ملا نصرالدین روز اپنے صحن میں بیٹھ کر اونچی آوازمیں ایک ہی دعا مانگے جا رہے تھے. اے الله ہزار اشرفیوں کی تھیلی آسمان سے پھینک. پوری ہزار ہوں. اگر ایک بھی کم ہوئی تو تھیلی نہ رکھوں گا. ہمسایے کے صحن میں پھینک دوں گا
ہمسایہ اپنے صحن میں بیٹھا بہت دن یہ سنتا رہا. آخر اس کو شرارت سوجھی .اس نے نو سو ننانوے اشرفیاں ایک تھیلی میں بھریں. یہ تھیلی اس نے ملا کے صحن میں پھینک دی اور کان لگا کر سننے لگا. ملا نے پہلے تو دعا پوری کرنے پر الله کا شکر ادا کیا اور پھر اونچی آواز میں اشرفیاں گننے لگے. نو سو ننانوے پوری ہونے پر کہا الله میں نے تو ہزار مانگی تھیں تو نے ایک کم دی ہے لیکن کوئی بات نہیں، ایک بعد میں دے کر حساب پورا کر دینا. فلحال میں ان سے گزارا کر لیتا ہوں
اب ہمسایہ جو امید لگائے بیٹھا تھا کہ تھیلی اب واپس آئی کے اب آئی، بہت سٹپٹایا. بھاگا ملا کے پاس گیا کہ بھائی مذاق بہت ہو گیا، میری تھیلی واپس کرو. ملا نے کہا کہ کونسی تھیلی. تھیلی تو الله نے آسمان سے میرے صحن میں پھینکی ہے. جاؤ اپنا راستہ لو
ہمسایہ اب دوسرے ہمسایوں کے پاس گیا لیکن انہوں نے بھی دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ملا کے حق میں فیصلہ دے دیا. ملا فتح کے بگل بجاتے اپنے گھر کو چلے اور ہمسایہ روتا دھوتا اپنے گھر کو. پھر کچھ دیر بعد وہ پھر ملا کے گھر گیا اور کہا کہ میرے پاس کوئی چارا نہیں سواے یہ کہ تجھے قاضی کی عدالت میں لے جاؤں. ملا نے کہا کہ دیکھ لینا بھائی، اگر وہاں سے بھی فیصلہ میرے حق میں ہو گیا تو پھر تجھے تسلیم کرنا ہو گا. ہمسایے نے حامی بھر لی. پھر ملا نے کہا کہ تیری مالی حالت مجھ سے بہت بہتر ہے. قاضی تیرا اچھا لباس اور سواری دیکھ کر تجھ سے متاثر ہو جاۓ گا. مجھے بھی بہترین لباس دے اور اپنا سب سے اچھا گھوڑا میری سواری کے لیے حاضر کر. ہمسایے نے بھاگم بھاگ یہ شرائط بھی پوری کر دیں. اب یہ دونوں سمیت ہمسایوں کے لاؤ لشکر کے چلے قاضی کی عدالت کی طرف
قاضی نے ہمسایے کی بات سنی اور ملا سے جواب طلب کیا. ملا نے کہا کہ جناب اس شخص کو عادت ہے کہ دوسرے کی ہر چیز دیکھ کر اپنی ملکیت کا دعوا کر دیتا ہے. مجھے تھیلی آسمان سے پھینکی گئی، یہ ساتھ والے صحن میں موجود تھا تو بس کہہ دیا کہ تھیلی اس کی ہے. ہمسایہ بولا کہ جناب تھیلی واقعی میری ہے. ملا نے کہا کہ صرف تھیلی ہی نہیں، آپ اس سے پوچھ لیجئے، یہ کہے گا کہ جو لباس میں نے پہنا ہے، وہ بھی اسی کا ہے. اب ہمسایہ بولا کہ جناب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ لباس واقعی میرا ہے. ملا بولے کہ اور تو اور اس سے پوچھ لیجئے تو یہاں تک کہہ دے گا کہ میں جس گھوڑے پر بیٹھ کر آیا ہوں وہ بھی اسی کا ہے. ہمسایہ کچھ کہتا کہتا رک گیا. جھوٹ بولے تو قیمتی گھوڑے سے جاتا ہے، سچ بولے تو اشرفیاں اور گھوڑے دونوں سے جاتا ہے
خان فیصلہ تسلیم تو کر چکا. خاموش رہے تو پچھلی سب محنت ضائع ہوتی ہے. سوال اٹھاۓ تو سب کہتے ہیں اس کو تو عادت ہے
ہمسایہ اپنے صحن میں بیٹھا بہت دن یہ سنتا رہا. آخر اس کو شرارت سوجھی .اس نے نو سو ننانوے اشرفیاں ایک تھیلی میں بھریں. یہ تھیلی اس نے ملا کے صحن میں پھینک دی اور کان لگا کر سننے لگا. ملا نے پہلے تو دعا پوری کرنے پر الله کا شکر ادا کیا اور پھر اونچی آواز میں اشرفیاں گننے لگے. نو سو ننانوے پوری ہونے پر کہا الله میں نے تو ہزار مانگی تھیں تو نے ایک کم دی ہے لیکن کوئی بات نہیں، ایک بعد میں دے کر حساب پورا کر دینا. فلحال میں ان سے گزارا کر لیتا ہوں
اب ہمسایہ جو امید لگائے بیٹھا تھا کہ تھیلی اب واپس آئی کے اب آئی، بہت سٹپٹایا. بھاگا ملا کے پاس گیا کہ بھائی مذاق بہت ہو گیا، میری تھیلی واپس کرو. ملا نے کہا کہ کونسی تھیلی. تھیلی تو الله نے آسمان سے میرے صحن میں پھینکی ہے. جاؤ اپنا راستہ لو
ہمسایہ اب دوسرے ہمسایوں کے پاس گیا لیکن انہوں نے بھی دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ملا کے حق میں فیصلہ دے دیا. ملا فتح کے بگل بجاتے اپنے گھر کو چلے اور ہمسایہ روتا دھوتا اپنے گھر کو. پھر کچھ دیر بعد وہ پھر ملا کے گھر گیا اور کہا کہ میرے پاس کوئی چارا نہیں سواے یہ کہ تجھے قاضی کی عدالت میں لے جاؤں. ملا نے کہا کہ دیکھ لینا بھائی، اگر وہاں سے بھی فیصلہ میرے حق میں ہو گیا تو پھر تجھے تسلیم کرنا ہو گا. ہمسایے نے حامی بھر لی. پھر ملا نے کہا کہ تیری مالی حالت مجھ سے بہت بہتر ہے. قاضی تیرا اچھا لباس اور سواری دیکھ کر تجھ سے متاثر ہو جاۓ گا. مجھے بھی بہترین لباس دے اور اپنا سب سے اچھا گھوڑا میری سواری کے لیے حاضر کر. ہمسایے نے بھاگم بھاگ یہ شرائط بھی پوری کر دیں. اب یہ دونوں سمیت ہمسایوں کے لاؤ لشکر کے چلے قاضی کی عدالت کی طرف
قاضی نے ہمسایے کی بات سنی اور ملا سے جواب طلب کیا. ملا نے کہا کہ جناب اس شخص کو عادت ہے کہ دوسرے کی ہر چیز دیکھ کر اپنی ملکیت کا دعوا کر دیتا ہے. مجھے تھیلی آسمان سے پھینکی گئی، یہ ساتھ والے صحن میں موجود تھا تو بس کہہ دیا کہ تھیلی اس کی ہے. ہمسایہ بولا کہ جناب تھیلی واقعی میری ہے. ملا نے کہا کہ صرف تھیلی ہی نہیں، آپ اس سے پوچھ لیجئے، یہ کہے گا کہ جو لباس میں نے پہنا ہے، وہ بھی اسی کا ہے. اب ہمسایہ بولا کہ جناب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ لباس واقعی میرا ہے. ملا بولے کہ اور تو اور اس سے پوچھ لیجئے تو یہاں تک کہہ دے گا کہ میں جس گھوڑے پر بیٹھ کر آیا ہوں وہ بھی اسی کا ہے. ہمسایہ کچھ کہتا کہتا رک گیا. جھوٹ بولے تو قیمتی گھوڑے سے جاتا ہے، سچ بولے تو اشرفیاں اور گھوڑے دونوں سے جاتا ہے
خان فیصلہ تسلیم تو کر چکا. خاموش رہے تو پچھلی سب محنت ضائع ہوتی ہے. سوال اٹھاۓ تو سب کہتے ہیں اس کو تو عادت ہے