہیں سیاسی اثر رسوخ حاصل ہو گا بلکہ 1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران حکومت کی مدد کرنے والے افراد کا بھی حوصلہ بلند ہو گا ۔
مذہبی حوالے سے زمینوں کی ا س طرح کی بند ربانٹ ایگری کلچرل کولونائزیشن کی تاریخ میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے،جس سے نہ صرف سیاسی مقاصد حاصل ہوئے بلکہ پنجاب کے با اثرطبقے کا جھکاؤ نینشل ازم(قوم پرستی) کی بجائے سامرج کی طرف ہوا اور وہ ان کے پہلے سے زیادہ وفادار بن گئے۔چُنیاں کالونی: اگلا پراجیکٹ ضلع لاہور کے جنوب میں واقع چُنیاں کالونی تھا،جو 1896-98اور 1904-06کے دو مرحلوں میں مکمل ہوا ۔یہ منصوبہ ایک لاکھ تین ہزار ایکڑ پر مشتمل تھا۔اس منصوبے میںباری دوآب سے نکلنے والی نہر سب سے نمایاں تھی جس سے مرتسر اور لاہو رکی زمینیں سیراب ہوتی تھیں۔چنیاں کینال کالونی 80فیصد کاشتکار طبقے کو الاٹ کی گئی،جن میںسے زیادہ تر کا تعلق لاہور کے سکھ جاٹوں سے تھا ۔کاشتکاروں کے علاوہ چنیاں کالونی میں کچھ اورقسم کی بھی الاٹمنٹیں ہوئیں ،مثلاً ً 12000ایکڑ رقبے کی سرکاری نیلامی کی گئی۔سرکاری نیلامی سب سے زیادہ موثر اور سرمایہ کاری پرفوری فائدہ حال کرنے کا بہترین اور موثر زریعہ بن کرسامنے آئی ،لیکن اس طریقے کا سب سے بڑ انقصان یہ تھا کہ اس پر صرف امیر طبقہ ہی آگے آ سکتا تھا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت کو سیاسی فوائد حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔اس کے علاوہ 5,000 ایکڑ سول گرانٹس کی مد میں بھی ز مینیں تقسیم کی گئیں جس میں ہر ایک کو کم از کم 50سے 250 ایکڑ حصہ ملا۔سول گرانٹس کی مد میںمستفید ہونے والے انگریز سرکار کے ریٹائرڈ ملازمین تھے،جنہیں انتظامی خدمات کی بنیاد پر الاٹمنٹیں کی گئیں۔
اس کے علاوہ 2,000 ایکڑ رقبہ ہندوستانی فوج میں خدمات سرانجام دینے والے سابق ریٹائرڈ فوجیوں کو پنشن کی مد میں دیا گیا ۔سابق فوجیوں کا حصہ بعد میں بننے والی کینال کالونیوں میں بڑھا دیا گیا۔رچنا دوآب کالونی: اگلا منصوبہ رچنا دوآب(دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان کا علاقہ ) پر چناب کالونی تھی جو پنجاب کی کولونائزیشن کی تاریخ میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔یہ کینال کالونیز کی سب سے بڑی کالونی تھی جس کا رقبہ د وملین (2,000,000 ) ایکڑ تھا اور جسے 1892اور1905کے عرصے میں کولونائزڈ کیا گیا،جبکہ بعدمیں 1910 اور1930میں مزید توسیع بھی کی گئی۔یہ کالونی اُس وقت کے ضلع لائل پور( فیصل آباد) پر مشتمل تھی،جو جھنگ،گوجرانوالہ اور لاہور کے اضلاع کے علاوہ کئی دیگر علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔چناب کینال تین شاخوں( راکھ،جھنگ اور گوگیرہ) پر مشتمل تھی ،جو ترتیب وار کولونائیز ڈ کی گئیں،بعد میں پرانا صدر مقام گوگیرہ کوبدل کر کینال کالونیز کا نیا ہیڈ کوارٹر لائل پور بنایا گیا۔لائل پور نہ صرف ایک اہم تجارتی منڈ ی بنا بلکہ کینال کالونیز کے علاقوں میں ریجنل منڈیاں بنا کر انہیں مرکزی منڈی (لائل پور)سے جوڑ دیا گیا ، دیکھتے ہی دیکھتے لائل پور نے جھنگ اورچینیوٹ کو پیچھے چھوڑ دیا۔رچنا دوآب میںمقامی افراد(جانگلیوں)کے مالکانہ حقوق کو غصب کرکے انہیں نہ صرف وہاں سے دھکیل دیا جا چکا بلکہ سارے علاقے کو سرکاری زمین کا درجہ دے کر انگریز سرکار نے اس کالونی میں اپنی مرضی و منشاء سے تقسیم کی۔اس بنیادی گرانٹ میں درج ذیل تقسیم کی گئی۔
