Qavi U Aziz
New Member

اللہ تبارک تعالی رمضان جانے کے بعد ہم انسانوں کو فرایض و نوافل کا ایسا عادی بنا دے کہ انکے بغیر رات میں نیند نہ آے نہ ہی دن میں چین و سکون کا احساس جو ہم مسلمانوں کا عظیم سرمایہ ہے اور جو اسلام میں مطلوب و مقصود ہے اللہ عملی طور پر ہم مسلمانوں میں وہ اسپرٹ پیدا کردیتا ہے کہ اگر اسکو اسی رفتار سے جاری رکھا جاے تو آخرت کی منزل بہت آسان ہوجاے اور ہمیشہ کی زندگی میں وہ راحت نصیب جسکا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے مگر یہ ہم مسلمانوں کی بہت ہی بدقسمتی ہے کہ رمضان المبارک میں ہم جو عمل کرتے ہیں وہ رمضان کے ختم ہونے کے فوری بعد ہی ماند پڑنا شروع ہو جاتے ہیں بلکہ میں اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ بعض مسلمان تو رمضان شروع ہونے سے قبل ہی اپنے دوستوں یاروں میں وہ اعمال یعنی کپلز کی میوزیکل پارٹیز جس میں فلمی گانے بجانے یا اور دوسری طرح کی پارٹیاں رمضان کے ختم ہونے کے فورا بعد کرنے کا اہتمام کرتے ہیں جن چیزوں سے وہ رمضان کے مہینے میں خود کو دور رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی درس دیتے ہیں اور پھر پوری پوری رات رمضان کے جاتے ہی جیسے ہی شیطان قید سے آزاد کر دیا جاتا ہے ویسے ہی یہ مسلمان بھی اپنے ان اعمال
سے جو وہ بڑے ہی خشوع و خضوع سے پورے رمضان میں ادا کرتے تھے اس سے اپنے کو آزاد کرالیتے ہیں
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ ہرکتیں کوی ٹین ایجر یا جوان لوگ نہیں بلکہ وہ مسلمان کپلز مرد و عورتیں کر رہے ہیں جو مجھ سے زیادہ عمر کے ہیں اور قبر میں پاوں لٹکاے بیٹھے ہیں کتنے ڈبل اسٹنڈرڈ کے ہیں یہ لوگ کہ دنیا کو دکھانے کے لیے رمضان میں جن چیزوں کی اللہ سے معافی مانگتے ہیں اس رمضان کے آنے سے قبل ہی اس کے جانے کے انتظار میں ہوتے ہیں اللہ کا ڈر و خوف بلکل ختم ہوجاتا ہے اور حیرانگی تو اسپر ہو تی ہے کہ کوی چاہے منہ بولا بھای ہی کیوں نہ کسی کا ہو کیا وہ رات بھر ہونے والی ان کپلز کی محفلوں میں اکیلی غیر محرم عورتوں کو بلاے گا اور حیرانگی اس وقت ہوتی ہے کہ محفل میں آے کسی کو اس میں برای کا کوی پہلو نظر نہیں آتا ہے جبکہ اسلام میں اسکی بھرپور ممانعت کی گیی ہے کہ مغرب کے بعد غیر محرم عورتوں کے ساتھ ایسی محفلوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے جہاں کپلز کی محفلوں میں صرف میاں اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ ہوں وہاں ایک اکیلی غیر محرم عورت چاہے وہ اکیلی رہتی ہو چاہے وہ بیوہ ہو یا چاہے اپنے شوہر کی اجازت سے ایسی محفل کوکس طور اٹینڈ کررہی ہے اللہ ایسے مسلمانوں کو نیک ہدایت اس دنیا میں رہتےہوے دے دے اور جوجو اس عمل میں خاموش تماشای بنے ہوتے ہیں پکڑ انکی بھی ہوگی کہ غلط باتوں پر خاموشی کیوں؟ اگر کوی انکی بیوی کو ایسی پارٹیوں میں رات بھر اکیلے انکے شوہر کے بتاے بنا بلاے تو ؟ جب تک سانس میں سانس ہے اپنے رب سے دل سے معافی مانگ لیں اگر اس سانس کی ڈور چھوٹ گیی تو پھر اسکی پکڑ ضرور ہوگی اللہ بہت ہی غفور و رحیم ہے اسنے کہا ہے کہ مجھ سے دل سے معافی مانگو میں اپنے بندے کی ہر کوتاہی ہر غلطی کو معاف کردونگا
