رحمن ملک کو معافی کیوں
عبادالحق بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پیر کو صدر زرداری نے رحمن ملک کی سزا معاف کردی تھی<b>
صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک کی سزا معاف کرنے کے اقدام نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ آخر صدر پاکستان کو یہ مداخلت کیوں کرنی پڑی حالانکہ رحمان ملک کے پاس اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا ایک قانونی راستہ موجود تھا۔
ماہرین قانون کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے جب رحمان ملک کی سزا کے خلاف ان کی درخواست مسترد کی تو وہ سزا بھی موثر ہوگئی جو ان کو عدم حاضری یا دانستہ روپوشی کے الزام میں احتساب عدالت کی طرف سے سنائی گئی تھی۔
احتساب عدالت کی سزا موثر ہونے کے بعد متعلقہ اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اس سزا پر عمل درآمد کرائیں جو عدالت کی طرف سے سنائی گئی ہو اور اس معاملے میں سزا پر عمل درآمد کروانے کا صاف مطلب رحمان ملک کوگرفتار کیا جانا تھا تاکہ انہیں جیل منتقل کیا جاسکے۔
احتساب عدالت کی طرف سے عدم حاضری پر کسی ملزم کو سزا سنائی جاتی ہے تو عدالت کی طرف سے یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ملزم گرفتار ہو تو اسے سزا پر عمل درآمد کروانے کے لیے جیل منتقل کردیا جائے۔
پاکستان میں احتسابی قوانین یا نیب آرڈیننس کے تحت کسی ریفرنس میں ملزم کے پیش نہ ہونے پر اسے عدم حاضری یا دانستہ روپوشی کے الزام میں زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
چند دنوں پہلے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس چودھری امین کو نیب نے اس وقت لاہور ہائی کورٹ سے گرفتار کرلیا تھا جب عدالت نے ان کی اس درخواست کو مسترد کردیا تھا جس میں انہوں نے عدم حاضری کی بناء پر سنائی جانے والی سزا کو چیلنج کیا تھا۔
چودھری امین اپنی درخواست مسترد ہونے کے بعد جب کمرہ عدالت سے باہر آئے تو نیب کے اہلکاروں نے ان کو اپنی تحریل میں لے کر جیل منتقل کردیا تاکہ اُس سزا پر عمل درآمد کرایا جاسکے جو احتساب عدالت نے انہیں عدم حاضری کی بنیاد پر سنائی تھی۔
تاہم رحمان ملک کا معاملہ دیگر لوگوں سے مختلف ہے کیونکہ ان کے پاس پاکستان کی اہم وزارت کا قلمدان ہے بلکہ ان کا شمار صدر آصف علی زرداری کے قابل اعتماد اور قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔اس لیے رحمان ملک کی سزا پر عمل درآمد نہ روکا جاتا تو ان کی گرفتاری کو کسی بھی صورت بغیر کسی ٹھوس جواز ٹالا نہیں جاسکتا تھا اور گرفتاری کی صورت میں ان کو ایک پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا۔
اب سوال یہ رہا کہ رحمان مللک نے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا تو اس بارے میں جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ کے پاس اپیل دائر کرنے کا قانونی حق موجود تھا اور وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے تھے تاہم بعض ماہرین قانون کی رائے ہے کہ اگر وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے تو ان کی دادرسی اسی وقت ہوتی جب وہ خود کو عدالت کے روبرو ’ سرنڈر‘ْ کرتے جبکہ سپریم کورٹ میں اپیل پر کارروائی کی صورت میں نیب یعنی ملک کے احتسابی ادارے کو اس بات کا ٹھوس جواب دینا پڑتا کہ رحمان ملک کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور بقول ماہرین نیب کے لیے ممکن نہ ہوتا کہ وہ اس بارے میں سپریم کورٹ کے روبرو کوئی معقول جواز پیش کرسکتے۔
سپریم کورٹ کے اعتراض کا مناسب جواب نہ دینے پر ایک بار پھر نیب کے حکام کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا جس کا سامنا وہ صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے کررہے ہیں۔