آبادکار کیلئے(40-45ایکڑ)،سفید پوش کیلئے(50-150ایکڑ) اور سرمایہ دار رئیس کیلئے(150-600ایکڑ) رقبہ مختص ہوا۔کاشتکار کو اس میں سے 80فیصد ملا جبکہ سفید پوش اور سرمایہ دار طبقے کو پانچ سال کے بعد مالکانہ حقوق بھی مل گئے۔اس کالونی میںکسانوں کو پہلے پہل صرف قبضہ دیا گیا جس کے مالکانہ حقوق انگریز سرکار کے پا س ر ہے۔مالک اور کرایہ دار کے درمیان اس طرز کا زرعی معاہد ہ شہری قواعد و ضوابط کی طرز پر مبنی تھا اور باضابطہ وراثت کی طرح آبادی کی دیکھ بھال،زمینوں کی حد بندی اور پانی کی فراہمی سرکار کے مکمل کنٹرول میں تھی ۔آبادکاروں کیلئے یہ شرائط و ضوابط غیرقانونی اور بلا جواز تھیں اور یہ سب ظلم ونا انصافی پر مبنی تھا ۔اس قانون کو کاشتکار آبادکاروں پر لاگو کرنے میں مقامی بیوروکریسی بھی ملوث تھی۔رچنا کینال کالونیز کے دیہاتوں میں چند سالوں کے بعد ہی آبادکاروں کی طرف سے مالکانہ حقوق کیلئے سیاسی تحریک چلائی گئی،جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کرایہ دارانہ قانون کو ہٹا کر آبادکاروں کو مکمل مالکانہ حقوق دیئے جائیں۔ انگریزسرکار آبادکاروں سے لا تعلقی اختیار نہیں کرسکتی تھی چنانچہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیاگیا جس نے آبادکاروں کے مطالبات تسلیم کر تے ہوئے کولونائزیشن آف لینڈ ایکٹ1912 ء میں چند ضروری ترامیم کرنے کے بعد آبادکاروں کو مالکانہ حقوق تفویض کر دئیے ۔لوئر رچنا کالونی: لوئر رچنا کالونی میں پنجابی آبادکاروں کو رچنا دوآب کے مقامیوں کے مقابلے میں ایک تہائی کی بجائے د وتہائی یعنی دگنی اراضی تفویض ہوئی۔مشرقی اور وسطی پنجاب سے لائے گئے یہ آبادکار انگریزی حکومت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند تھے، جن میں سے بیشتر کا تعلق لینڈ ہولڈرذ اور ہنرمند افراد سے تھا۔چ
ونکہ وسطی پنجاب میں پہلے ہی آبادی کا بے ہنگم دباؤ تھا،اسی لیے آبادکاروں کو یہاں آکر معاشی اور اقتصادی سکون میسر آیا ۔لوئر رچنا کینال کالونی کے آباد کاروں کے تعین کیلئے برطانوی حکومت نے وسطی پنجاب کے سات اضلاع کا انتخاب کیا،جس میں انبالہ،امرتسر،گورداسپور،ہوشیارپور،جالندھر اور سیالکوٹ شامل تھے۔ان سات اضلاع میں سے زیادہ تر کا تعلق امرتسر سے تھا،جنہیں اڑھائی لاکھ ایکڑ اراضی گرانٹ کی گئی،جبکہ انبالہ کے سکھوں کو ایک لاکھ ایکڑ اراضی دی گئی۔اس میں وسطی پنجاب کے کئی ا ور بھی اضلاع شامل تھے جہاں کے آبادکاروں کو تھوڑی بہت اراضی ملی،لیکن 80فیصد اراضی ان سات اضلاع کے آبادکاروں میں تقسیم کی گئی،جو ساری کی ساری سکھ آبادی پر مشتمل تھے ۔معاشی اور سماجی برتری قائم رکھنے کی خاطر برطانوی حکومت نے پہلے ہی ایگری کلچرل ذاتوں میں زمین کی تقسیم کو ممکن بنایا تھا۔امیر غیر ایگری کلچرل اگرچہ بولی میں سرکاری زمین خرید سکتا تھا مگر غریب غیر ایگری کلچرل پرمکمل پابندی عائد تھی۔تقریباً675,000ایکڑ رقبہ جٹ آبادکاروں میں تقسیم ہوا جس میں 230,000ایکڑمسلم جبکہ باقی کا رقبہ ہندوؤں اور سکھوں میں تقسیم ہوا۔غیر مسلم آباد کاروں میں سب سے نمایاں کمبوہ،سیانی او رراجپوت ذات کے سکھ وہندو شامل تھے۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وسطی پنجاب سے سکھوں کی ایک بہت ہی معقول تعداد کو بطور آباد کار رچنا دوآب میں لا کر بسایا گیا تھا۔مغربی پنجاب کے علاقوں میں کینال کالونیاںبننے کے دس سالوں کے اندر ہر ایک ضلع میں آبادی کا تناسب ستر فیصد بڑھا جب کہ باقی ماندہ برٹش پنجاب میں آبادی میں سات فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔انگریزوں کی آبادکاری پالیسی کے تحت نئے اور قیمتی اقتصادی وسائل تک رسائی کیلئے دیہی سوسائٹی کابالائی طبقہ مضبوط تر جبکہ غریب بے زمین ہاری معاشی طور پر کمزور کر دیا گیا۔
