دو تہائی اکثریت کا "خمار"۔۔ نصرت جاوید

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
Gu50JoHWMAAL9l7

’’سامان سوبرس کا ہے پل کی خبر نہیں‘‘ والا مصرعہ بنجاروں اور فقیروں سے منسوب تصور ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا غور سے مطالعہ کروں تو اس مصرعہ کا اطلاق پاکستان میں ہر نوعیت کے حکومتی بندوبست پر بھی ہوا ہے۔ مزید بڑھنے سے قبل یہ حقیقت بھی دہرانا ہوگی کہ ہر نوع کا بندوبست ہمیشہ ’’دس سالہ‘‘ بنیادوں پر کھڑا کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے اولیں ’’دیدہ ور‘‘ 1958ء میں نمودار ہوئے تو ملک کو سنوارنے کے لئے ’’صدارتی نظام‘‘ دیا۔ ’’ہمارے مزاج کے عین مطابق‘‘ یونین کونسلوں پر مشتمل بلدیاتی نظام بنایا۔ اپنے سے قبل اقتدار میں رہے کئی قدآور سیاستدانوں کو ’’سات سال‘‘ کے لئے ایبڈو قوانین کے تحت سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دے دیا۔

راوی ان کے لئے چین ہی چین لکھا کرتاتھا تو لاہور کی سڑکوں پر فقط ایک دیوانہ شاعر -حبیب جالب- ’’ایسے دستور کو …‘‘نہ ماننے کی تکرار کرتے ہوئے پولیس کی لاٹھیوں کی زد میں رہتا۔ ان کے علاوہ ہائی کورٹ کے ایک جج رستم کیانی ہوا کرتے تھے۔ وہ مختلف تقاریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت میں تقریر فرماتے ہوئے اشاروں کنایوں میں ’’سبز اور کالے‘‘ باغوں کے مابین فرق اجاگر کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں جمع ہوئی بھڑاس کی نکاسی کے مواقع فراہم کردیتے ہیں۔ حالات پر کامل کنٹرول کے اس موسم میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے 80,000یونین کونسلروں کے ذریعے 1964ء میں ایک بار پھر ’’عوام کی حمایت سے‘‘ صدر پاکستان منتخب ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کی راہ روکنے کے لئے تمام سیاستدان متحد ہوکر قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی قیام گاہ کے باہر بھکاریوں کی طرح جمع ہوگئے۔ ’’مادر ملت‘‘ پکارکر انہیں ایوب خان کے مد مقابل کھڑا کردیا۔ وہ انتخاب ’’ہار‘‘ گئیں۔ ایوب خان کی ’’جیت‘‘ مگر خلق خدا کے ذہنوں میں ’’دھاندلی‘‘ کی بدولت ہی ممکن مانی گئی۔

ایوب خان ’’دھاندلی‘‘ کی تہمت کو شاید زیادہ عرصہ برداشت نہ کرپاتے۔ ان کی خوش قسمتی کہ ستمبر1965ء میں بھارت نے لاہور پر حملہ کردیا۔ پاکستان کی حفاظت کے جذبے نے ان دنوں مغربی پاکستان کہلاتے علاقوں کو متحدہ کردیا۔ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے مگر اس فکر میں مبتلا ہوگیا کہ پاک-بھارت جنگ کے دوران ان کو بیرونی جارحیت سے بچانے کا مؤثر بندوبست نظر نہیں آیا۔ یہ محسوس ہواکہ ’’پاکستان‘‘ گویا ’’مغربی پاکستان‘‘ ہی پر مشتمل ہے۔ بھارت کے حملے سے فقط اسے بچانا ہوگا۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ اسی سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے 6نکات پر مبنی ایک لائحہ عمل کا اعلان کیا جس کا حتمی نتیجہ ہمیں1971ء کے دوران بنگلہ دیش کے قیام کی صورت ملا۔

بات مگر ’’دس سال‘‘ کی ہورہی تھی۔ 1968ء میں ایوب خان نے اپنے اقتدار کے دس سال مکمل کرلئے تو ان کے ذہین وفطین سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے ’’عشرہ ترقی‘‘ کے نام سے دس روزہ جشن کا اعلان کردیا۔ ’’جشن‘‘ میں بھنگ ڈالنے کے لئے طلباء تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میدان میں اتری تو جلد ہی عوامی تحریک اْبھراْٹھی۔ ایوب خان اس کے نتیجے میں استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ ان کی جگہ ایک اور فوجی آمر نے لی۔

ایوب خان کے زوال کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے عوام نہایت سنجیدگی سے یہ سوچتے تھے کہ پاکستان نے 1965ء کی جنگ کے دوران بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دو چار کیا تھا۔ ایوب خان نے مگر تاشقند میں ہوئے مذاکرات کے دوران ’’جیتی ہوئی جنگ‘‘ مذاکرات کی میز پر ہاردی۔ اس تصور کو ان ہی کے لگائے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے فروغ دیا جو بعدازاں ’’نئے پاکستان‘‘ کے وزیر اعظم بنے۔

میرے پاس ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مگر جب 1977ء کے انتخابات کروائے تو سیاستدانوں کی محفلوں اور جلسوں میں یہ الزام تسلسل سے دہرایا جاتا کہ بھٹو صاحب ہر صورت مذکورہ انتخابات کے نتیجے میں ’’دوتہائی اکثریت‘‘ کے خواہاں ہیں۔ انہیں یہ اکثریت میسر ہوگئی تو وہ 1973ء کے آئین کو ’’صدارتی نظام‘‘ میں بدل دیں گے۔ اس طرح ان کے دس سال تک برسراقتدار رہنے کا بندوبست ہوجائے گا۔ 1977ء کے انتخاب ہوئے تو قومی اسمبلی میں بھٹو صاحب کو دو تہائی اکثریت تو مل گئی مگر مذکورہ اکثریت کو دھاندلی کا نتیجہ بتاتے ہوئے عوامی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ انجام اس کا جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء پر ہوا جو سیاستدانوں کی محتاجی کے بغیر گیارہ سال تک کامل اختیارات کے ساتھ برسراقتدار رہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بنچ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے حتمی فیصلہ آجانے کے بعد ایک بار پھر ’’دوتہائی اکثریت‘‘ کی باتیں ہورہی ہیں۔ اسلام آباد میں افواہیں ہیں کہ جو دوتہائی اکثریت مذکورہ فیصلے کے نتیجے میں ملے گی اسے فروری 2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی اسمبلی کی مدت کو پانچ کی جگہ دس سال تک بڑھانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ موجودہ حکومتی بندوبست میں شامل خواتین وحضرات ہینگ یا پھٹکڑی لگائے بغیر یوں 2034ء تک ہمارے ’’سرکار مائی باپ‘‘ رہیں گے۔

گوشہ نشین واثرورسوخ کی حامل طاقتوں، افراد اور اداروں تک رسائی سے محروم مجھ قلم گھسیٹ کو ہرگز خبر نہیں کہ 2034ء تک برسراقتدار رہنے کی خواہش یا منصوبہ کس حد تک مصدقہ ہے۔ دو تہائی اکثریت کا خیال مگر میرے وسوسوں بھرے دل کو 1977ء والی دو تہائی اکثریت کے علاوہ نواز شریف کو 1996ء میں میسر ہوا وہ ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ بھی یاد دلارہا ہے جس کی بدولت وہ ’’شرعی نظام‘‘ کے نفاد سے ہمارے ’’امیر المومنین‘‘ بننا چاہ رہے تھے مگر 12 اکتوبر 1999ء میں اقتدار سے محروم ہوکر اٹک قلعہ کی جیل میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد سعودی عرب جلاوطن کردئے گئے تھے۔ ’’دو تہائی اکثریت‘‘ کے خمار سے لہٰذا پرہیز ہی میں عافیت ہے۔
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

 

Back
Top