ماہر قانون راجہ سلمان اکرم اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ رحمان ملک کی سزا معاف کرنے کے اقدام کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کے بقول رحمان ملک کی سزا ختم کرنے کے اقدام کو بدنیتی کی بنا پر عدالت کے سامنے چیلنج کیا جاسکتا ہے اور عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔
رحمن ملک کو آصف علی زرداری کا قریبی مانا جاتا ہے
جسٹس ریٹائر طارق محمود کا کہنا ہے کہ رحمان ملک کی سزا معافی کے بعد اب کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ اب چیئرمین سینیٹ کے پاس
ان کی سینیٹ کی رکنیت کو ختم کرنے درخواست دی جاسکتی ہے ۔
ماہرین قانون کی رائے ہے کہ رحمان ملک کی سزا ختم ہونے کے بعد انہیں کوئی کلین چٹ نہیں ملی کیونکہ ابھی انہیں اپنے خلاف ریفرنس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب صدرپاکستان اپنے آئینی اختیارکے تحت کسی شحض کو عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزا کو معاف کرتے ہیں تو اس شخص کے خلاف وہ مقدمہ یا جرم بھی ختم ہوجاتا ہے جس کے تحت اس کو سزا سنائی جاتی ہے لیکن رحمان ملک کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا اور صورت حال مختلف ہے کیونکہ صدر پاکستان نے جو سزا معاف کی ہے وہ عدم حاضری اور دانستہ روپوشی کے الزام میں ہوئی اور جن الزامات میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے وہ بھی برقرار ہے۔ اس طرح رحمان ملک کو اپنے خلاف ریفرنس میں جو اضافی سزا ملی تھی وہ ختم ہوئی ہے مگر وہ اپنے خلاف ریفرنس کے الزامات سے بری نہیں ہوئے۔
ماہرین قانون کے بقول رحمان ملک کو اس وقت تک ریفرنسوں کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک وہ ریفرنس میں لگائے الزامات سے بری نہیں ہوجاتے یا پھر ان کے خلاف ریفرنس ختم نہیں کردیا جاتا۔ </b>
عبادالحق بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پیر کو صدر زرداری نے رحمن ملک کی سزا معاف کردی تھی<b>
صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک کی سزا معاف کرنے کے اقدام نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ آخر صدر پاکستان کو یہ مداخلت کیوں کرنی پڑی حالانکہ رحمان ملک کے پاس اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا ایک قانونی راستہ موجود تھا۔
ماہرین قانون کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے جب رحمان ملک کی سزا کے خلاف ان کی درخواست مسترد کی تو وہ سزا بھی موثر ہوگئی جو ان کو عدم حاضری یا دانستہ روپوشی کے الزام میں احتساب عدالت کی طرف سے سنائی گئی تھی۔
احتساب عدالت کی سزا موثر ہونے کے بعد متعلقہ اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اس سزا پر عمل درآمد کرائیں جو عدالت کی طرف سے سنائی گئی ہو اور اس معاملے میں سزا پر عمل درآمد کروانے کا صاف مطلب رحمان ملک کوگرفتار کیا جانا تھا تاکہ انہیں جیل منتقل کیا جاسکے۔
احتساب عدالت کی طرف سے عدم حاضری پر کسی ملزم کو سزا سنائی جاتی ہے تو عدالت کی طرف سے یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ملزم گرفتار ہو تو اسے سزا پر عمل درآمد کروانے کے لیے جیل منتقل کردیا جائے۔
پاکستان میں احتسابی قوانین یا نیب آرڈیننس کے تحت کسی ریفرنس میں ملزم کے پیش نہ ہونے پر اسے عدم حاضری یا دانستہ روپوشی کے الزام میں زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
چند دنوں پہلے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس چودھری امین کو نیب نے اس وقت لاہور ہائی کورٹ سے گرفتار کرلیا تھا جب عدالت نے ان کی اس درخواست کو مسترد کردیا تھا جس میں انہوں نے عدم حاضری کی بناء پر سنائی جانے والی سزا کو چیلنج کیا تھا۔
رحمان ملک کو اپنے خلاف ریفرنس میں جو اضافی سزا ملی تھی وہ ختم ہوئی ہے مگر وہ اپنے خلاف ریفرنس کے الزامات سے بری نہیں ہوئے،ماہرین قانون کے مطابق رحمان ملک کو اس وقت تک ریفرنسوں کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک وہ ریفرنس میں لگائے الزامات سے بری نہیں ہوجاتے یا پھر ان کے خلاف ریفرنس ختم نہیں کردیا جاتا۔