ان سفاک طریقوں سے زمین کی منتقلی کا مقصد برطانوی سامراج کا خطے میں پہلے سے موجود غالب قوتوں کو مزید مضبوط کرنا تھا۔اس کے علاوہ وسطی پنجاب میں جن جن ذاتوں کو گرانٹس دی گئی تھی وہ سب ہندوستانی فوج میں بھی اپنے کام سرانجام دے رہے تھے۔فوجی وابستگی کے باعث نو آبادیاتی نظام میں بھی ان افراد کا اثر رسوخ قائم ہو گیااور یہ ذاتیں برٹش آرمی میں ریڑھ کی ہڈی بن گئیں ۔لوئر چناپ کالونی میں 15,000ایکڑ کوٹہ سابق فوجیوں کیلئے مختص تھا مگر گوگیرہ برانچ میں اسے بڑھا کر 70,000ایکڑ کر دیا گیا،اس طرح بعدمیں بننے والی کینال کالونیز میں فوجیوں کا حصہ بتدریج بڑھتا چلا گیا۔لوئر چناب کے تین دیہاتوں میں 23rd،22ndاور34thرجمنٹ کو زمینیں ملیں۔یہ سب وصول کنندگان ایگری کلچرل ذاتوں سے نہ تھے بلکہ سخت گیر مذہی سکھ تھے جنہوں نے اپنی رجمنٹوں میں خدمات سر انجام دی تھیں۔1911 میں لائل پور اور گوجرنوالہ کے مذہبی آبادکاروں کو ایگری کلچرل ذات کی حیثیت دے دی گئی ۔
The Sikh Settlers in Western Punjab during British rule..By. Dr. Imran AliUrdu Translation (Abbas Sial) http://www.newsplus24.com//برطان/
اگرچہ موسم سرما کی بارش سے کبھی کبھار گندم کی فصل اچھی ہو جایاکرتی تھی،مگر چونکہ یہاں کی اکثر زمینیں بارانی اور کچھ چاہی(کنوؤں کے پانی سے سیراب ہونے والی ) تھیں ،اسی لیے آب پاشی کے اس محدودوسیلے سے وسیع تک زرعی رقبوں کی سیرابی مشکل تھی اورپانی کی کمیابی کے باعث وسیع پیمانے پر پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا ۔مغربی پنجاب کا جو حصہ نہری پانی سے سیراب ہوتا تھا وہ ساری نہریں سیلابی تھیں جو ساراسال بہنے کی بجائے زیادہ تر خشک رہتیں اور ان میں پانی اس وقت آتا جب دریاؤں کی سطح طغیانی کے باعث بلند ہو جاتی تھی،لہٰذا ان سیلابی نہروں کے بھروسے پر بھی صرف محدود پیمانے تک کاشتکاری ممکن تھی ۔
مغربی پنجاب کی سیلابی نہری علاقوں کے اردگرد یہاں کا ایگری کلچرل طبقہ ( مقامی کسان) آباد تھا۔چونکہ ان نہروں کے زیعے بالائی سطح تک پانی پہنچانا ممکن نہ تھا اسی لیے مغربی پنجاب کی بالائی سطح خشک و بنجر رہتی اور ان زمینوں پر کھیتی باڑی کی بجائے یہاں کے مقامی خانہ بدوش اُسے چراگاہوں کے طور پر استعمال میں لایا کرتے تھے۔ برطانوی حکومت نے 1885ء میں مغربی پنجاب کے وسیع تر رقبے پر اپنی نظریں مزکور کیں اور اسے آب پاشی کے قابل بنانے کیلئے نہروں کا جال بچھانے کا فیصلہ ہوا ۔برٹش راج کے دوران بننے والی نہریں چونکہ دریاؤں کے بند باندھ کر نکالی گئی تھیں اسی لیے ان میں سارا سال پانی وافر مقدار میں موجود رہتا تھا۔سال بھر بہنے والی ان نہروں سے مغربی پنجاب کے وسیع حصے کو سیراب کرنے کے ساتھ ہی وہاں کینال کالونیز کے نام سے آبادکاری کے قیام کو ممکن بنانے کے ساتھ ہی اس خطے کی اقتصادیات میں نمایاں تبدیلی آئی اور یوں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر بند باندھ کر نکالی گئی نہروں کا جال پنجاب اور سندھ تک پھیل گیا ،جسے دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا آب پاشی کا منصوبہ کہا جاتا ہے۔
