
خیبرپختونخوا اور پنجاب پولیس کے افسران کے قبل از وقت تبادلے روک دیئے گئے۔۔لاہور کے 9 سی سی پی اوز اور 8 آئی جیز کو 7 جون 2018ء سے 29 اگست 2022ء کے درمیان تبادلے ہوئے تھے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ نے صوبائی حکومت کے پولیس افسران کی سیاسی بنیادوں پر تبادلوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبرپختونخوا اورپنجاب پولیس کے افسران کے پولیس آرڈر 2002ء پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے قبل از وقت تبادلوں کو روکنے کا حکم دے دیا ہے تاکہ بڑھتے جرائم کے باعث عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے۔
محمد جاوید اور رانا طاہر سلیم کی طرف سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ لاہور کے 9 سی سی پی اوز اور 8 آئی جیز کو 7 جون 2018ء سے 29 اگست 2022ء کے درمیان تبادلے ہوئے تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ مقررہ وقت سے پہلے تبادلے کی وجوہات تحریری طور پر بتانا ہونگی اور کسی بھی افسر کو مشاورت کے بغیر نہیں ہٹایا جائے گا۔ انہوں نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور سندھ میں ایسا ہی گڈگورننس کا یہی فارمولہ اپنا لیا جائے؟ چیف جسٹس سندھ اور بلوچستان پولیس سے بھی تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں۔
پنجاب حکومت قانون پر عمل کرے گی یا عدالت اس کا حکم دے؟ صوبائی حکومت سے ہدایات لے کر آگاہ کیا جائے۔اپنے ریمارکس دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدم تحفظ اور جرائم بڑھنے کے باعث عوام متاثر ہو رہے ہیں، اراکین اسمبلی کے کہنے پر پولیس افسران کے تبادلے نہیں ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 3 سال سے پہلے قانون کے مطابق ڈی پی او یا سی پی او کا تبادلہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ تعیناتی آئی جی کا اختیار ہے، کیا تمام تعیناتیاں وہ کرتے ہیں؟ افسران کو قانون کے مطابق قبل از وقت ہٹانے پر پابندی نہیں لیکن تاثر ہے پولیس کا سیاسی استعمال کیا جا رہا ہے، قواعدوضوابط پر عمل کیا جائے ۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی افسران کو دیگر کاموں سے علیحدہ ہونا ہو گا، ان کا الگ کیڈر ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے کام میں آزاد ہوں۔ پولیس میں تفتیش کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، ناقص شواہد کی بنا پر ملزمان کو فائدہ ہوتا ہے، پولیس ملزمان کو فائدہ دیگی تو مظلوم کہاں جائینگے؟
دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ پولیس افسران کے تبادلے مشاورت سے ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان پر حملے کا مقدمہ سیاسی مداخلت کے باعث ہی درج نہیں ہو رہا تھا اور سپریم کورٹ کو اندراج مقدمہ کا حکم دینا پڑا۔ اگر پنجاب حکومت قانون پر عمل کرے تو عدالت حکم کی ضرورت نہ پڑے۔
خیبرپختونخوا میں قتل اور وکلاء پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ نوٹس کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت نے پولیس تبادلوں کی رپورٹ جمع نہیں کرائی، عدالت نے نوٹس لیا کیونکہ عوام متاثر ہو رہی ہے، تبادلوں، پوسٹنگز کے باعث سارا نظام متاثر ہوا۔ عدالت نے مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایات جاری کر دیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/bandial.jpg