چودھری امین اپنی درخواست مسترد ہونے کے بعد جب کمرہ عدالت سے باہر آئے تو نیب کے اہلکاروں نے ان کو اپنی تحریل میں لے کر جیل منتقل کردیا تاکہ اُس سزا پر عمل درآمد کرایا جاسکے جو احتساب عدالت نے انہیں عدم حاضری کی بنیاد پر سنائی تھی۔
تاہم رحمان ملک کا معاملہ دیگر لوگوں سے مختلف ہے کیونکہ ان کے پاس پاکستان کی اہم وزارت کا قلمدان ہے بلکہ ان کا شمار صدر آصف علی زرداری کے قابل اعتماد اور قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔اس لیے رحمان ملک کی سزا پر عمل درآمد نہ روکا جاتا تو ان کی گرفتاری کو کسی بھی صورت بغیر کسی ٹھوس جواز ٹالا نہیں جاسکتا تھا اور گرفتاری کی صورت میں ان کو ایک پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا۔
اب سوال یہ رہا کہ رحمان مللک نے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا تو اس بارے میں جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ کے پاس اپیل دائر کرنے کا قانونی حق موجود تھا اور وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے تھے تاہم بعض ماہرین قانون کی رائے ہے کہ اگر وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے تو ان کی دادرسی اسی وقت ہوتی جب وہ خود کو عدالت کے روبرو ’ سرنڈر‘ْ کرتے جبکہ سپریم کورٹ میں اپیل پر کارروائی کی صورت میں نیب یعنی ملک کے احتسابی ادارے کو اس بات کا ٹھوس جواب دینا پڑتا کہ رحمان ملک کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور بقول ماہرین نیب کے لیے ممکن نہ ہوتا کہ وہ اس بارے میں سپریم کورٹ کے روبرو کوئی معقول جواز پیش کرسکتے۔
سپریم کورٹ کے اعتراض کا مناسب جواب نہ دینے پر ایک بار پھر نیب کے حکام کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا جس کا سامنا وہ صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے کررہے ہیں۔
ماہر قانون راجہ سلمان اکرم اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ رحمان ملک کی سزا معاف کرنے کے اقدام کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کے بقول رحمان ملک کی سزا ختم کرنے کے اقدام کو بدنیتی کی بنا پر عدالت کے سامنے چیلنج کیا جاسکتا ہے اور عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔
رحمن ملک کو آصف علی زرداری کا قریبی مانا جاتا ہے
جسٹس ریٹائر طارق محمود کا کہنا ہے کہ رحمان ملک کی سزا معافی کے بعد اب کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ اب چیئرمین سینیٹ کے پاس
ان کی سینیٹ کی رکنیت کو ختم کرنے درخواست دی جاسکتی ہے ۔
ماہرین قانون کی رائے ہے کہ رحمان ملک کی سزا ختم ہونے کے بعد انہیں کوئی کلین چٹ نہیں ملی کیونکہ ابھی انہیں اپنے خلاف ریفرنس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب صدرپاکستان اپنے آئینی اختیارکے تحت کسی شحض کو عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزا کو معاف کرتے ہیں تو اس شخص کے خلاف وہ مقدمہ یا جرم بھی ختم ہوجاتا ہے جس کے تحت اس کو سزا سنائی جاتی ہے لیکن رحمان ملک کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا اور صورت حال مختلف ہے کیونکہ صدر پاکستان نے جو سزا معاف کی ہے وہ عدم حاضری اور دانستہ روپوشی کے الزام میں ہوئی اور جن الزامات میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے وہ بھی برقرار ہے۔ اس طرح رحمان ملک کو اپنے خلاف ریفرنس میں جو اضافی سزا ملی تھی وہ ختم ہوئی ہے مگر وہ اپنے خلاف ریفرنس کے الزامات سے بری نہیں ہوئے۔
ماہرین قانون کے بقول رحمان ملک کو اس وقت تک ریفرنسوں کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک وہ ریفرنس میں لگائے الزامات سے بری نہیں ہوجاتے یا پھر ان کے خلاف ریفرنس ختم نہیں کردیا جاتا۔ </b>