- Disable no follow links
- Yes

ہمارا ریئل اسٹیٹ سیکٹر ایک ایسے موڑ سے گزر رہا ہے جہاں ماضی کے طور طریقے آہستہ آہستہ ترک ہورہے ہیں اور اُن کی جگہ نیا طرزِ کاروبار رائج ہورہا ہے۔ یہ نیا طرزِ کاروبار بہت حد تک ٹیکنالوجی کے ذریعے زندگی کے ہر پیرائے میں رونما خوش کُن تبدیلیوں کے زیرِ اثر ہے۔ اِس سیکٹر میں مگر زمینی حقائق اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی کے دیرینه فوائد
کسی بھی مُلک کا ریئل اسٹیٹ سیکٹر اُس کی ترقی کی کنجی اپنے ہاتھ میں لیے ہوتا ہے۔ جو مُلک ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے حقیقی پوٹینشل کا ادراک کرے، کاروبار میں آسانی کے اقدامات یقینی بنائے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد قائم رکھے، وہ اپنے اندر ایک ایسے ماحول کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوتا ہے جہاں سرمائے کا تحفظ اور سرمایہ کاروں کی توجہ ہو۔ یوں وہ حقیقی معنوں میں ترقی کرتا ہے کیونکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر آئیسولیشن یعنی تنہائی میں کام نہیں کرتا، اِس سیکٹر کے ساتھ بہت سی الائیڈ انڈسٹریز منسلک ہوتی ہیں جو اِس کے ساتھ پنپتی اور ترقی کرتی ہیں۔ اِس سیکٹر کی ترقی سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ عوام الناس کیلئے کم لاگت ہاوسنگ یونٹس اور اربن پلاننگ جیسے معاملات کا بھی بھرپور انتظام کیا جاتا ہے اور یوں ترقی کی راہیں بہرحال ہموار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

محفوظ سرمایہ کاری کا آسان ترین طریقہ
چند سطور قبل ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے زمینی حقائق کی بات کی گئی جن میں سے کچھ تمام تر خوش نما تبدیلیوں کے باوجود بھی اپنی جگہ قائم و دائم رہتی ہیں۔ اِن میں سے ہی ایک کے بارے میں آج کی تحریر ہے کہ ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ سے قبل کون سے عوامل کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ آج کی تحریر میں گرانہ ڈاٹ کام کے محفوظ ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ کے فارمولے یعنی اؤنرشپ، اپروول، ڈیمانڈ اینڈ ڈیلیوری کا بھی ذکر کیا جائیگا جس کا خیال رکھنا کسی بھی سرمایہ کار کو محفوظ اور غیر محفوظ سرمایہ کاری کا فرق سکھا سکتا ہے۔
ہمارے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے زمینی حقائق
مُلکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ترقی کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جس کی اہمیت کو جاننا ہی اِس کی افادیت کے راستے پر گامزن ہونے کا پہلا قدم ہے۔ تاہم وزیرِ اعظم نے جب پرائم منسٹر شکایات پورٹل کا اجراء کیا تو ستر فیصد شکایات پراپرٹی انویسٹمنٹس سے متعلق آئیں۔ یوں لوگوں کو شفاف اور محفوظ سرمایہ کاری کے بارے میں بتانے کی اہمیت مزید بڑھ گئی کیونکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر سرمائے کے گرد گھومتا ہے اور سرمائے کا عین تعلق انسان کی شب و روز کی محنت کے ساتھ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر جتنی بھی سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ہوتی ہے، اُس کا آدھے سے زیادہ حصہ "ڈیڈ کیپیٹل" میں جاتا ہے یعنی جعلی پراجیکٹس میں پھنس اور دھنس کر رہ جاتا ہے۔ کچھ سوالات ہیں جو ہر سرمایہ کار کو کسی بھی ریئل اسٹیٹ پراجیکٹ کی جانب رجوع کرنے سے قبل ضروری ہیں اور یہی آج کی تحریر ہے۔

