داعش کی کہانی
داعش کی تعریف؛
اگر داعش کی تعریف کرنی ہو،تو اس طرح کی جا سکتی ہے کہ امریکی سازش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک ایسی جہادی تنظیم، جس کی اٹھان کچھ اس طرح کی گئی ہے، کہ یہ خود کبھی کچھ حاصل نہ کر سکے، مگر دوسری جہادی تنظیموں اور تحریکوں کو بالخصوص اور اور اسلامی ممالک کو بلعموم تباہ کر سکنے، انہیں شدید نقصان پہنچانے،اور اور ان کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہوداعش کہلاتی ہے۔
غلطی کا ازالہ
اوپر جو تنظیم کی تعریف کی گئی ہے، اسے پڑھ کر یہ بات تو سمجھ آ جاتی ہے کہ لکھنے والا کوئی داعش کا حمایتی نہیں ہے، اور وہ اس تنظیم کو امریکہ کی ہی سازش گردانتا ہے(اور جس کی وضاحت آگے چل کر کی جائے گی)مگر پھر بھی ضروری ہے کہ داعش کی کہانی کو سمجھنے کے لئے کہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کر لیا جائے۔
اکثر لوگ داعش کے کارکنان کو امریکی ایجنٹ سمجھتے ہیں، گویا کہ یہ لوگ امریکی سی آئی اے سے براہ راست ہدایات لیتے ہیں۔ مگر ہم جب داعش کی بات کرتے ہیں، تو اس میں وہ دسیوں ہزار(ایک امریکی دعوے کے مطابق پچاس ہزار) لوگ بھی شامل ہیں جو امریکہ اور اتحادی بمباری میں مارے گئے، اور وہ دسیوں ہزار لوگ بھی شامل ہیں، جو اب بھی زندہ ہیں، داعش کے ساتھ منسلک ہیں۔لہذا اگر معاملہ چند درجن لوگوں کا ہوتا،تب تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ سی آئی اے کے پے رول پر ہیں، مگر جب اتنی بڑی تعداد کی بات ہو، تو یہ سوچ رکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے کہ اتنے لوگ امریکی ایجنٹ بنے ہوئے ہیں اور ویسے بھی کون شخص ہو گا جو جانتے بوجھتے امریکہ کے لئے اپنی جان کی بازی لگائے گا۔ ہاں البتہ اس حقیقت کے باوجود یہ بات پھر بھی سچ ہے کہ داعش(اپنی مرضی سے یا نا دانستگی میں) وہی کام کر رہی ہے، جو امریکہ چاہتا ہے، اور اپنی پیدائش سے لے کر ابتک کی تمام کاروائیوں میں امریکی ہاتھ صاف نظر آتا ہے۔
داعش کی پیدائش؛۔
اگر میں ایک بیج کو کسی ایسی زمین میں چھوڑ جاؤں کہ جہاں مجھے یقین ہے کہ موسمی حالات سازگار ہیں (زمین نرم ہے، بارش ضرورت کے مطابق اور وقت پر ہوتی ہے)،تو اس سے نکلنے والا پودا میری ہی کاوش کا نتیجہ ہو گا، چاہے میں اس کے نکلنے کے وقت ہزاروں کلو میٹر دور ہو کیوں نہ ہوں۔یا یہ کہہ لیں کہ اگر کوئی کسی بڑے پتھر کو کسی پہاڑی کی ڈھلوان سے لڑھکائے، تو اسے پتھر کے ساتھ ساتھ بھاگنے کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف دھکا دینا کافی ہے،اور وہ پتھر وہیں پہنچ جائے گا، جہاں پھینکنے والے کی خواہش ہے(اور پتھر کو بھی یہی لگے گا کہ وہ اپنی مرضی سے جارہا ہے)۔
امریکی فوج کا انخلا، ایک اہم موڑ
چنانچہ عراق میں امریکہ نے پہلے ایک مستحکم حکومت کو جھوٹے بہانوں کا سہارا لے کر ختم کیا،انسانوں کا بے دریغ قتل کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا، اور پھر جاتے وقت حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دی، جو فرقہ واریت کے زہر سے لبالب بھرے ہوئے تھے،اور اپنے مخالفین کے لئے انتہائی متشدد سوچ رکھتے تھے، ان کے قتل عام کو ثواب کا کام سمجھتے تھے۔امریکہ جانتا تھا کہ اس حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے ذریعے سے جو اس نے فیکٹری لگائی ہےنتیجہ داعش جیسی کسی تنظیم کی صورت میں نکلے گا۔ چنانچہ یہ ضرور سچ ہے کہ جس وقت داعش کا ظہور ہوا، اس وقت امریکہ عراق سے جا چکا تھا، مگر اس کا بیچ امریکا رکھ کر گیا تھا، یا یوں کہہ لیں کہ داعش کا پتھر لڑھکا کر گیا تھا۔