مغربی پنجاب میں نہروں کی فراوانی کی وجہ سے رقبے سیراب ہونے لگے مگر ہنرمند افراد کی کمی کے باعث اتنے وسیع و عریض خطے سے زرعی پیداوار کا حصول ممکن نہ تھا ۔ان علاقوں میں قلیل تعداد میں لوگ آباد تھے اور دوسری طرف سے یہ خطہ لیبر شارٹیج کا شکار تھا۔لہٰذا نئے خطے کو آباد کرنے کیلئے مزدوروں ، کاشتکاروں اور ہنرمند افرد کی قلت تھی۔ مغربی پنجاب میں تین قسم کے لوگ آبا دتھے۔ ایک ز میندار طبقہ ،دوسرا مزدور کاشتکار( مزارعہ ) اور تیسرا چرواہا جن کا کام بھیڑ بکریاں چرانا تھا۔ہنرمندکاشتکار چونکہ قلیل تعداد میں تھے اور وہ پہلے ہی سے جاگیردار طبقے کی زمینوں تک محدو دتھے اس لیے انگریز افسران جاگیرداروں کے مزدوروں کو نئے سیرابی علاقوں میں لے جانے اور ان سے کام لینے میں ہچکچاہٹ محسوص کرتے تھے اور وہ کسی طور بھی جاگیردار طبقے کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے تھے۔اسی لیے نئے آبادکاروں کو بسانے کا فیصلہ ہوا ۔مغربی پنجاب کے علاقے میں نہریں آجانے سے یہاں کے مقامی افراد کی چراگاہیں ختم ہو گئیں اور غیر کاشتکار طبقہ ( چرواہے) تتر بتر ہوگیا۔برطانوی حکومت کے زرعی افسران کے مطابق یہ نیم دیہاتی،بے زمین غیر کاشکار لوگ جنہیں وہ جانگلی کہتے تھے چونکہ کاشتکاری سے لابلدتھے اسی لیے ان کے کسی کام کا نہ تھااور انہیں اس خطے میں نقد زر فراہم کرنے والی فصلوں کی پیداوار کو ممکن بنانے کیلئے ہنر مند کسانوں کی ضرورت تھی۔ مغربی پنجاب کے مقامی (جانگلی) کئی قبیلوں میں منقسم تھے۔ان میں سے جو سب سے اعلیٰ طبقہ تھا اس کے پاس اپنے مال مویشی ،بھیڑ بکریاں،اونٹ وغیرہ تھے۔دراصل کینالز اور کینال کالونیز جن جنگلوں کو صاف کرکے اور دریا کے جن کناروں سے نکالی گئی تھیں وہ سارے علاقے مقامیوں کی ملکیت تھے ،مگر نہریں نکلتے ہی مقامیوں( جانگلیوں) کو اپنے علاقوں سے دھکیل دیا گیااور وہ جبراًاپنی چراگاہوں سے محروم کر دئیے گئے۔اس دھکم پیل اور روزگار سے محرومی کے نتیجے میں مقامی لوگوں نے باقاعدہ احتجاج بھی کیا۔مقامی افراد کے احتجاج سے مجبور ہو کر انگریز حکومت نے انہیں قلیل تعداد میں کینال کالونیز سے کچھ رقبے الاٹ کردیئے مگر اس الاٹمنٹ میں بھی صرف وہی مقامی افراد مستحق قرار پائے جن کے پا س اپنے مال مویشی اورا ونٹ تھے جبکہ بقیہ افراد زمینوں پر محنت مزدوری کرکے زندگی بسر کرنے لگے۔برطانوی حکومت نے اپنے طور پر وہاں کی موجود مقامی آبادی کو محفوظ کرلیا مگر اصولاً اور قانوناً ایسا نہ تھا،بلکہ جہاں جہاں سے نہریں نکلتیں وہاں کی ان زمینوں سے نہ صرف جانگلیوں کو نکال دیا جاتا بلکہ ان کے مالکانہ حقوق ماننے سے بھی انکار کر دیا جاتا اور یہ دلیل پیش کی جاتی کہ نا قابل کاشت زرعی رقبہ ہمیشہ سرکار کی ملکیت تصور ہوتا ہے۔
مغربی پنجاب کے نہری رقبوں میں کینال کالونیز بنتے ہی اسے سرکاری زمین کا درجہ دے دیا گیا جسے انگریز سرکار کسی بھی طریقے اور منشاء سے الاٹ کیے جانے کا حق اپنے پاس رکھنے کی مجاز تھی، اسی طرح جسے یہ زمینیں گرانٹ کی جاتیں وہ کسی کو بھی بیچ سکتا تھا۔اس طرح نہروں کے زریعے سیراب ہونے والی زمینوں میں کینال کالونیز کے زریعے مغربی پنجاب میں کولونائزیشن پالیسی کا اجراء کر دیا گیا۔اس پالیسی کے تحت برطانوی حکومت نے کچھ ہنگامی اور فوری فیصلے کیے۔ کینال کالونیز بنانے سے قبل ہی انگریز نے برٹش پنجاب میں ایگری کلچرل کاسٹس(زرعی ذاتیں ) اور غیر ایگری کلچرل کاسٹس (غیر زرعی ذاتیں) کی درجہ بندی کر دی تھی اور اسی غیر منصفانہ درجہ بندی کے تحت اس نے غیر ایگری کلچرل ذاتوں کو زمین کی تقسیم پر پابندی عائد کردی تھی۔اس کے بعد انگریز حکومت نے ایک ایکٹ بنایا جسے پنجاب ایلی نیشن آف لینڈ ایکٹ کہا جاتا ہے۔