صحافی انصار عباسی کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ابتدائی رابطے کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیںابتدائی رابطوں کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن کا مقصد باضابطہ مذاکرات کے آغاز کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ملاقاتوں میں فریقین نے اعلیٰ سطح پر نمائندگی کی، جن میں پہلے ایک ایک نمائندہ شامل تھا جبکہ دوسری ملاقات میں ہر جانب سے تین افراد شریک ہوئےے مطابق اگر مذاکرات کا عمل کامیاب رہا تو یہ پیشرفت پی ٹی آئی کی 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کی کال واپس لینے کا باعث بن سکتی ہے۔
مذاکرات کے باضابطہ آغاز سے پہلے فریقین اپنی اعلیٰ قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے حتمی منظوری لیں گے۔
عمران خان کو ان رابطوں کا علم ہے اور وہ پارٹی کے دیگر متعلقہ افراد کے بارے میں بھی آگاہ ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے کابینہ کے بیشتر ارکان ان ملاقاتوں سے بے خبر ہیں
ملاقاتوں میں دونوں جانب سے مطالبات پیش کیے جائیں گے، تاہم فوری طور پر پی ٹی آئی کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا امکان نہیں۔ مزید یہ کہ مذاکرات براہ راست پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہیں ہوں گے۔
یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ مذاکرات سے پہلے دونوں فریقوں کو کئی اہم نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا
دوسری جانب صحافی عامر خاکوانی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ سوچنے والی بات ہے کہ عمران خان پر ایک اور پرچہ کیوں کرا دیا گیا ہے؟ کیا یہ اس لئے کہ عدالتوں سے ضمانت ہونے کے بعد خان کو چھوڑنا نہ پڑ جائے یا پھر یہ حکومت کی جانب سے ہے کہ کہیں ہم سے بالابالا مذاکرات کامیاب نہ ہوجائیں ؟ اس سے تو یوں لگ رہا ہے کہ مذاکرات کسی وزیر سے ہورہے تب بھی وہ اصلاً اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کر رہا ہے ۔
https://twitter.com/x/status/1859485089010417786
صحافی انصار عباسی کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ابتدائی رابطے کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیںابتدائی رابطوں کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن کا مقصد باضابطہ مذاکرات کے آغاز کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ملاقاتوں میں فریقین نے اعلیٰ سطح پر نمائندگی کی، جن میں پہلے ایک ایک نمائندہ شامل تھا جبکہ دوسری ملاقات میں ہر جانب سے تین افراد شریک ہوئےے مطابق اگر مذاکرات کا عمل کامیاب رہا تو یہ پیشرفت پی ٹی آئی کی 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کی کال واپس لینے کا باعث بن سکتی ہے۔
مذاکرات کے باضابطہ آغاز سے پہلے فریقین اپنی اعلیٰ قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے حتمی منظوری لیں گے۔
عمران خان کو ان رابطوں کا علم ہے اور وہ پارٹی کے دیگر متعلقہ افراد کے بارے میں بھی آگاہ ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے کابینہ کے بیشتر ارکان ان ملاقاتوں سے بے خبر ہیں
ملاقاتوں میں دونوں جانب سے مطالبات پیش کیے جائیں گے، تاہم فوری طور پر پی ٹی آئی کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا امکان نہیں۔ مزید یہ کہ مذاکرات براہ راست پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہیں ہوں گے۔
یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ مذاکرات سے پہلے دونوں فریقوں کو کئی اہم نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا
دوسری جانب صحافی عامر خاکوانی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ سوچنے والی بات ہے کہ عمران خان پر ایک اور پرچہ کیوں کرا دیا گیا ہے؟ کیا یہ اس لئے کہ عدالتوں سے ضمانت ہونے کے بعد خان کو چھوڑنا نہ پڑ جائے یا پھر یہ حکومت کی جانب سے ہے کہ کہیں ہم سے بالابالا مذاکرات کامیاب نہ ہوجائیں ؟ اس سے تو یوں لگ رہا ہے کہ مذاکرات کسی وزیر سے ہورہے تب بھی وہ اصلاً اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کر رہا ہے ۔
https://twitter.com/x/status/1859485089010417786
nafsiyati jali sahafi retaierd budha ooh bhai jaha 15 minut ki mulaqat ki ejazar na hu waha ghanti mulaqat hu rahi hai jail me or idhar se udhar pegham a ja rahy hai or ye shb bahadur kehty hai k hukumat se bat hu rahi hai is hukumat ki auqat hai kia ye sub jante hai
صحافی انصار عباسی کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ابتدائی رابطے کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیںابتدائی رابطوں کے بعد دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن کا مقصد باضابطہ مذاکرات کے آغاز کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ملاقاتوں میں فریقین نے اعلیٰ سطح پر نمائندگی کی، جن میں پہلے ایک ایک نمائندہ شامل تھا جبکہ دوسری ملاقات میں ہر جانب سے تین افراد شریک ہوئےے مطابق اگر مذاکرات کا عمل کامیاب رہا تو یہ پیشرفت پی ٹی آئی کی 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کی کال واپس لینے کا باعث بن سکتی ہے۔
مذاکرات کے باضابطہ آغاز سے پہلے فریقین اپنی اعلیٰ قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے حتمی منظوری لیں گے۔
عمران خان کو ان رابطوں کا علم ہے اور وہ پارٹی کے دیگر متعلقہ افراد کے بارے میں بھی آگاہ ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے کابینہ کے بیشتر ارکان ان ملاقاتوں سے بے خبر ہیں
ملاقاتوں میں دونوں جانب سے مطالبات پیش کیے جائیں گے، تاہم فوری طور پر پی ٹی آئی کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا امکان نہیں۔ مزید یہ کہ مذاکرات براہ راست پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہیں ہوں گے۔
یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ مذاکرات سے پہلے دونوں فریقوں کو کئی اہم نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا
دوسری جانب صحافی عامر خاکوانی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ سوچنے والی بات ہے کہ عمران خان پر ایک اور پرچہ کیوں کرا دیا گیا ہے؟ کیا یہ اس لئے کہ عدالتوں سے ضمانت ہونے کے بعد خان کو چھوڑنا نہ پڑ جائے یا پھر یہ حکومت کی جانب سے ہے کہ کہیں ہم سے بالابالا مذاکرات کامیاب نہ ہوجائیں ؟ اس سے تو یوں لگ رہا ہے کہ مذاکرات کسی وزیر سے ہورہے تب بھی وہ اصلاً اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کر رہا ہے ۔
https://twitter.com/x/status/1859485089010417786