رمضان کے جاتے ہی مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں نمازیوں کی ایک یا دو صفیں ہی رہ جاتی ہیں حالانکہ رمضان اللہ نے مسلمانوں پر اس لیے فرض کیا تھا تاکہ ایمانی عمل تیز ہوسکے ، زندگی قرانی تعلیمات میں ڈھل جاے تاکہ انکو دیکھ کر غیر مسلم شریعت اسلامی کو سمجھ سکیں اللہ نے قران کریم میں رمضان کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقوی کے ساتھ متصف ہونا بیان کیا ہے یعنی کہ انسان کا دل سوچ سمجھ اخلاق و کردار اور انداز سب کچھ اس طرح بدل جایں کہ رمضان کے جانے کے بعد ایک نیی اور صالح زندگی کا حامل بن جاے اس رمضان کو اپنی اس زندگی کا آخری رمضان تصور کر کے تاکہ ہماری زندگی میں ایک ایسا انقلاب برپا کردے کہ جو ہمیں اپنے معبود سے لو لگادے اور اگر یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو تو اللہ قبر میں اور آخرت میں ہمیں بخش دے اور اگر اگلا رمضان دیکھنے کی اس دنیا میں اسنے سعادت نصیب کی تو اسکے شکر کے ساتھ اسکی اور زیادہ عطاعت گزار بننے کی کوشش کریں گے
ڈبل اسٹنڈرڈ کی زندگی ، دھوکہ فریب جھوٹ ظلم و زیادتی حسد غیبت اور دوسرے گناہ اور برایوں سے توبہ استغفار کے ذریعےاپنے آپکو پاک وصاف کرلیں اور دوبارہ ایسی معیصت کا ارتکاب کبھی نہ کریں فرایض و نوافل میں اپنے آپکو سما لیں تاکہ رات میں نیند آے اور نہ دن میں چین و سکون کا احساس ہو اللہ نے اگر دل میں ایسی کیفیات پیدا کردی اور زندگی میں ایسا تغیر پیدا ہوگیا تو سمجھنا چاہیے کہ رمضان کا مقصد حاصل ہوا اور اللہ کی رضا کو پالیا ورنہ رمضان کے مہینے میں کچھ اس سے حاصل کیے بغیر وہ ہم سے رخصت ہو گیا تو سب سے بڑی مایوسی کا زریعہ اور محرومی کا سبب ہوگا ہم رمضان کے پورے مہینے اس جستجو میں رہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ قران ،ذکر اور نماز کو قائم کریں رمضان کے مبارک مہینے میں روزہ دار کو اللہ کے وجود کا احساس و یقین بہت پختہ ہو جاتا ہے عمل کے اعتبار سے وہ چاہے جیسا ہو مگر روزے کی حالت میں صبح سے لیکر شام تک بھوک اور پیاس کو بشاشت کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اسے یہ پورا یقین ہو تا ہے کہ میں نے تنہائی میں اگر کچھ کھا پی لیا تو میں دنیا میں انسان کی نظروں میں تو بچ جاونگا مگر اپنے اللہ کی نظر سے بالکل نہیں بچ سکتا یہی وہ احساس ہے جو اسے کھانے پینے سے روکتا ہے اور بھوک و پیاس کو برداشت کرنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے
رمضان المبا رک کا یہی تو پیغام ہے کہ جس طرح اس مہینے میں اللہ کے وجود کا احساس تھا اور چلتے پھرتے اسکا ڈر دل میں بسا ہوا تھا اسی طرح رمضان کے مہینے کے بعد بھی اللہ تعالی کے وجود کا احساس اور اسکی گرفت کا ڈر اور خوف دل میں موجود رہے کیونکہ روزہ دراصل اسی کیفیت کو پختہ کرنے کا ایک نصاب ہے اور جب ہم مسلمانوں میں دل سے یہ کیفیت پیدا ہوجاے تو حرام و حلال کی تمیز اللہ خود ہی پیدا کر دیتا ہے اور جن چیزوں کو ہم رمضان کے مہینے میں نہیں کرتے جیسے گانے بجانے کی رات بھر کپلز کی محفلیں اور اس طرح کی ڈانس اور دوسری محفلوں سے پوری طرح اجتناب کرتے ہیں تو یہ ڈبل اسٹینڈرڈ جھوٹ دھوکہ دہی وغیرہ سے زندگی پاک و صاف ہوجایگی اور پھر جب انسان دل سے توبہ کر لیتا ہے تو پھر کسی ایسے کام کی طرف اسکا ذہن نہیں جایگا جو وہ اپنے اوپر رمضان میں کرنے سے اپنے آپ کو روکتا ہے اور جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے کیونکہ ہر وقت اس کے دل و دماغ میں اللہ تعالی کے دیکھنے کا احساس اجاگر ہوجاے گا جس سے وہ انسان سارے منکر ات سے محفوظ رہیگا رسول اکرم کی تمام محنتوں کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ ہر انسان کو یہ احساس پورے طور پر ہوجاے کہ اللہ رب العزت اسے دیکھ رہا ہے اسکا کوئی ثانی و نظیر نہیں وہی یکتا ہے وہی سارے عرش و جہاں کا مالک ہے اسکی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا اسکی بندگی میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی پوشیدہ ہے
رمضان المبا رک کا بھی یہی مقصد قران میں سورہ بقرہ کی آیت 183 میں بیان ہے روزہ دار نے جب یہ مقصد پالیا تو گویا شریعت کے اصل مقصد کو اسنے پالیا تو اب وہ گمراہی سے محفوظ ہو گیا کیونکہ جب ایک مسلمان روزے کی حالت میں ان تمام چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جنکوشریعت نے وقتی طور پر ممنوع قرار دیا ہے یہ دراصل اس بات کی مشق کرای جاتی ہے کہ جس طرح رمضان میں ان چیزوں سے اپنے آپکو روکے رکھا اور شریعت کی پابندی کی ویسے ہی رمضان کے بعد بھی ان چیزوں سے رکے رہنا ہر مسلمان مرد و عورت کی ذمہ داری ہے جن کو شریعت نے مستقل حرام قرار دیا ہے یا پھر انکی ممانعت کی ہے اہل ایمان کو چاہیے کہ ممنوعات سے مکمل گریز کریں اور شریعت کا لحاظ اور پاس رکھیں اور جن چیزوں کی پورے رمضان صبح سے شام تک نہ کرنے کی پابندی کی تو پھر رمضان ختم ہونے کے فوری بعد وہ ممنوعات کیسے کر سکتے ہیں
ایک مسلمان مرد و عورت کو حرام اور ممنوع عمل کرتےہوے فورا ہی اس بات کی طرف اپنے ذہن کو لے جا نا چاہیے کہ رمضان میں جس طرح اپنے کو ان ممنوعات خرافات سے روکے رکھا اسی طرح رمضان کے بعد بھی ان تمام ممنوعات خرافات ناجائز کاموں سے اپنے آپ کورو کنا چاہیے ناکہ اسکی تشہیر اور دوسروں کو دعوت دے کر بلایا جاے ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ رمضان میں تو ان کاموں سے اپنے کو روکا جاے اور بعد میں نہیں اس وقت بھی اپنے رب کو راضی کرنا ہمارا مقصد تھا تو رمضان کے بعد بھی مقصد وہی ہے پھر وہ چیزیں رمضان کے بعد کیسے جائز ہو سکتی ہیں
رمضان میں قران کریم کی تلاوت کثرت سے کرنا دراصل اپنی طبیعت کو اسکا عادی بنانے کے لیے ہے تاکہ بعد رمضان اسکی عادت پڑ جاے اور کم از کم فجر کی نماز کے بعد ایک خاص وقت قران کی تلاوت کو اپنا معمول بنا لیں اور پھر اس کے بعد اپنے کام کا آغاز کریں انشاءاللہ اس سے کام میں برکت ہو گی اور پورا دن انشاءاللہ مصائب و مشکلات سے محفوظ رہینگے رمضان گزر جانے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت ، بچھڑوں کو ملانا نہ کہ ان میں اور دوریاں پیدا کرنے کا سبب بننا ، بیمار اور پریشان حال لوگوں کی عیادت اور مدد کرنا عبادت میں ہی شمار ہوتا ہے میں کبھی بھی ایک پریکٹسنگ مسلمان نہیں رہا مگرتقریبا دو تین سال قبل جب اپنے اللہ کی طرف رخ کیا تو اس غفور و رحیم نے اپنا رحم و کرم کر دیا اب تو بس اپنے رب سے یہی دلی دعا ہے کہ جو چیزیں اسنے رمضان میں کرنے سے روکے رکھا ان سب بے حیائی، حرام، ممنوعات خرافات اور ناجائز کاموں سے مجھے میری موت تک بچائے رکھے- اللہ ہم سب کو نیک ہدایت دے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرماے آمین یا رب العالمین