اس ایکٹ کے تحت اس نے کینال کالونیز میں غیر ایگری کلچرل ذاتوں پر زمین خریدنے اور ان کو زمین کی الاٹمنٹ پر پابندی عائدکر دی تھی۔پنجاب ایلی نیشن آف لینڈ ایکٹ کے تحت زمینوں کی الاٹمنٹ کو صرف پنجابیوں تک محدود رکھا گیا اور باقی ماندہ صوبوں کے لوگوں کو اس سے محروم کر دیا گیا۔اس کے علاوہ انگریز وں نے مغربی پنجاب میں جو کینال کالونیاں بنائیں اُن میں ان لوگوں کو بسانے کی کوششیں کی گئیں جن کا تعلق آبادی کے دباؤ والے علاقے سے تھا ۔چونکہ مغربی پنجاب کے مقابلے میں مشرقی پنجاب میں آبادی کا دباؤ زیادہ تھا اسی لیے آبادکاری کے دوران ان لوگوں کو مغربی پنجاب میں بسا کر مشرقی پنجاب میں آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔برطانوی حکومت کے اس فیصلے میں سیاسی مفاد بھی پوشیدہ تھا تاکہ مشرقی پنجاب میں اکالی دل اور خلافتی تحریک کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے ۔قیمتی زرعی اراضی کی الاٹمنٹ اور کینال کالونیز میں اقتصادی و سیاسی مقاصد کو کچھ اس انداز میں حاصل کیا گیا کہ جن جن خاندانوں کو زمینوں کی گرانٹس ملیں وہ انگریز سرکار کے ممنون و مشکور اور مزید تابعدار بن گئے۔ اس طرح پنجاب میں جاگیردارانہ نظام کو مزید تقویت ملی ۔برٹش انڈین آرمی کی ریکروٹمنٹ کیلئے بھی وسطی پنجاب(سکھوں کا علاقہ) اور شمال مغربی پنجاب(مسلم اکثریتی علاقہ)بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔تیسری چیز جو کینال کالونیز میں زمینیں گرانٹ کرتے ہوئے مدنظر رکھی گئی وہ ہنرمند و پیشہ ور کاشتکاروں کا تعین تھا۔ ایک مرتبہ پھر برطانوی حکومت نے سوچا کہ ان زمینوں کو آبا دکرنے اور پیداوار حاصل کرنے کیلئے وسطی پنجاب کے اضلاع کا وہ طبقہ جو وہاں کی زمینوں کا پہلے سے مالک ہے زیادہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔اس چیز کو بنیاد بناتے ہوئے زمینوں کی الاٹمنٹ صرف پنجاب کے ان لوگوں تک محدود رکھی گئی جو پہلے سے زمینوں کے نہ صرف مالک تھے بلکہ اس سے مستفید بھی ہو رہے تھے۔اس سفاکانہ قانون کے تحت غیر کاشتکار امیر طبقے پر زمینیں خریدنے پر بھی قطعاً پابندنہ تھی اوروہ سرکاری نیلامی کے زریعے کینال کالونیز کی زمینیں سکتے تھے ۔اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے افراد کو بھی زمینیں الاٹ کی جاتی تھیں ۔اس طریقے سے افسر شاہی کی بنیادیں بھی مضبوط ہوئیں اور جو لوگ انتظامی عہدوں پر فائز تھے وہ زمینوں سے فوائد سمیٹنے لگے۔مختصر یہ کہ ان ایگری کلچرل کالونیز سے پنجاب کا وہی طبقہ مستفید ہوا جو پہلے سے کھاتاپیتا، امیر کبیر اور خوشحال تھا جبکہ غریب کو ایک بار پھر کچل دیاگیا۔
مغربی پنجاب (سرائیکی علاقوں)کی زمینوں کو حاصل کرنے والوں میں وسطی پنجاب کے پنجابیوں کی اکثریت شامل تھی۔جن میں سے ایک خاص اکثریتی تعداد سکھوں پر مشتمل تھی۔ سکھ زمیندار دراصل کئی قسم کی جٹ ذاتوں میں منقسم تھا ۔مغربی پنجاب میں کینال کالونیز کے زریعے سکھوں کی آباد کاری کی ابتداء کر دی گئی (جاری ہے) ۔ Sikh Settlers in Western Punjab during British rule..By. Dr. Imran AliUrdu Translation (Abbas Sial)http://www.newsplus24.com//the-settlement-of-sikhs-/Second part
مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات سِدھانی کالونی: کینال کالونیز کے اولین منصوبوں میں ضلع ملتان کی سِدھانی کالونی سب سے پہلی کالونی تھی، جس میں امرتسرکے بدیچھا ذات کے سکھوں کو 1886 ء میں ملتان میں لا کر بسایا گیا۔جب ملتان کی سدھانی کینال کالونی کا تجربہ کامیاب ہو ا تو مستقبل میں اس قسم کی دیگرکالونیاں بنانے کی طرف توجہ دی گئی ۔سدھانی کالونی میں کم از کم پچاس ایکڑ زمین کسی ایک فردِ واحد کو گرانٹ کی گئی جو رقبے کے لحاظ سے بعدمیں بسائی گئی کسی بھی کینال کالونی سے چار گنا بڑی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سدھانی کالونی کا علاقہ سیلابی نہروں پر مشتمل تھا اور اس علاقے کو سیراب کرنے کیلئے گرانٹ شدگان کو کچھ رقم اپنی جیب سے انوسٹ کرنا پڑتی تھی تاکہ وہاں کنوئیں کھدوا کر کھیتی باڑی کو یقینی بنایاجا سکے ۔چونکہ ان آبادکاروں کا تعلق وسطی پنجاب کے امیر طبقے سے تعلق تھا اسی لیے ان کے لیے سرمایہ کاری کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔سدھانی کالونی کیلئے جو مسلمان کاشتکارتھے ان کا تعلق ملتان،لاہور اور امرتسر سے تھا،جس میں 20فیصدہندو اور سکھ شامل تھے۔سدھانی کالونی کی 57,000 بیگھہ زمین کو تقریباً تیس سو افراد میں تقسیم کیا گیا تھا۔سوہاگ پار کالونی: اگلے مرحلے میں ضلع منٹگمری(ساہیوال) کی سوہاگ پار کالونی تھی،جسے 1886-88کے دوران تیار کیا گیا۔سدھانی کالونی کے مقابلے میں یہ رقبے کے لحاظ سے چھوٹی تھی ،جس کا کل رقبہ 90,000ایکڑ تھا۔یہ کالونی بھی سیلابی اور طغیانی کے زریعے بہنے والی نہروں کی مرہون منت تھی ۔یہاں پر اوسطاً ہر ایک آبادکار کے حصے میں ساٹھ ایکڑ زمین آئی،جسے انہوں نے خود سے قابل کاشت بنایا۔484جٹ سکھوں کو اس کالونی کا38 فیصد حصہ ملا جو تقریباً29,000ایکڑ بنتا ہے۔جس میں ضلع راولپنڈ ی کے 37کھتری سکھ بھی شامل تھے جنہیں 3,500 ایکڑ رقبہ تفویض کیا گیا تھا،جو کل حصے کا 45فیصدبنتا ہے ۔اس طرح ہر ایک آباد کار کی ملکیت میں اوسطاً 95ایکڑ حصہ آیا۔اس میں سب سے بڑی گرانٹ 7,800ایکڑ تھی جو دس فیصد بنتی ہے،جسے سر کھیم سنگھ بیدی کو الاٹ کیا گیا۔کھتری سکھ کھیم سنگھ بیدی کا تعلق راولپنڈ ی سے تھا اور وہ سکھوں کے پیشوا بابا گرونانک کی لڑی میں سے تھا ۔انگریزوں کا خیال تھا کہ مذ ہبی رہنماؤں کو زمینیں الاٹ کرنے سے نہ صرف انہیں سیاسی اثر رسوخ حاصل ہو گا بلکہ 1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران حکومت کی مدد کرنے والے افراد کا بھی حوصلہ بلند ہو گا ۔
مذہبی حوالے سے زمینوں کی ا س طرح کی بند ربانٹ ایگری کلچرل کولونائزیشن کی تاریخ میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے،جس سے نہ صرف سیاسی مقاصد حاصل ہوئے بلکہ پنجاب کے با اثرطبقے کا جھکاؤ نینشل ازم(قوم پرستی) کی بجائے سامرج کی طرف ہوا اور وہ ان کے پہلے سے زیادہ وفادار بن گئے۔چُنیاں کالونی: اگلا پراجیکٹ ضلع لاہور کے جنوب میں واقع چُنیاں کالونی تھا،جو 1896-98اور 1904-06کے دو مرحلوں میں مکمل ہوا ۔یہ منصوبہ ایک لاکھ تین ہزار ایکڑ پر مشتمل تھا۔اس منصوبے میںباری دوآب سے نکلنے والی نہر سب سے نمایاں تھی جس سے مرتسر اور لاہو رکی زمینیں سیراب ہوتی تھیں۔چنیاں کینال کالونی 80فیصد کاشتکار طبقے کو الاٹ کی گئی،جن میںسے زیادہ تر کا تعلق لاہور کے سکھ جاٹوں سے تھا ۔کاشتکاروں کے علاوہ چنیاں کالونی میں کچھ اورقسم کی بھی الاٹمنٹیں ہوئیں ،مثلاً ً 12000ایکڑ رقبے کی سرکاری نیلامی کی گئی۔سرکاری نیلامی سب سے زیادہ موثر اور سرمایہ کاری پرفوری فائدہ حال کرنے کا بہترین اور موثر زریعہ بن کرسامنے آئی ،لیکن اس طریقے کا سب سے بڑ انقصان یہ تھا کہ اس پر صرف امیر طبقہ ہی آگے آ سکتا تھا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت کو سیاسی فوائد حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔اس کے علاوہ 5,000 ایکڑ سول گرانٹس کی مد میں بھی ز مینیں تقسیم کی گئیں جس میں ہر ایک کو کم از کم 50سے 250 ایکڑ حصہ ملا۔سول گرانٹس کی مد میںمستفید ہونے والے انگریز سرکار کے ریٹائرڈ ملازمین تھے،جنہیں انتظامی خدمات کی بنیاد پر الاٹمنٹیں کی گئیں۔
اس کے علاوہ 2,000 ایکڑ رقبہ ہندوستانی فوج میں خدمات سرانجام دینے والے سابق ریٹائرڈ فوجیوں کو پنشن کی مد میں دیا گیا ۔سابق فوجیوں کا حصہ بعد میں بننے والی کینال کالونیوں میں بڑھا دیا گیا۔رچنا دوآب کالونی: اگلا منصوبہ رچنا دوآب(دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان کا علاقہ ) پر چناب کالونی تھی جو پنجاب کی کولونائزیشن کی تاریخ میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔یہ کینال کالونیز کی سب سے بڑی کالونی تھی جس کا رقبہ د وملین (2,000,000 ) ایکڑ تھا اور جسے 1892اور1905کے عرصے میں کولونائزڈ کیا گیا،جبکہ بعدمیں 1910 اور1930میں مزید توسیع بھی کی گئی۔یہ کالونی اُس وقت کے ضلع لائل پور( فیصل آباد) پر مشتمل تھی،جو جھنگ،گوجرانوالہ اور لاہور کے اضلاع کے علاوہ کئی دیگر علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔چناب کینال تین شاخوں( راکھ،جھنگ اور گوگیرہ) پر مشتمل تھی ،جو ترتیب وار کولونائیز ڈ کی گئیں،بعد میں پرانا صدر مقام گوگیرہ کوبدل کر کینال کالونیز کا نیا ہیڈ کوارٹر لائل پور بنایا گیا۔لائل پور نہ صرف ایک اہم تجارتی منڈ ی بنا بلکہ کینال کالونیز کے علاقوں میں ریجنل منڈیاں بنا کر انہیں مرکزی منڈی (لائل پور)سے جوڑ دیا گیا ، دیکھتے ہی دیکھتے لائل پور نے جھنگ اورچینیوٹ کو پیچھے چھوڑ دیا۔رچنا دوآب میںمقامی افراد(جانگلیوں)کے مالکانہ حقوق کو غصب کرکے انہیں نہ صرف وہاں سے دھکیل دیا جا چکا بلکہ سارے علاقے کو سرکاری زمین کا درجہ دے کر انگریز سرکار نے اس کالونی میں اپنی مرضی و منشاء سے تقسیم کی۔اس بنیادی گرانٹ میں درج ذیل تقسیم کی گئی۔
آبادکار کیلئے(40-45ایکڑ)،سفید پوش کیلئے(50-150ایکڑ) اور سرمایہ دار رئیس کیلئے(150-600ایکڑ) رقبہ مختص ہوا۔کاشتکار کو اس میں سے 80فیصد ملا جبکہ سفید پوش اور سرمایہ دار طبقے کو پانچ سال کے بعد مالکانہ حقوق بھی مل گئے۔اس کالونی میںکسانوں کو پہلے پہل صرف قبضہ دیا گیا جس کے مالکانہ حقوق انگریز سرکار کے پا س ر ہے۔مالک اور کرایہ دار کے درمیان اس طرز کا زرعی معاہد ہ شہری قواعد و ضوابط کی طرز پر مبنی تھا اور باضابطہ وراثت کی طرح آبادی کی دیکھ بھال،زمینوں کی حد بندی اور پانی کی فراہمی سرکار کے مکمل کنٹرول میں تھی ۔آبادکاروں کیلئے یہ شرائط و ضوابط غیرقانونی اور بلا جواز تھیں اور یہ سب ظلم ونا انصافی پر مبنی تھا ۔اس قانون کو کاشتکار آبادکاروں پر لاگو کرنے میں مقامی بیوروکریسی بھی ملوث تھی۔رچنا کینال کالونیز کے دیہاتوں میں چند سالوں کے بعد ہی آبادکاروں کی طرف سے مالکانہ حقوق کیلئے سیاسی تحریک چلائی گئی،جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کرایہ دارانہ قانون کو ہٹا کر آبادکاروں کو مکمل مالکانہ حقوق دیئے جائیں۔ انگریزسرکار آبادکاروں سے لا تعلقی اختیار نہیں کرسکتی تھی چنانچہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیاگیا جس نے آبادکاروں کے مطالبات تسلیم کر تے ہوئے کولونائزیشن آف لینڈ ایکٹ1912 ء میں چند ضروری ترامیم کرنے کے بعد آبادکاروں کو مالکانہ حقوق تفویض کر دئیے ۔لوئر رچنا کالونی: لوئر رچنا کالونی میں پنجابی آبادکاروں کو رچنا دوآب کے مقامیوں کے مقابلے میں ایک تہائی کی بجائے د وتہائی یعنی دگنی اراضی تفویض ہوئی۔مشرقی اور وسطی پنجاب سے لائے گئے یہ آبادکار انگریزی حکومت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند تھے، جن میں سے بیشتر کا تعلق لینڈ ہولڈرذ اور ہنرمند افراد سے تھا۔چ