چنانچہ امریکی فوج کا عراق سے انخلااس کہانی کا اہم موڑ ہے۔ امریکہ نے اس سے دہرا فائدہ اٹھایا۔ایک تو وہی کہ اپنے پیچھے جن لوگوں کو حکومت دی ہے انہوں نے اقلیت پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرنا تھا، دوسرا یہ کہ اگر لاکھوں امریکی فوج کے ہوتے ہوئے داعش سر اٹھاتی، تو پھر یقینا یہ سوال بھی سراٹھاتا کہ اتنی امریکی فوج کے ہوتے ہوئے داعش کیونکر اتنی مظبوط ہو گئی(صرف نام سن کر عراقی فوج جس طرح پورا شہر خالی کر دیتی تھی، اگر امریکی فوج اس طرح کرتی تواس کی عزت خاک میں مل جاتی)۔لہذا اس پلان کے لئے امریکی فوج کا انخلا لازمی شرط تھا۔اور اگر کوئی یہ کہے کہ امریکی فوج کا انخلا عراقی حکومت کی درخواست پر ہوا تھا، تو یقینا اس کی عقل کو سلام، کہ کیا امریکا نے عراق پر حملہ اس کی حکومت کی درخواست پر کیا تھا؟؟؟ اور ویسے بھی غلام کب سے اس بات کا فیصلہ کرنے لگے کہ آقا نے کب جانا ہے؟؟۔
اس کے علاوہ افغانستان کی موجودہ صورت حال بھی اس بات کی دلیل ہے کہ امریکا کا ٹھہرنا یا انخلا ہر دو صورت میں مقصد صرف انارکی پھیلائے رکھنا ہے۔
افغانستان کی صورت حال؛۔
افغانستان میں صورت حال عراق کے بلکل الٹ ہے۔ اگرچہ امریکہ سترہ سال سے افغان فوج کو ٹریننگ دے رہا ہے، اورساٹھ ستر ارب ڈالرسے زائد کٹھ پتلی فوج پر خرچ کر چکا ہے، لیکن اگر آج امریکی فوج انخلا کر لے، تو چند مہینوں میں یہ پورا کٹھ پتلی ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے گا، اور مجاہدین پورے افغانستان کو کنٹرول کر کے امن و امان کو بحال کر دیں گے، اور عراق جیسی انارگی پیدا ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔مگر جس طرح امریکی جانتے تھے کہ عراق سے نکلنے کی صورت میں انارکی پھیلے گی، اسی طرح وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ افغانستان سے انخلاکرنے سے اس پورے خطے میں امن و امان کی صورت حال میں ڈرامائی مثبت تبدیلی آئے گی، اسی لئے وہ عراق سے انخلا کر گئے، اور افغانستان میں(جانی و مالی نقصان اٹھانے کے باوجود) انخلا سے مسلسل انکاری ہیں کہ اصل مقصد اسلامی دنیا کو انتشارمیں رکھنا ہے، اب چاہے یہ مقصد انخلاسے حاصل ہو یا جارحیت جاری رکھنے سے۔
بہرحال اگر کسی کو اوپر کئے گئے اس دعوے پر شک ہے کہ امریکی فوج کا عراق سے انخلا داعش کی شروعات کئے لئے ایک اہم قدم تھا، تو اسے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ امریکہ جہاں کیڑے کی ٹانگ پر بھی پی ایچ ڈی ہوتی ہے، اور جہاں پینٹا گون میں سارے عالی دماغ جمع ہیں، اور جو لوگ اگلے سو سال کی پلاننگ کے لئے مشہور ہیں، وہ اتنے بھولے ہیں کہ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکے کہ اگر امریکی فوج نے موجودہ حالات میں عراق سے انخلا کیا تو کیا ہو گا؟خصوصا جب کہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مستقبل قریب میں وہ عرب بہار کے نام سے مشرق وسطی خصوصا شام میں گند پھیلانے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔
پیدائش سے خلافت کے اعلان تک۔
امریکہ نے صرف داعش کی پیدائش کے لئے ہی حالات سازگار نہیں کئے، بلکہ اسے موجودہ صورت میں لانے کے لئے بھی مسلسل مدد فراہم کی جاتی رہی اور اسے باقاعدہ خلافت کے اعلان کی طرف دھکیلا گیا۔
آپ کو بھول گیا ہوتو اور بات ہے، مگر ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح ہم رات کو سوتے تھے تو کچھ نہیں تھا، مگر صبح اٹھ کر اخبار دیکھتے تو پتا لگتا کہ داعش نامی تنظیم نے کرکوک پر قبضہ کر لیا۔ صبح تک کچھ نہیں تھا، مگر شام کو اطلاع ملتی کہ پورے موصل پر داعش کا جھنڈا لہرا رہا ہے، اور عراقی فوج کئی سو ملین ڈالر، اور سینکڑوں ہموی گاڑیاں داعش کو تحفے میں دے کر فرار ہو گئی ہے۔کوئی بھی فوج کتنی ہی بزدل کیوں نہ ہو، اس طرح کا طرز عمل نہیں دکھاتی، یقینا اس کے پیچھے کسی غیر مرئی طاقت کی کارستانی تھی۔ اور اگر عراقی فوج اتنی ہی بزدل تھی، تو دو سال بعد اس میں اتنی طاقت اور بہادری کہاں سے آ گئی کہ وہ شدید جنگ لڑ کرموصل اور دوسرے علاقے آزاد کر وا لے۔اس کے علاوہ امریکی فوج کا تضاد بھی ملاحضہ ہو۔ وہی امریکہ جو افغانستان میں ایک بھی اہم شہر کو طالبان کے قبضہ میں جانے سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے، اور اگر چلا جائے تو فورا سے پیشتر اپنی پوری قوت کو استعمال کرتا ہے، چاہے اس کے لئے اسے ہسپتال میں بمباری کرنی پڑے، یا سویلین آبادی پر بموں کی بارش کرنی پڑے، مگر وہی امریکہ داعش کے موصل پر "قبضہ"اور خلافت کے اعلان پر پہلے ہی یہ کہہ دیتا ہے کہ داعش سے موصل کا قبضہ دو سال بعد چھڑایا جائے گا(اور واقعی ایسا ہوتا بھی ہے، اور اس مشق میں پورا موصل اور رقہ کھنڈر بنا دیا جاتا ہے)۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ داعش سے یہ فتوحات (جسے اس وقت "لاینٹننگ فاسٹ"کہا گیا)اس لئے کروائیں گئیں کہ اس سے خلافت کا اعلان کروانا مقصود تھا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اوباما نے بغدادی سے فرمائش کی، اور بغدادی نے اس خواہش کے احترام میں خلافت کا اعلان کر دیا، بلکہ حالات ہی اس طرح کے پیدا کئے گئے کہ خلافت کا اعلان کرتے ہی بنی۔ ظاہر ہے کہ مسلمان ویسے ہی خلافت کے خواب دیکھتے رہتے ہیں اور مختلف تحریکیں پہلے ہی چل رہی تھیں، اور پھر اگر ایک ایسی جہادی تنظیم، جو مخالفین کے آخری درجے کے مظالم سہنے کے ردعمل میں وجود میں آئی ہو، اور صبح شام یوں علاقے بجلی کی تیزی سے اس کی عمل داری میں شامل ہو رہے ہوں (اور ساتھ میں اربوں ڈالر سالانہ مالیت کی آئل فیلڈز اور ڈھیر سارا مال غنیمت ہاتھ آ رہا ہو)، اور اگر اس کی قیادت میں چھپنے لارنس آف عریبیہ ٹائپ کے ایجنٹ اس بارے میں فیڈنگ اور لابنگ بھی کر رہے ہوں تو پھر خلافت کا اعلان تو بنتا ہی تھا۔ سو وہ ہو گیا۔
داعش بنانے کے مقاصد کیا تھے؟
ظاہر ہے کہ امریکہ نے اتنی گہری پلاننگ کھیل تماشے کے لئے تو نہیں کی تھی، بلکہ اس کے پیچھے گہرے مقاصد تھے،جن میں سے چند ایک کا اجمالی جائزہ ذیل میں لیا جاتا ہے۔
جہادی پوٹینشل کا ضیاع
