
پی ٹی ایم ، سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات دینا ضروری ہیں کیونکہ فیفتھ جنراشن وار کا پروپیگنڈہ بہت مضبوط ہے اور عام لوگ اس کا شکار ہونے لگے ہیں
پہلا سوال : یہ کیا وجہ ہے کہ پی ٹی ایم کو اتنی شدت سے سوشل میڈیا پر نواز لیگ اور پی پی پی کےیافتہ صحافی سپورٹ کرنے میں لگے ہیں جبکہ پختون صحافی اتنا واویلا نہیں مچاتے ؟
جواب : وزیرستان آپریشن کی اگر سب سے زیادہ کسی نے حمایت کی اور کمپین چلائی گئیں اور ڈرون حملوں کی دہائیاں دی گئیں تو وہ یہی صحافی طبقہ تھا جو آج پی ٹی ایم کا ترجمان بنا پھرتا ہے۔لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ انکو عوام یا پختونوں سے کوئی ہمدردی یا سروکار نہیں ۔ یہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کو نواز اور زرداری کی ایما پر بلیک میل کرنا چاہتے ہیں تاکہ انکو ریلیف مل سکے اور انکو ہڈی (لفافہ) ۔۔اور انکو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ انکے پاس نہ کوئئ بیانیہ ہے نہ کوئی عوامی طاقت کہ یہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو نیچے لگا سکیں ۔انکی لڑائی فوج سے ہے۔
آسان حل یہی تھا کہ پختونوں کو فوج سے لڑایا جائے اور فوج لے سامنے لا کھڑا کیا جائے۔۔یہی ایک صورت ہے جہاں فوج کو انکی حمایت کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور یہ سودا کر سکیں اور جان خلاصی کر سکیں ۔انکو صرف اقتدار دے غرض ہے چاہے اس کے لئے کتنا ہی خون بہہ جائے۔
دوسری طرف پختون صحافی بہت محتاط ہیں اور انکو معلوم ہے کہ اگر وہ اس گیم کا حصہ بن گئے تو انکی اپنی سرزمین مقتل بن جائے گی اور خون خرابہ ہو گا اور ایک دفعہ پھر جو ترقی خوشحالی اور امن کا سفر شروع ہوا ہے اس کو ریورس گیئر لگ جانا ہے اور یہ علاقے پھر سے طالبان اور القائدہ کے گڑھ بن جانے ہیں۔
سوال نمبر دو : لبرل اور این جو اوز کے لوگ کیوں پی ٹی ایم کو سپورٹ کرتے ہیں اور انکا ایجنڈا کیا ہے؟
جواب: انکا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی فوج ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج ہمیشہ پس پردہ اور سامنے رہ کر اقتدار میں رہی اور یہی وہ سیاستدان تھے جو انکی کاسہ لیسی کرتے تھے لیکن آج اگر فوج نہ ہو تو لیبیا، عراق، شام، یمن بننے میں ایک منٹ بھی نہ لگے۔
یاد رکھیں ایک مضبوط فوج ایک مضبوط ملک کی ضمانت ہوتی ہے۔اور ان خونی لبرلز کا ایجنڈا ہی یہی ہے کہ فوج کو کمزور کیا جائے۔ان کے پاس بھی نہ عوامی طاقت ہے، نہ کوئی بیانیہ کہ عوام کی حمایت حاصل کر سکیں ۔
یہ بھی پختونوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔انکی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہی فوج ہے۔اغیار کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان لبرلز کا دین ایمان صرف دولت ہے اور انکو زرا غرض نہیں کہ پختون مرے یا فوجی۔بس انکا ایجنڈا آگے بڑھنا چاہیے ۔
جتنی ہمدردی اور درد یہ آج دکھا رہے ہیں اتنا انہوں نے پی ٹی ایم سے پہلے پختونوں کو دکھایا؟؟نہیں ۔۔۔
چونکہ پی ٹی ایم فوج اور ریاست کو چیلنج کر رہی ہے تو وہ انکے پسندیدہ ہو گئے ہیں ۔
آج پی ٹی ایم کہہ دے کہ ہمارے مسئلے حل ہو گئے ہیں تو یہ انکے خلاف ہو جائیں گے۔۔
محسن داوڑ اسی کلاس کا ترجمان ہے اور ماضی میں آپریشنز اور ڈرون حملوں پر اس کے بیانات سب کو معلوم ہیں ۔یہی حسین حقانی، داوڑ ، عمر چیمہ، اعزاز سید، گل بخاری، عمار احمد، افراسیاب، بشری گوہر کہاں تھے جب لوگوں کے گلے کٹ رہے تھے ، عورتوں کی عزتوں پر طالبان ہاتھ ڈالتے تھے، اغوا برائے تاوان عروج پر تھے اور پاکستان بھر سے گاڑیاں چوری ہو کر قبائلی علاقوں میں چلی جاتی تھیں؟ آج اگر امن آیا ہے، کالج ، سڑکیں، سکول، کھیلوں کے گراونڈ بن رہے ہیں، ریہیبیلیٹیشن مراکز کام کر رہے ہیں، فیکٹریاں لگ رہی ہیں، روزگار پیدا ہو رہا ہے، سیاحت کے لئے قبائلی علاقے کو کھولا جا رہا یے تو کیوں یہ اس پی ٹی ایم کے فتنے کو استعمال کر کے قبائلی علاقوں میں بدامنی لانا چاہتے ہیں؟
ایک طرف پی پی پی پی ٹی ایم کی حمایت کرتی ہے اور دوسری طرف سالانہ سو ارب فاٹا کی ترقی اور روزگار کے مواقع کے لئے دینے سے انکاری ہے۔کیوں؟؟؟
اور پی ٹی ایم کی قیادت انکے ساتھ بیٹھی یہ سوال بھی نہیں کرتی کہ سو ارب کیوں نہیں دینا چاہتی پی پی پی؟ اب بھی کوئی نہ سمجھے تو پھر بقول منیر نیازی
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن،
کج سانوں مرن دا شوق وی سی ۔
Last edited by a moderator: