دوسرا ویتنام

Freedomlover

Minister (2k+ posts)
Social Linguistic Organization امریکا کی ایک تنظیم ہے۔ اس کا معاشرتی لسانیات کے شعبے سے تعلق ہے۔ اس کی ایک دلچسپ تحقیق کے مطابق 91 فیصد بالغ امریکی جس لفظ سب سے زیادہ خوف کھاتے ہیں وہ ویتنام ہے۔ وہ اسے سنتے ہی چڑجاتے ہیں۔ غصے میں واہی تباہی بکنا شروع کردیتے ہیں۔ امریکی میڈیا اس لفظ کے استعمال سے اجتناب برتتا ہے۔ ہالی ووڈ جو دنیا بھر کے چھوٹے سے چھوٹے واقعے کو پردہ اسکرین پر گھنٹوں کی فلموں میں ڈھال دیتا ہے۔ ویتنام پر فلمیں بنانے سے بچتا ہے۔ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر جانتے ہیں امریکی عوام سینمائوں کا رُخ نہیں کرے گی۔ امریکا کی اڑھائی سو سالہ تاریخ کی بدترین فوجی شکست کی کہانی اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگی۔
1852ء کے اوائل میں فرانس نے ویتنام پر قبضہ کرلیا تھا۔ 100 سال تک فرانسیسی اس ملک کے حاکم رہے۔ بیسیوں صدی کے وسط میں دنیا بھر کے غلام ملک غلامی کی زنجیریں توڑنا شروع ہوگئے۔ ویتنام کو ہوچی مُنہ کی صورت ایک زبردست انقلابی جرنیل لیڈر مل گیا۔ اُس کی تقریروں نے ملک بھر میں آگ لگادی۔ ویتنام ہوچی مُنہ کی قیادت میں خواب غفلت سے جاگے۔ انہوں نے 20 دسمبر 1945ء کو ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام قائم کردی۔

فرانسیسی افواج شکست کھاکر ملک سے نکل گئیں۔ ویتنام کے درمیان سے دریائے بن ہووئے گزرتا ہے جو ملک کو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ جنوبی ویتنام راہنما ہوچی منہ کی لیڈر شپ پر راضی نہ ہوئے۔ ان کے ایما پر فرانسیسی فوجوں نے وہاں قدم جمائے۔ یکم جولائی 1949ء کو جنوبی ویتنام میں اسٹیٹ آف ویتنام کی الگ حکومت قائم کردی۔ شمالی ویتنام ایک لاکھ 64 ہزار کلومیٹر پر محیط تھا، جبکہ جنوبی ویتنام کے پاس 63 ہزار 344 کلومیٹر کا رقبہ تھا۔ 7 مئی 1954ء کو ہوچی منہ کی فوج نے یہاں پر فرانسیسیوں کی حکومت ختم کردی۔
اقوام متحدہ نے اس مرحلے پر مداخلت کی۔ جنوبی ویتنام کو 39 اور شمالی ویتنام کو 22 صوبوں میں تقسیم کرتے ہوئے 2 سال تک الگ الگ ملک رکھنے کا فیصلہ دیا۔ 1956ء میں ریفرنڈم تجویز یکا گیا کہ آیا دونوں ملک مدغم ہوں گے یا اپنا الگ وجود برقرار رکھیں گے۔ ہنوئی اور سائیگا ساکو دو دارالحکومت بنادیے گئے۔ 1955ء میں فرانس اپنی فوجوں، تنصیبات اور اَثاثوں کے ہمراہ واپس چلاگیا۔ جیسے ہی آخری فرانسیسی فوجی ملک سے نکلا امریکا نے جنوبی ویتنام میں اپنے قدم جمانے شروع کردیے۔ یہ پہلے این جی اوز کی صورت آئے۔ خوراک، صحت اور تعلیم کے پھیلائو کا بہانہ بنایا۔ 1960ء کا عشرہ شروع ہوتے ہی امریکی فوجی کثیر تعداد میں یہاں آنا شروع ہوگئے۔ 1963ء میں 25 ہزار، 1964ء میں 60 ہزار، جنوری 1965ء میں ایک لاکھ 6 ہزار، فروری میں 2 لاکھ 82 ہزار، مارچ میں 3 لاکھ 91 ہزار اور اپریل 1965ء میں 5 لاکھ 43 ہزار 400 امریکی فوجی ویتنام پہنچ گئے۔
quotation.PNG

نیٹو ملکوں نے بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد اس جنگ سے ہاتھ اُٹھالیے۔ ان کے فوجی اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہونے لگے۔ امریکی ایک بند گلی میں اکیلے کھڑے ہوگئے۔

پورے کا پورا جنوبی ویتنام امریکا کی کالونی بن گیا۔ سارے ایرپورٹ، بندرگاہیں، حکومتی دفاتر پر اُس کا مکمل قبضہ ہوگیا۔ شمالی اور جنوبی ویتنام کے گوریلوں نے نیشنل لبریشن فرنٹ کے نام سے ایک خفیہ فوج بناکر امریکی افواج پر مسلسل حملے شروع کردیے۔ 30 جنوری 1969ء کو امریکا اور شمالی ویتنام کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا۔ 31 اکتوبر کو امریکا نے فضائیہ کے ذریعے ماہانہ 800 ٹن بارود برسانا شروع کردیا۔ لاکھوں ویتنام نامی باشندے ہلاک ہوئے۔ گوریلوں کے حملے زور پکڑنے لگے۔ 60 ہزار امریکی فوجی جوان ہلاک کردیے گئے۔ 12 امریکی لیفٹیننٹ جنرل اور 20 میجر جنرل موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ 3 لاکھ شدید زخمی ہوگئے۔ 2 لاکھ جنوبی ویتنامی فوجی مارے گئے۔ 7 لاکھ امریکی فوجی پاگل پن کی سرحدوں میں داخل ہوگئے۔ ایک لاکھ نے خودکشی کرلی۔ 1969ء سے 1971ء تک جونیئر امریکی فوجیوں نے اپنے سینئرز پر 730 حملے کیے۔ ان میں سے 83 کامیاب رہے۔ کرنل، بریگیڈیئر اور جنرل اُن میں مارے گئے۔ ایک لاکھ 55 ہزار امریکی فوجی جنگ کے دوران لاپتہ ہوگئے۔ انہیں ویتنام گوریلوں نے اپنا شکار بنالیا۔ دوران جنگ 5 لاکھ 3 ہزار 926 امریکیوں نے فوج سے استعفیٰ دینے کا ریکارڈ بنایا جو آج تک ٹوٹ نہیں پایا۔ امریکا روزانہ 66 ملین ڈالر اس جنگی جنون کی بھٹی میں جھونکتا رہا۔ جنوبی ویتنام کے حامیوں پر 30 ارب ڈالر سالانہ صرف کرتا رہا تاکہ وہ اُس کے زیر نگیں رہیں۔ (باقی صفحہ5پر) امریکی صدر جانسن کے خلاف اندرون ملک مظاہرے روز مرہ کا معمول بنگ ئے۔ دسمبر 1964ء کو 25 ہزار شہریوں کا جلوس نیویارک کی سڑکوں پر نکلا۔
1970ء میں 50، 50 لاکھ امریکی جلوس دیکھنے میں آنے لگے۔ صدر جانسن کا اقتدار رخصت ہوگیا۔ اُس کی جگہ رچرڈ نکسن نے لے لی۔ اُس نے ویتنام کے دو شہروں ہنوئی اور ہائی فونک پر 11 دنوں میں ایک لاکھ بم گرائے۔ ان کی مجموعی طاقت ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں سے 5 گنا زیادہ تھی۔ ان حملوں کے جواب میں امریکی فوجیوں پر گوریلوں کے حملوں میں دن بدن تیزی آتی گئی۔ امریکا کا سارا غرور خاک میں مل گیا۔ اُس کی فوجیں فنا کے گھاٹ اُترے جارہی تھیں۔ ملکی قرضے کے انباروں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ حکومت کے خلاف اندرون ملک مظاہروں کی شدت بڑھتی جارہی تھی۔ مجبوراً امریکا اقوام متحدہ کی طرف دوڑا۔ وہاں
27 جنوری 1973ء کو اُس نے اپنی ہار مان لی۔ بلامشروط انخلا پر بخوشی راضی ہوگیا۔ یوں 2 ماہ کی مدت میں 29 مارچ 1973ء کو آخری امریکی دستہ ویتنام کی سرحدوں سے نکل گیا۔ وہ جو بھوکے بھیڑیوں کی طرح ملک میں داخل ہوا تھا، چہرے بارود کے دھویں سے سیاہ، شیو مہینوں سے بڑھی ہوئی۔ اُن کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی، نہ پینے کو پانی۔ وہ گدھا گاڑیوں، ریڑھیوں اور سائیکلوں پر فرار ہورہے تھے۔ اُن کی فوجی گاڑیاں، ٹینک تباہ ہوچکے تھے۔ وہ راستے میں اپنی رائفلیں اور کارتوس بیچ کر خوراک کے چند لقمے خریدتے رہے۔ بھیک مانگ کر گزارا کرتے رہے۔ ویتنامی بستیوں سے جب اُن کا گزر ہوتا تو لوگ اُن پر تھوکتے تھے۔ اُنہیں گالیاں سننا پڑتی تھیں۔ امریکی غرور مکمل طور پر سرنگوں ہوچکا تھا۔ تکبر کے غبارے سے ہوا ساری کی ساری نکل چکی تھی۔ اُس کی سپاہ پھٹی پتنگ کی طرح اونچائی سے زمین پر آن گری تھی۔ یہ راکٹ کی طرح آسمانوں کی سمت گئی اور چھڑی کی طرح نیچے آگئی تھی۔ ایک گمنام سے ملک نے اپنے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ ایک سپر پاور کو شکست دے دی تھی۔ ذلت اور ہزیمت کی سیاہی اُس کے چہرے پر مل دی تھی۔ اُسے خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ معاشی طور پر امریکا بھکاری بن چکا تھا۔ اُس ایک مارکیٹ اکانومی تاریخ میں پست ترین سطح پر آچکی تھی۔ وہ کشکول لیے یورپی ملکوں میں پھررہا تھا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا اور اسرائیل نے اُس کی مدد کی۔ یوں اُسے واپس اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ بھیڑیے اپنے دانت گنوا بیٹھتے ہیں، پر اپنی خصلت نہیں چھوڑ سکتے۔ وقت کے ساتھ امریکی فطرت کی شیطنت دوبارہ عریاں ہوکر دنیا کے سامنے آنے لگی۔ سی آئی اے ایک بار پھر متحرک ہوئی۔ اُس نے دنیا بھر میں پراکسی جنگیں شروع کردیں۔ درجنوں ملکوں میں امریکا نے اپنے پنجے گاڑ دیے۔ وہاں کے حاکموں کو خریدلیا۔ مخالف حکومتوں کے تختے الٹ دیے۔ سرابلریان کو قتل کروادیا۔ یوں بدی کا پیکر امریکا بیسیویں صدی کے آخری ماہ و سال میں ایک بار پھر دنیا کی سپر پاور بن گیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس نے دنیاوی خدائی کے دعوے شروع کردیے۔ ویتنام کے بعد آج افغانستان وہ ملک ہے جس نے
نامرادی و ناکامی کی وافر راکھ اس کے چہرے پر مل دی ہے۔ اس کے تکبر و غرور کو پائوں تلے روند دیا ہے۔ 5 اگست کی صبح افغان ملٹری ٹریننگ اکیڈمی میں امریکا اور نیٹو کے اعلیٰ فوجی حکام موجود تھے۔ یہ افغانستان کو ملنے والے ثمرات پر لیکچر دے رہے تھے۔ اچانک ایک افغان فوجی نے آٹو میٹک گن سے اُن پر فائرنگ کردی۔ ایک ٹاپ امریکی میجر جنرل موقع پر ہلاک ہوگیا۔ ویتنام کی جنگ کے بعد یہ پہلا بڑا امریکی فوجی تھا جو ہلاک ہوا۔ زخمی ہونے والوں میں ایک امریکی بریگیڈیر جنرل، ایک جرمن بریگیڈیر جنرل اور افغان آرمی کا ایک جنرل شامل ہے۔ اس بڑے نقصان کے بعد واشنگٹن کی بدحواسیاں دیکھنے کے قابل ہیں۔ امریکا اور نیٹو ہر سال افغانستان میں 120 بلین ڈالر کا خرچہ اُٹھاتے رہے ہیں۔ امریکا نے 13 برسوں میں مجموعی 537.8 بلین ڈالر اس بے چہرہ جنگ میں جھونک دیے۔ 2152 امریکی فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ 19 ہزار 600 امریکی معذور ہوگئے۔ نیٹو کی سپاہ کے علاوہ 8 لاکھ 31 ہزار 576 امریکی فوجی افغان سرزمین پر آگ اور خون کا کھیل کھیلنے اُترے۔ انہوں نے کابل کے میئر کرزئی کو طالبان کی جگہ تخت پر بٹھایا۔ برسوں کی مسلسل کوششوں کے بعد وہ افغان سرزمین کے صرف ایک چھوٹے سے حصے پر قابض ہوسکے۔ اُن کے جنگی جہاز تباہ ہوئے۔ ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ہوائوں میں اُڑا دی گئیں۔ ان کے مورچے منہدم ہوئے۔ بارودی سرنگوں میں اُن کے پرخچے اُڑے۔ اسلحہ بارود اور فوجی سازو سامان کے ذخیرے بھک سے اُڑ گئے۔ نیٹو ملکوں نے بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد اس جنگ سے ہاتھ اُٹھالیے۔ ان کے فوجی اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہونے لگے۔ امریکی ایک بند گلی میں اکیلے کھڑے ہوگئے۔ آخرکار انہوں نے بھی عراق کے بعد افغانستان سے دبے پائوں فرار میں عافیت جانی۔ 2014ء میں انہوں نے افغان انتخابات کا ایک ڈھونگ رچایا۔ ایک کٹھ پتلی کو مسند صدارت پر فائز کرنے کی تگ و دو شروع کردی۔ اب جان کیری جلے پائوں کی بلی بنا کبھی عبداللہ عبداللہ اور کبھی اشرف غنی کے پاس جاتا ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں لڑائیاں اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ امریکا بالکل بے بس ہوکر رہ گیا ہے۔
13 برس تک افغانستان کی اینٹ سے اینت بجانے کے بعد بھی مکمل امریکی شکست افغان گلی کوچوں میں پاگلوں کی طرح ناچ رہی ہے۔ نیٹو اور امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا ہے کہ انخلاء کے بعد القاعدہ اور طالبان دوبارہ افغانستان پر اپنی گرفت مضبو ط کرلیں گے۔ وہ امریکا پر نائن الیون جیسے حملوں کی پوزیشن میں ہوں گے۔ امریکی سینیٹروں نے عراق اور افغانساتن میں بدترین امریکی پسپائی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن سینیٹر ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ سی این این نے سابق امریک صدر جمی کارٹر کا ایک گھنٹے کا انٹرویو نشر یکا ہے۔ اُس نے ویتنام کی جنگ میں امریکی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے ریکھ رکھی ہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ عراق اور افغانستان میں امریکا معاشی طور پر کنگال ہوکر رہ گیا ہے۔ نت نئے محاذ کھولنے اور جنگی الائو دہکانے نے امریکا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جمی کارٹر نے انکشاف کیا کہ صرف 2014ء میں امریکا نے اسرائیل کو 3.115 بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔ یہی امداد فلسطینیوں کے سروں پر بارود بن کر برس رہی ہے۔
عالمی شہرت یافتہ مؤرخ ٹائن بی نے اپنی کتاب اے اسٹڈی آف ہسٹری میں ایک پیشینگوئی کی تھی۔ اُس نے ایک فارمولا دیا ہے اور اُس فارمولے کی تصدیق 2 اڑھائی ہزار سال کی تاریخی مثالوں سے کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے بدی، ظلم اور شیطانیت کو نصب العین بنانے والی قوموں کو انجام کار ہولناک زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُن کی تعمیر کے بیجوں میں باربادی وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ بے محابا بدی نیکی کو نگل نہیں سکتی۔ امریکی اور یہودی جلد اپنی بے رحم اندھی طاقت کے بوجھ سے ہی ختم ہوجائیں گے۔ بے بس اور ناکس مسلمانوں کا لہو سمندر بن کر انہیں ڈبودے گا۔ شیطان کے پجاری خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والوں سے ضرور شکست کھا جائیں گے۔ یہی خدا کا فرمان ہے اور یہی دنیا کی اب تک کی ساری تاریخ کا آخری باب ہے۔ امریکا اور اسرائیل پر خدا کے قہر کی بجلیاں ضرور گریں گی۔ ان کی بربادی کی راکھ ہوائوں میں ضرور اُڑے گی۔

http://zarbemomin.com.pk/index.php/yasir-muhammad-khan/191-dosra-vetnam

 

l_pak

Politcal Worker (100+ posts)
index.jpg
image.jpg


i worked more than 2 years in Vietnam. you can see many wreckage of Vietnam war in Hanoi Army museum. there is also on B52
 

jaanmark

Chief Minister (5k+ posts)
یہ اس وقت نہیں یاد آیا جب سٹرنگر میزائیل لیتے تھے no they give us for free to save their faces within USA
 

gaozaban

MPA (400+ posts)
یہ اس وقت نہیں یاد آیا جب سٹرنگر میزائیل لیتے تھے
سٹنگر میزائل سے تو سوویت یونین کے ٹکڑے کردیئے۔ پھر یار لوگوں نے کہا کہ روس کو تو امریکہ کے ڈالروں اور اسلحے سٹنگر وغیرہ سے شکست ہوئی۔ اب امریکہ کو کس کے پیسے اور کِس کے سٹنگروں سے شکست ہو رہی ہے؟ جو لوگ خُدا کی مدد پر یقین نہیں رکھتے وہ اِس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ابھی صبر کرو اور دیکھو کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)

شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

لکھاری کی جانب سے امريکی حکومت کو ہدف تنقيد بنانے کے ليے جس طرح بڑھا چڑھا کے الفاظ اور استعاروں کا سہارا ليا گيا ہے، انھيں تو نظرانداز کيا جا سکتا ہے ليکن اپنے دلائل کو تقويت دينے کے ليے جس طرح حقائق کو مسخ کيا گيا ہے، وہ باعث حيرت ہے۔ ويت نام کی جنگ کے حوالے سے ايک عام امريکی کيا سوچتا ہے، اس سے قطع نظر يہ امريکی معاشرے ميں سب سے زيادہ زير بحث رہنے والے موضوعات ميں ہميشہ شامل رہا ہے۔ چاہے وہ امريکی ميڈيا ہو، تعليمی حلقے ہوں يا سياسی پليٹ فورمز ہر جگہ ويتنام کے حوالے سے تند وتيز جملے اور شدت جذبات سے مزين گفتگو جاری رہتی ہے۔

يہ دعوی کرنا کہ امريکی ويتنام کے لفظ سے خوف کھاتے ہيں اور اس پر بحث سے بچنے کے ليے اسے تاريخ ميں دفن کر دينا چاہتے ہيں، محض لکھاری کی کم آگہی اور ان کے دلا‏ئل کے کھوکھلے پن کو آشکار کرتا ہے۔

ويت نام کی جنگ کے خاتمے کے بعد مختلف دہائيوں ميں امريکہ کی فلم انڈسٹری نے جنگ کے موضوع پر ايسی بے شمار فلميں دنيا کے سامنے پيش کيں جن ميں امريکہ کی ويت نام کی جنگ ميں شموليت پر سخت تنقيد بھی کی گئ اور امريکہ کے مبينہ جنگی جرائم کے علاوہ فوجيوں پر جنگ کے منفی اثرات کو بھی بڑی تفصيل سے اجاگر کيا گيا۔ ان فلموں ميں امريکی فلم انڈسٹری کے بہترين اداکاروں اور ہدايت کاروں نے بہترين تخليقی کاوشوں کو برؤے کار لا کر نا صرف يہ کہ بے شمار آسکر ايوارڈز حاصل کيے بلکہ ان فلموں نے باکس آفس پر بھی مقبوليت کے نۓ ريکارڈز قائم کيے۔

ان ميں سے چيدہ چيدہ فلموں کی تفصيل پيش ہے۔





80 اور 90 کی دہائيوں ميں مشہور زمانہ ہدايت کار اوليور سٹون نے ويت نام کی جنگ کے حوالے سے اپنی تين مشہور فلميں پيش کيں۔



اسی طرح ايسی بے شمار فلموں کی تفاصيل بھی موجود ہيں جن ميں ويت نام جنگ کے دوران اور اس کے بعد فوجيوں کی حالت زار کے حوالے سے ايسے واقعات فلم بند کيے گۓ جن ميں امريکی حکومت کو منفی انداز ميں پيش کيا گيا۔

ان ميں "مسنگ ان ايکشن" (1984) اور "ريمبو: فرسٹ بلڈ پارٹ ٹو" (1985) قابل ذکر ہيں۔


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Albaghdadi.jpg
 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

تاريخ کے کسی بھی عسکری معرکے کی طرح امريکہ سميت کسی بھی معاشرے ميں اندرونی طور پر تنازعے کے ضمن ميں فوجی کاروائ کی مجموعی وسعت، لائحہ عمل اور پيش رفت کے حوالے سے مختلف آراء کا سامنے آنا اور جاری بحث ومباحثہ کوئ اچنبے کی بات نہيں ہے۔

اس قسم کی اندرونی بحث اور گفت و شنيد کا محرک اور بنياد مختلف سياسی نظريات، تاريخ کی مخصوص تشريح اور وقوع پذير ہونے والے واقعات کے تسلسل کی سمجھ بوجھ کا مجموعہ ہوتی ہے۔

تاہم ان تمام عوامل سے قطع نظر، اس ضمن ميں کوئ ابہام نہيں ہونا چاہیے کہ جب معاملہ عالمی دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کے حوالے سے ہو تو عمومی طور پر امريکی شہری اپنی حکومت کے ليے جانے والے اقدامات کی حمايت کرتے ہيں۔

جب آپ دہشت گردی سے متعلق موجودہ ايشو کے تناظر ميں جاری بحث ميں ويتنام جنگ کا حوالہ ديتے ہيں تو لامحالہ يہ تاثر ابھرتا ہے کہ دہشت گرد آج عام شہريوں کو ہلاک کرنے ميں حق بجانب ہيں اور امريکہ کو کوئ حق نہيں پہنچتا کہ وہ ان شہريوں کی مدد کو پہنچے کيونکہ ہماری اپنی تاريخ جنگی تنازعات سے عبارت ہے۔ چار دہائياں قبل ہم ويتنام کی جنگ ميں ملوث تھے اور آج امريکہ ديگر ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کرنے کے ليے جو بھی اقدامات اٹھاۓ ان کی حمايت نہيں کی جانی چاہیے کيونکہ بحثيت ملک امريکہ کبھی نا کبھی کسی جنگ کا حصہ رہ چکا ہے۔

اگر جارح قوت کو روکنے کے ليے يہ اصول عالمی سطح پر بطور پيمانہ اور لازمی شرط کے طور پراستعمال ہونے لگے تو پھر تو يقين رکھيں کہ دنيا کو کوئ بھی ملک محفوظ نہيں رہے گا کيونکہ دنيا کے اکثر ممالک اپنی تاريخ کے کسی نہ کسی دور ميں کسی نہ کسی جنگ کا حصہ رہ چکے ہيں۔

دہشت گردی آج کی حقيقت ہے۔ کئ دہائيوں اور صديوں قبل ہونے والے جنگی معرکوں کے درست يا غلط ہونے کا تعين کرنا تاريخ دانوں يا علمی بحث ميں شامل ماہرين کا کام ہے۔ ليکن ان کو بنياد بنا کر آج کے دور ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کا حوالہ دينا حقيقت سے لاتعلقی اور اس ناقابل ترديد سچ کو رد کرنے کے مترداف ہے کہ دہشت گردی صرف امريکہ کا ہی مسلہ نہيں ہے بلکہ ايک عالمی معاملہ ہے جس کے حل کے ليے تمام فريقين کی جانب سے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔



شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


[email protected]


www.state.gov


http://www.facebook.com/USDOTUrdu


Albaghdadi.jpg
 

Back
Top