ایسے لوگ جو احیاء اسلام اور اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوں، کفار کی نظر میں سب سے خطرناک قسم کے مسلمان ہوتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ایک پی ایچ ڈی شخص مغرب کی رنگینیاں چھوڑ کر، خلافت کے چکر میں ایسی زمین میں بسنے کے لئے تیار ہوجہاں ہر وقت بم برستے ہوں، توقربانی کا ایسا جذبہ رکھنے والے لوگ یقینا مغرب کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں (جبکہ ہمارا اپنا یہ حال ہے کہ اگر کسی کے پاس چھوٹی سی بھی ڈگری آ جائے تو پہلی کوشش ہی مادر وطن سے بھاگنے کی ہوتی ہے)۔اس قسم کے ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، سائنسدان وغیرہ کسی بھی مملکت یا حکومت کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔چنانچہ ضرورت تھی ایک ایسی جنگ کی بھٹی کی جس میں گھسیٹ کر مستقبل کے اس پوٹنشل کو ختم کیا جائے۔اور اس کے لئے خلافت کارڈ کو استعمال کر کے ایسے تمام پوٹینشل کا خاتمہ کیا گیا کہ جس کے بارے میں کفار کو خطرہ تھا کہ کہیں صحیح ہاتھوں میں پڑ کر صحیح طور سے استعمال نہ ہو جائے اورمسلمان پھر سے کفریہ غلامی سے نکل کر اپنی نشاۃ ثانیہ کی منزل حاصل نہ کر لیں۔
اس کے علاوہ مغرب کوایک اور خطرہ" لان وولف اٹیک " سے تھا۔ ابھی ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک امریکی بڈھا بلا مقصد ہی پانچ سو افراد کو ہلاک و زخمی کر دیتا ہے۔چنانچہ مغرب کواس خطرہ کا اندازہ تھا کہ ہماری ظالمانہ پالیسیوں کی وجہ سے مغرب میں بسنے والے مسلمانوں میں جو غم و غصہ کی جو کیفیت ہے، وہ ان کے لئے شدید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اب تمام مسلمانوں کو دیس بدر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ نہ صرف اس کا جواز موجود نہیں تھا، بلکہ اس طرح ان ممالک کو نقصان، اور ان اسلامی ممالک کو فائدہ ہوتا جہاں یہ ٹرینڈاور تجربہ کار مسلمان واپس جاتے۔لہذا ان لاکھوں مسلمانوں میں سے ان چند ہزار جذباتی مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کے لئے ایک" خلافت میگنٹ" کی ضرورت تھی، جو داعش کی صورت میں سامنے آیا۔ اور پھر ہوا بھی ایسا ہی، یہ تمام لوگ کشاں کشاں خلافت کے چکر میں شام و عراق جا کر پھنس گئے، اور اکثر یت ماری گئی، اور جو بچ گئے وہ حکومتوں کے عتاب کا شکار ہوں گے، اور نظروں میں ہوں گے یامختلف الزامات میں گرفتار یا ہلاک کر دیئے جائیں گے۔(یاد رہے ان مغربی حکومتوں نے سوائے بیان بازی کرنے کے، ان لوگوں کوروکنے کی کبھی کوئی سیرئس کوشش نہیں کی، جس سے ان کی نیت کا پتا بخوبی چل جاتا ہے کہ یہ بھی یہی چاہتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ وہاں لے جا کر انہیں کس انجام سے دوچار کیا جانا مقصود ہے)۔
خلافت کی بدنامی
مسلمانوں کے پاس آخری خلافت ترکی میں عثمانی خلافت کی صورت میں موجود تھی۔ اگرچہ مسلمان پچھلے دو تین سو سال سے مشکلات کا شکار ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ جب تک خلافت قائم تھی، مسلمانوں کی عالمی سیاست اور مارکیٹ میں کچھ نہ کچھ حیثیت قائم تھی۔خلیفہ اور خلافت ایک سائبان کی طرح مسلمانوں کے سروں پر قائم تھی، جہاں مسلمانوں کی اشک شوئی یا شنوائی کا کچھ نہ کچھ انتظام ہو سکتا تھا۔
