روہنگیا بحران: سوچی کا اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے حالیہ بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر ہونے والی تنقید کے بعد ملک کی رہنما آنگ سان سوچی نے آئندہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آنگ سان سوچی کو مغرب کی جانب سے میانمار میں جاری تشدد کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں جاری تشدد کے بعد ایک اندازے کے مطابق 3,70,000 روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔
٭ میانمار: 'روہنگیا مسلمان آنگ سان سوچی کا انتظار کر رہے ہیں'
٭ میانمار کے علاقے رخائن میں جھڑپیں، ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی
٭ روہنگیا مظالم، اقوام متحدہ کی سوچی حکومت پر تنقید
میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ریاست رخائن کے شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور فوج نے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔
میانمار کی حکومت کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ' آنگ سان سوچی اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی جہاں انھوں نے گذشتہ برس خطاب کیا تھا۔' ترجمان نے اس حوالے سے مزید تفصیل نہیں بتائی۔
آنگ سان سوچی کے ایک اور ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا 'شاید سوچی کو یہاں زیادہ اہم امور نمٹانے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ (سوچی) خود پر ہونے والی تنقید یا مسائل کا سامنے کرنے سے گھبراتی نہیں ہیں۔‘
یاد رہے کہ میانمار کی رہنما نے اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک جانا تھا۔
گذشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں سوچی نے روہنگیا کے ساتھ ناروا سلوک اور اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی حکومت کے اقدامات کی حمایت کی تھی۔
اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر نے ریاست رخائن میں ہونے والے تشدد کا الزام روہنگیا شدت پسندوں پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک ایسی سفاکیوں کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔
تاہم میانمار سے فرار ہونے والے متعدد افراد کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے 25 اگست کو روہنگیا عسکریت پسندوں کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے ظالمانہ مہم کا آغاز کیا جس میں ان کے گاؤں کو جلا دیا گیا۔
روہنگیا اقلیت کو میانمار یعنی برما میں مظالم کا سامنا ہے۔
نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے حالیہ بحران کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔
میانمار کی حکومت کے مطابق ملک کی فوج روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کر رہی ہے جو شہریوں پر حملے کرنے میں ملوث ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے حال ہی میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی رہنما آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
انھوں نے کہا رخائن میں 'حالات نہایت خراب' ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ آنگ سان سوچی اس معاملے کے حل کے لیے 'قدم اٹھائیں۔' انھوں نے مزید کہا کہ اس بار رخائن میں ہونے والی تباہی اکتوبر کے واقعات سے 'کہیں زیادہ بڑی ہے۔'
آنگ سان سوچی ملک کی سرکاری طور پر صدر نہیں ہیں لیکن انھیں ہی ملک کا حقیقی سربراہ تصور کیا جاتا ہے۔
میانمار میںروہنگیا مسلمان ملک کی وہ اقلیت ہیں جن کو میانمار کا شہری تصور نہیں کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں روہنگیا کے معاملے پر بات چیت ہو گی۔
http://www.bbc.com/urdu/world-41250244
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے حالیہ بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر ہونے والی تنقید کے بعد ملک کی رہنما آنگ سان سوچی نے آئندہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آنگ سان سوچی کو مغرب کی جانب سے میانمار میں جاری تشدد کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں جاری تشدد کے بعد ایک اندازے کے مطابق 3,70,000 روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔
٭ میانمار: 'روہنگیا مسلمان آنگ سان سوچی کا انتظار کر رہے ہیں'
٭ میانمار کے علاقے رخائن میں جھڑپیں، ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی
٭ روہنگیا مظالم، اقوام متحدہ کی سوچی حکومت پر تنقید
میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ریاست رخائن کے شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور فوج نے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔
میانمار کی حکومت کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ' آنگ سان سوچی اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی جہاں انھوں نے گذشتہ برس خطاب کیا تھا۔' ترجمان نے اس حوالے سے مزید تفصیل نہیں بتائی۔
آنگ سان سوچی کے ایک اور ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا 'شاید سوچی کو یہاں زیادہ اہم امور نمٹانے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ (سوچی) خود پر ہونے والی تنقید یا مسائل کا سامنے کرنے سے گھبراتی نہیں ہیں۔‘
یاد رہے کہ میانمار کی رہنما نے اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک جانا تھا۔
گذشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں سوچی نے روہنگیا کے ساتھ ناروا سلوک اور اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی حکومت کے اقدامات کی حمایت کی تھی۔
اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر نے ریاست رخائن میں ہونے والے تشدد کا الزام روہنگیا شدت پسندوں پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک ایسی سفاکیوں کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔
تاہم میانمار سے فرار ہونے والے متعدد افراد کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے 25 اگست کو روہنگیا عسکریت پسندوں کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے ظالمانہ مہم کا آغاز کیا جس میں ان کے گاؤں کو جلا دیا گیا۔
روہنگیا اقلیت کو میانمار یعنی برما میں مظالم کا سامنا ہے۔
نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے حالیہ بحران کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔
میانمار کی حکومت کے مطابق ملک کی فوج روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کر رہی ہے جو شہریوں پر حملے کرنے میں ملوث ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے حال ہی میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی رہنما آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
انھوں نے کہا رخائن میں 'حالات نہایت خراب' ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ آنگ سان سوچی اس معاملے کے حل کے لیے 'قدم اٹھائیں۔' انھوں نے مزید کہا کہ اس بار رخائن میں ہونے والی تباہی اکتوبر کے واقعات سے 'کہیں زیادہ بڑی ہے۔'
آنگ سان سوچی ملک کی سرکاری طور پر صدر نہیں ہیں لیکن انھیں ہی ملک کا حقیقی سربراہ تصور کیا جاتا ہے۔
میانمار میںروہنگیا مسلمان ملک کی وہ اقلیت ہیں جن کو میانمار کا شہری تصور نہیں کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں روہنگیا کے معاملے پر بات چیت ہو گی۔
http://www.bbc.com/urdu/world-41250244