پراپرٹی کی ملکیت کی تصدیق کیوں ضروری ہے؟
سب سے پہلا سوال پراپرٹی کی اونرشپ یعنی ملکیت سے متعلق ہے۔ سرمایہ کاری سے قبل اس امر کا اطمینان کرلیں کہ جس پراجیکٹ یا یونٹ میں آپ انویسٹ کرنے والے ہیں وہ کس کی ملکیت ہے۔ جس کی ملکیت ہے، آیا اُس کے پاس اپنی ملکیت ثابت کرنے کے ٹھوس اور تصدیق شدہ دستاویزات موجود ہیں کہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں چونکہ لینڈ ریکارڈز آج سے قبل پٹوار کلچر کے زیرِ انتظام تھے، کاغذی کاروائیوں سے دھوکہ دہی کا نظام پنپتا رہا اور ملکیت کے بے شمار ایسے مسائل سامنے آئے کہ اگر اُن کے بارے میں لکھا جائے تو دن تمام ہوجائے پر اُن کا احاطہ نہ ہو۔ اسی طرح سے ہمارے ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے منسلک جتنے بھی عدالتی مقدمات ہیں، اُن میں سے 60 فیصد کیسز کا براہِ راست تعلق پراپرٹی کی اؤنرشپ سے ہے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پہلا سوال کتنی اہمیت کا حامل ہے۔
وہ غلطی جس سے آپ کا سرمایہ ڈوب سکتا ہے
اسی طرح سے کسی بھی پراپرٹی کی اپروول کا اطمینان کرنا بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی جب آپ کسی ریئل اسٹیٹ پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کا سوچیں تو اِس بارے میں ضرور آگاہی حاصل کرلیں کہ اُس پراجیکٹ کو متعلقہ قانونی اداروں سے منظوری کی دستاویزات کا حصول ہوچکا ہے يا نہیں۔ خود سے اِس بات کا عہد کرلیں کہ کسی بھی ایسے پراجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کی جائیگی جس کے پاس نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ یعنی این او سی نہ ہو۔ غیر مصدقہ ریئل اسٹیٹ پراجیکٹس اور پراپرٹی ایجنٹس اِس معاملے میں ایک بڑا زبردست کھیل کھیلتے ہیں۔ پہلے این او سی کے حصول کیلئے درخواست جمع کرادی جاتی ہے اور پھر لوگوں میں یہ بات عام کردی جاتی ہے کہ این او سی کا حصول کسی بھی وقت ہوسکتا ہے تاہم این او سی ملنے کے بعد پراپرٹی کے ریٹس بہت بڑھ جائیں گے۔ لوگ کم علمی کی بناء پر چونکہ اِن معاملات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، اولڈ فائل اور نیو فائل کے ایک ایسے گورکھ دھندے میں پھنس جاتے ہیں جہاں اُن کے سرمائے کا مستقبل صرف ڈوبنا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ واقعتاً این او سی کسی بھی وقت مِل جائیگا اور پھر ہمیں اسی پلاٹ کے زیادہ پیسے جمع کرانے پڑیں گے لہٰذا آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً سے انویسٹ کردیا کرتے ہیں۔

کسی بھی ریئل اسٹیٹ پراجیکٹ کی ڈیمانڈ کیسے دیکھی جائے؟
تیسرا فیکٹر جس کا کسی بھی سرمایہ کاری کے منافع بخش یا نقصان دہ ہونے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے وہ اُس پراجیکٹ یا ہاؤسنگ یونٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ ڈیمانڈ کا ڈائریکٹ تعلق اُس پراجیکٹ یا پلاٹ کی لوکیشن سے ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ریئل اسٹیٹ پراجیکٹ یا ہاؤسنگ یونٹ قانونی ہو اور اُس کی لوکیشن اچھی ہو تو بہترین ریٹرن آن انویسٹمنٹ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ لوکیشن کی اہمیت اِس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ دورِ جدید میں زندگی کی ضروریات کا پیمانہ تبدیل ہوگیا ہے اور ہر شخص اپنی رہائش ایک ایسی جگہ پر حاصل کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتا ہے جہاں سے روز مرہ کی سہولیات تک رسائی آسان ہو۔ بہترین لوکیشن کا اندازہ آس پاس شاپنگ سینٹرز، تعلیمی مراکز، ہسپتالوں، دفاتر، مرکزی سڑکوں اور شاہراہوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
پراجیکٹ ڈویلپر کی ساکھ کا اندازہ کیسے لگائیں؟
محفوظ سرمایہ کاری کیلئے آخری فیکٹر جس کا خصوصی خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے وہ ڈیلیوری ہے۔ ہر ریئل اسٹیٹ پراجیکٹ کو کسی نہ کسی ڈویلپر کی جانب سے بنایا جارہا ہوتا ہے۔ آپ نے مارکیٹ ریسرچ سے یہ اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ جس ڈویلپر کی جانب سے اُس پراجیکٹ کی تعمیر کی جارہی ہے وہ مارکیٹ میں کس ساکھ کا حامل ہے۔ آیا اُس ڈویلپر نے ماضی میں اپنے پراجیکٹس کی بروقت تکمیل کی ہے يا نہیں۔ وہ اپنے ریئل اسٹیٹ پراجیکٹس کو لے کر قانونی معاملات سے مکمل طور پر کلیئر ہے یا نہیں۔ ایک آدھ دن کی تحقیق آپ کو مستقبل کے بڑے نقصان سے بچا سکتی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/7realstateinfo.jpg