ونکہ وسطی پنجاب میں پہلے ہی آبادی کا بے ہنگم دباؤ تھا،اسی لیے آبادکاروں کو یہاں آکر معاشی اور اقتصادی سکون میسر آیا ۔لوئر رچنا کینال کالونی کے آباد کاروں کے تعین کیلئے برطانوی حکومت نے وسطی پنجاب کے سات اضلاع کا انتخاب کیا،جس میں انبالہ،امرتسر،گورداسپور،ہوشیارپور،جالندھر اور سیالکوٹ شامل تھے۔ان سات اضلاع میں سے زیادہ تر کا تعلق امرتسر سے تھا،جنہیں اڑھائی لاکھ ایکڑ اراضی گرانٹ کی گئی،جبکہ انبالہ کے سکھوں کو ایک لاکھ ایکڑ اراضی دی گئی۔اس میں وسطی پنجاب کے کئی ا ور بھی اضلاع شامل تھے جہاں کے آبادکاروں کو تھوڑی بہت اراضی ملی،لیکن 80فیصد اراضی ان سات اضلاع کے آبادکاروں میں تقسیم کی گئی،جو ساری کی ساری سکھ آبادی پر مشتمل تھے ۔معاشی اور سماجی برتری قائم رکھنے کی خاطر برطانوی حکومت نے پہلے ہی ایگری کلچرل ذاتوں میں زمین کی تقسیم کو ممکن بنایا تھا۔امیر غیر ایگری کلچرل اگرچہ بولی میں سرکاری زمین خرید سکتا تھا مگر غریب غیر ایگری کلچرل پرمکمل پابندی عائد تھی۔تقریباً675,000ایکڑ رقبہ جٹ آبادکاروں میں تقسیم ہوا جس میں 230,000ایکڑمسلم جبکہ باقی کا رقبہ ہندوؤں اور سکھوں میں تقسیم ہوا۔غیر مسلم آباد کاروں میں سب سے نمایاں کمبوہ،سیانی او رراجپوت ذات کے سکھ وہندو شامل تھے۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وسطی پنجاب سے سکھوں کی ایک بہت ہی معقول تعداد کو بطور آباد کار رچنا دوآب میں لا کر بسایا گیا تھا۔مغربی پنجاب کے علاقوں میں کینال کالونیاںبننے کے دس سالوں کے اندر ہر ایک ضلع میں آبادی کا تناسب ستر فیصد بڑھا جب کہ باقی ماندہ برٹش پنجاب میں آبادی میں سات فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔انگریزوں کی آبادکاری پالیسی کے تحت نئے اور قیمتی اقتصادی وسائل تک رسائی کیلئے دیہی سوسائٹی کابالائی طبقہ مضبوط تر جبکہ غریب بے زمین ہاری معاشی طور پر کمزور کر دیا گیا۔
ان سفاک طریقوں سے زمین کی منتقلی کا مقصد برطانوی سامراج کا خطے میں پہلے سے موجود غالب قوتوں کو مزید مضبوط کرنا تھا۔اس کے علاوہ وسطی پنجاب میں جن جن ذاتوں کو گرانٹس دی گئی تھی وہ سب ہندوستانی فوج میں بھی اپنے کام سرانجام دے رہے تھے۔فوجی وابستگی کے باعث نو آبادیاتی نظام میں بھی ان افراد کا اثر رسوخ قائم ہو گیااور یہ ذاتیں برٹش آرمی میں ریڑھ کی ہڈی بن گئیں ۔لوئر چناپ کالونی میں 15,000ایکڑ کوٹہ سابق فوجیوں کیلئے مختص تھا مگر گوگیرہ برانچ میں اسے بڑھا کر 70,000ایکڑ کر دیا گیا،اس طرح بعدمیں بننے والی کینال کالونیز میں فوجیوں کا حصہ بتدریج بڑھتا چلا گیا۔لوئر چناب کے تین دیہاتوں میں 23rd،22ndاور34thرجمنٹ کو زمینیں ملیں۔یہ سب وصول کنندگان ایگری کلچرل ذاتوں سے نہ تھے بلکہ سخت گیر مذہی سکھ تھے جنہوں نے اپنی رجمنٹوں میں خدمات سر انجام دی تھیں۔1911 میں لائل پور اور گوجرنوالہ کے مذہبی آبادکاروں کو ایگری کلچرل ذات کی حیثیت دے دی گئی ۔
The Sikh Settlers in Western Punjab during British rule..By. Dr. Imran AliUrdu Translation (Abbas Sial) http://www.newsplus24.com//برطان/
Last edited by a moderator: