گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 10 مئی کے مجرمان کی سزا معطل کردی اور رہائی کا حکم دیدیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سزا معطلی آرڈر جاری کر دیا، انسدادِ دہشتگردی عدالت نے 22 نومبر 2024 کو ملزمان کو مجموعی طور پر 5 سال 10 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان پر فیض آباد میں پولیس پر حملے اور پولیس چوکی جلانے کا الزام ہے، ریکارڈ کے مطابق کوئی ایک بھی ملزم جائے وقوعہ سے گرفتار نہیں کیا گیا، وکیل کے مطابق دہشتگردی کی دفعات سے بری کر دیا گیا اور جھوٹی سزائیں دی گئیں۔
جیو نیوز کے صحافی وجیہ ثانی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں دعویٰ کیا کہسزا معطلی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ملزمان کو چونکہ جائے وقوع سے گرفتار نہیں کیا گیا اس لئے سزا معطل رہا کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب کوئی بھی قاتل ، چور ڈاکو ، ریپسٹ یہ استدعا کرسکتا ہے کہ چونکہ مجھے جائے وقوع سے نہیں پکڑا گیا اس لئے میری سزا معطل کرکے فوری رہا کیا جائے۔ سب فورا رجوع کرلیں۔
https://twitter.com/x/status/1885265775860342869
اس پر صحافی احمد وڑائچ نے ردعمل دیا کہ پڑھنے کی عادت ڈالیں، کسی چیز کا علم نہ ہو تو چونچ بند رکھیں، کیوں کہ لاعلمی ذلیل کراتی ہے !
انہوں نے سزا معطلی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق، ملزمان کو دہشتگردی (7ATA) سمیت سے 7 سنگین دفاعت میں بری کیا گیا، ٹرائل کورٹ نے سرکاری افسران کو کام سے روکنے (353)، مسلح احتجاج (148) اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سزا سنائی۔
https://twitter.com/x/status/1885339832538587270
انکا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے پوچھا کیا ملزمان سے کوئی ہتھیار برآمد ہوا؟ جس پر تفتیشی افسر نے NO میں جواب دیا۔ سوال یہ ہے جب ہتھیار ہی نہیں ملا تو مسلح احتجاج کی دفعہ میں سزا کیسے سنائی گئی؟
احمد وڑائچ کے مطابق کارِ سرکار میں مداخلت (353) اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی (188) اتنے بڑے جرائم نہیں کہ ان میں 3 سال کی سزا سنا دی جائے، کسی عدالت سے ان دفعات میں maximum سزا نہیں ہوتی۔ اس کیس میں کیوں ہوئی؟
صحافی محمد عمیر نے کہا کہ جب ملزمان کی گرفتاری جائے وقوعہ سے ڈالی گئی ہو اور وہ وہاں سے گرفتار ہی نہ ہوئے ہوں یا وہاں اسوقت ہو ہی نہیں تو عدالت کیا کرے؟
https://twitter.com/x/status/1885267570485293559
انہوں نے مزید کہا کہ 10 مئی کلمہ چوک کی کینٹینر کو آگ لگ ساری تحریک انصاف اس مقدمہ میں نامزد ہے وہاں کوئی کارکن تھا کہ نہیں کیونکہ وہ جگہ دوپہر سے چاروں اطراف سے سیل تھی۔ 10 مئی ہی کی ٹویٹ بطور ثبوت بھی حاضر ہے۔