مگر جب سے عثمانی خلافت ختم ہوئی، تب سے مسلمان خلافت کے احیا کے لئے کوشاں ہیں۔ داعش کی خلافت کا ایک مقصد مسلمانوں کو اس نام سے اتنا ڈرانا اور متنفر کرنا ہے کہ آئندہ کئی سو سال تک مسلمان اس لفظ سے بھی ڈرنے لگیں۔جو لوگ اس سمت میں کوئی کام کر رہے ہیں وہ بد دل ہو جائیں،یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔
لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔
داعش کا ایک اور بڑا اورانتہائی اہم ترین مقصد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جہادی تحریکوں اور تنظیموں پر قابو پانا ہے۔جب کچھ عرصہ پہلے ایران میں مذہبی انقلاب برپا ہوا، تو ساری اسلامی دنیا کے مذہبی حلقوں نے اس کا خیر مقدم کیا، اور اسے بارش کا پہلا قطرہ سمجھ کر یہ آس لگائی کہ دنیا کے دوسرے خطوں میں موجود اسلامی تحریکوں کو اس سے تقویت پہنچے گی۔ مگر ایرانی ملاؤں نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو ترویج دی، ایک متوازی طاقت کے طور پر سامنے آئے، جس کا فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہوا۔بعینہ داعش کی شام اور عراق کی کامیابیوں پر اول اول تمام دنیا کے مسلمانوں اور مجاہدین نے خوشی کا اظہار کیا، مگر خلافت کے اعلان کے بعدجہادی تنظیموں کے لئے داعش کی شکل میں ایک خطرناک دشمن شامنے آیا، یعنی اب نہیں کفار کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے بھی لڑنا تھا، جو کچھ عرصہ پہلے تک ان کے اتحادی تھے۔
جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، اسی طرح داعش کے ذریعے ان تنظیموں کی ٹوٹ پھوٹ، اندر سے بغاوت (انسائیڈ آوٹ)اور آپسی لڑائی میں مشغول کرنا بڑے مقاصد میں شامل تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈالروں کے لئے تو شاید بہت کم لوگ غداری کرتے ہوں، مگر داعش کے خلافتی پروپگنڈے میں آ کر کتنے ہی لوگ اپنی سابقہ تنظیموں کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔اور ظاہر ہے کہ سارے پروپیگنڈے میں نہیں آئیں گے، لہذا آپسی لڑائی شروع ہونا بدیہی امر ہے۔
چنانچہ آج داعش افغانستان میں طالبان کے ساتھ، فلسطین میں حماس کے ساتھ، صومالیہ میں الشباب کے ساتھ، فلپائن میں مورو لبریشن فرنٹ اور ابو سیاف کے ساتھ جنگ میں مشغول ہے۔شام کے محاذ پر دوسری جہادی تنظیموں مثلا احرار الشام وغیرہ کو امریکی یا ظالم اسدی فوجوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا، جتنا داعش کے ساتھ جنگ میں پہنچا ہے۔
خانہ جنگی؛
داعش کو خلافت کی طرف دھکیلنے کا ایک اور بڑا مقصد اسلامی ممالک میں انتشار اور انارکی پھیلانا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ خلاف لندن، نیویارک یا پیرس میں تو قائم نہیں ہو گی، بلکہ ایسی علاقوں میں ہو گی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو۔اور جب داعش ان علاقوں میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوشش کرے گی، تو پھر وہاں کی پولیس فوج اور انتظامیہ سے اس کا ٹکراؤ لازمی امر ہے، چنانچہ داعش کی کاروائیوں کا رخ ذیادہ تر مسلمان ممالک میں ہی رہے گا، اور پھر وہ دھماکے ہوتے رہیں گے، جیسا کہ آج کل(پاکستان، افغانستان، ترکی، فلسطین، مصر، بنگلہ دیش وغیرہ میں) دیکھنے میں آ رہے ہیں۔اس کے علاوہ داعش کا ڈراوا دے کرمختلف ممالک خصوصا عرب ممالک کے حکمرانوں سے اپنے مطالبات منوانا بھی اس کے مقاصد میں شامل تھا۔
داعشی خلافت کی پرورش
امریکا کی یہ سازش صرف داعش کی تخلیق اور اسے خلافت کی طرف لے جانے تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس کو پھیلنے میں جہاں جہاں ضرورت ہوئی، کہیں محسوس، اور کہیں غیر محسوس طریقے سے پوری پوری مدد فراہم کی گئی۔اس مدد میں اس کے ذرائع آمدن مثلا تیل کی آمدنی کو نہ روکنا، "غلطی" سے ہتھیار اس کی طرف پھینک دینا، کئی سال تک اسے مہلت دینا وغیرہ شامل ہیں، وہیں سب سے اہم مدد اس کی" فری مارکٹنگ" کرنا ہے۔
فری مارکٹنگ؛
آپ کی پراڈکٹ کتنی ہی جان دار اور شاندار ہو، جب تک لوگ اس کو جانیں گے نہیں، اس وقت تک کوئی اسے خریدے گا نہیں۔لہذا اس کی مارکٹنگ ضروری ہے۔ اب کیونکہ امریکا کی یہ خواہش تھی کہ جس سازش کو اس نے جنم دیا ہے اسے پروان چڑھایا جائے، لہذا اس کی خوب مارکٹنگ کی گئی، اوروہ بھی فری۔اس نکتے کی وضاحت میں ایک اور تھریڈ میں کی جا چکی ہے،جسے یہاں ملاحضہ کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ تھریڈ جنوری دو ہزار سولہ کا ہے۔
نفسیاتی گرہیں.۔
اور اگر کسی کو یہ لگے کہ یہودی یا امریکی میڈیا تو داعش کے مظالم کو منظر عام پر لاتا تھا، تو اس سے اس کی مدد کیسے ہو گئی؟۔ تو اسکے لئے ایک نفسیاتی گرہ کو سمجھنا ضروری ہے۔یعنی ایک ہی خبر کا ری ایکشن مختلف لوگ مختلف طریقے سے دیتے ہیں۔ مثلا حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیاگیا۔اب یہی خبر ن لیگ والوں کے لئے پہاڑ بن کر ٹوٹی، جب کہ تحریک انصاف اور دوسروں کے لئے اس سے بڑھ کرخوشی کی بات کوئی نہیں تھی۔ اب خبر ایک ہے، مگر ردعمل بلکل مختلف ہے۔اسی طرح جب ایک مسلمان جو کفار کے مختلف ممالک میں جاری بدترین مظالم کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے، اسے جب یہ پتا لگتا ہے کہ ایک نئی تنظیم نے اتنے دشمنوں کو ہلاک کر دیا، تو اس کا ردعمل مختلف ہوتا ہے،بنسبت اس شخص کے جو اسے اس تناظر میں نہیں دیکھتا۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ امریکہ تو ساری دنیا میں داعش کے خلاف لڑ رہا ہے، اس پر مدر آف آل بم پھینک رہا ہے، وہ بھلا کیسے اس کی مدد کر رہا ہے، تو یہ بھی ایک نفسیاتی گرہ ہے۔امریکا کا مقصد داعش کو ایک حد کے اندر تک زندہ رکھنا ہے، یعنی نہ بلکل ختم کرنا(کہ اس سے وہ تمام کام لینے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا)، اور نہ اتنا بڑھنے دینا کہ وہ واقعی اس کے لئے خطرہ بن جائے۔چنانچہ کچھ حملے واقعی ختم کرنے کے لئے ہوتے ہیں (جیسا کہ موصل کی یا رقہ کی بمباری) اور کچھ اسے بڑھاوا دینے کیلئے ہوتے ہیں، جیسا کہ افغانستان میں فضائی اور ڈرون حملے۔جب امریکہ کسی تنظیم کا نام لے کر ڈرون حملہ کرتا ہے، تو اس میں مرنے والے بے گناہ لوگوں کے رشتہ داروں کے پاس انتقاما اس تنظیم میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ لہذا امریکہ جان بوجھ کر سویلین آبادی پر ڈرون حملے کرتا رہا ہے تا کہ اس سے داعش کی نفری میں اضافہ ہو، کہ یہی ان کا مقصد ہوتا ہے، اور بہت سی جگہوں پر ایسا ہوا بھی۔(جس دن امریکہ نے افغانستان میں مدر آف آل بم گرایا، اس سے ایک ہفتے کے اندر داعش ننگر ہار کے ایک ضلع پر قابض ہو گئی، اور ایسا ہونا محض اتفاق نہیں تھا)۔
جن لوگوں پر بموں کی ماں گرائی جائے گی، ان سے پھر کسی رحم کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اور امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ سات سمندر پار، ان لوگوں کی پہنچ سے بہت دور ہے، چنانچہ وہ بموں کی ماں گرئے یا باپ، اس کا جو بھی ردعمل ہو گا، وہ وہاں کی مقامی آبادی اور مقامی کٹھ پتلیوں کو ہی بھگتنا ہو گا۔چنانچہ اگر ایک ایک دن میں سینکڑوں لوگ مساجد و بازار میں مارے جائیں، تو یہ عین امریکی منشا کے مطابق ہے۔
ایران؛ ایک اہم مہرہ۔
داعش کی کہانی ایران کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔اس پوری پلاننگ میں ایران، امریکا کا ایک اہم اتحادی اور مہرہ رہا ہے، اور اس کے بغیر داعش کی یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔اب یہاں میں "امریشیعی" اتحاد پرنئے سرے سے بحث نہیں چھیڑوں گا کہ یہ اس تھریڈ کا موضوع نہیں، اور اس پر پہلے ہی درجنوں تھریڈز اور پوسٹیں ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں، البتہ یہاں ایک اہم سوال کا جواب مطلوب ہے کہ آخر ایران نے کیونکر اس سازش کا حصہ بننا گوارا کیا جبکہ وہ جانتا تھا کہ اسے اس جنگ میں نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا، اور ہزاروں جانوں کی قربانی دینی پڑے گی۔اس کے جواب کے لئے یہ تصور کریں کہ امریکی صدر اپنے ایرانی ہم منصب کو فون کر کے یہ کہے کہ اگر وہ اس سازش میں حصہ دار نہیں بنے گا، تو داعش سے لڑنا تو اسے ہر صورت پڑے گا، لیکن اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ نہ صرف اس سے کہیں ذیادہ بندے مارے جائیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ شام و عراق یمن اور لبنان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم پہلے سے موجود تھے، چنانچہ شام و عراق میں غلبہ کے لئے یہ جنگ آج نہیں تو کل بہرحال ہونی ہی تھی،البتہ اس سازش میں شمولیت کااسے یہ فائدہ ہوا کہ وہ نہ صرف سستے داموں میں چھوٹ گیا، بلکہ وہ مقاصد بھی حاصل کر لئے جو شاید دوسری صورت میں کبھی حاصل نہ کر پاتا۔
حاصل کلام؛۔
کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد یا وجہ کو سمجھاجائے۔داعش کا مسئلہ یقینا ایک گھمبیر مسئلہ ہے، مگر اسے حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہو کہ یہ کن حالات کی وجہ سے منظر عام پر آئی ،کون کون اس کی مدد کس کس طریقے سے اور کن مقاصد کے لئے کر کر رہا ہے۔ ان پس پردہ قوتوں اور مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے جنہوں نے اس پوری سازش کے تانے بانے تیار کئے، اور پوری دنیا خصوصا اسلامی دنیا میں قتل و غارت کے کلچر کو پروان چڑھایا۔لہذا جب تک اس سازش کے پیچھے چھپی کفریہ طاقتوں اور ان کے ہمنوائوں(امریکہ یورپ ایران بشارالاسد وغیرہ)کی چیرہ دستیوں کو نہیں سمجھا جائے گا اس وقت تک اس کا توڑ کرنا مشکل ہے۔اور جب تک ایسا نہیں ہوتا،(خدا نخواستہ) کفار اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو کفار کی چالوں اور سازشوں سے محفوظ رکھے، اور توفیق دے کہ کفار کی سازشیں ان پر ہی الٹ سکیں ،ور مسلمانوں کو ان کے مظالم سے محفوظ کرے، اور تمام مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