منہ زور کی کبھی نہ چھپ سکنے والی کتاب ،، نوجوانان شرستان،،سے ایک صفحہ
بھائی جاوید چودہری
محترم جاوید چودہری، ٹاک شوز کی ،،مال پکڑ،، دنیا میں ایک معتبر کارندے یعنی اینکر کے کے نام سے پہچانے جاتےہیں،اینکر انگریزی زبان کا لفظ ہے،یہ بڑے بڑے جہازوں کو سمندر کی موجوں کےتھپڑوں سے بچا کر ایک جگہ قائم رہنے میں مدد دیتا ہے،چونکہ ٹاک شو کے میزبان،قوم کے بیشتر غاصبوں کو قوم سے بچا
کرانہیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد دیتے ہیں ،اسلئے انہیں اینکر کہا جاتا ہے
آپ کی زندگی،نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہےآپ نےدیکھتے دیکھتے ایک مقام پاکر ملک کے سسکتے،بلکتے میرٹ کی دہائیاں دیتے ہوئے نوجوانوں کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ
،،،، اگر انسان میں لگن ہو،اگر انسان میں محنت ہو،کام کے انسان کی پہچان ہو،اوراگراسے کام کے آدمی کو پکڑ کر لٹک جانے کا فن آتا ہو،ہزار دکھے ،ہزار جوتے کھا کر بھی کام کے انسان سے چپکا رہنے کی ہمت ہو، تو بندہ پنڈ کی کوٹھری سے بحریہ ٹاؤن کی کوٹھی تک پہونچ ہی جاتا ہے،،،،
دوسری قسط
اسکے ساتھ ساتھ شخصیت بچپن سے ہی کچھ ایسی مقناطیسی تھی ،کہ گھر کے ہر فرد کی توجہ ہمہ وقت ان ہی کی طرف رہتی تھی،کہ دیکھیں کیا افتاد گرانے والا ہے،بوڑھا بچہ جوان ہر کوئی آپکے نام کی مالا جپتا نظر آتا تھا،،گھر میں ہر وقت آپکا نام نامی اسم گرامی گونجتا رہتا،،اوئے جیدے،،نا کر،،اؤئے
جیدے ،ہانڈی میں نہ گھس،،اؤئے جیدے مج پہ نہ چڑھ
مگرآپ اس عمر میں بھی اسقلال کے ایسے پیکر اور ایسے عظیم عامل بہ عمل تھے کہ اور تو کسے باشد خود ابا کے منع کرتے کرتے ہاتھ کیا پاؤں بھی تھک جائیں،مگر نہیں ،جو انہیں کرنا ہوتا،کرکے ہی مانتے تھےانکے انہیں پٹواریانہ طور طریقے اور اسکی ٹوپی اسکے سر رکھنے میں مہارت دیکھ کر ،بڑوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں اسکول داخل کرا کر جان چھٹالی جائے ،کیونکہ پرانے وقتوں میں خاندان کی عزت کو بیٹے پر قوقیت دی جاتی تھی ،،وقت آج جیسا نہ تھا کہ سیٹھ کی نہ جانے کونسی خدمت کرکے ،،اینکر ،،بن جانے والا دو ٹکے کا چھوکرا بھی، باپ سے بڑی عمر کے عالم باعمل کے منہ پر چھوٹ سچ بول کر
رگڑے دے اور کیمرے کی طرف دیکھ کر خبیثانہ انداز میں مسکرائے،،
بہر حال ایسا ہی کیا گیا،،اسکول میں داخل کرادیا گیا،،آپ نے اسکول پاس کیا، شائد کالج بھی پاس کیا، اور یونیورسٹی بھی،لیکن ذہنی پختگی کی وجہ سے
تعلیم انکا کچھ نہ بگاڑ پائی،اور نہ انکی ر وزی کیلئے کوئی معقول ٹھکانہ مہیا کر سکی۔چونکہ ڈگری،ماس کمیونیکیشن کی تھی،اور اسی فیلڈ میں گھس بیٹھنے میں زیادہ سہولت نظرآرہی تھی،آپ نے اخبارات کے چکر لگانا اور۔۔پوے،،ڈھونڈنا شروع کردئےاور جیسا کہ اصول ہے کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں کوئی نا کوئی،،پوا،،کام دکھاہی جاتا ہے،انکا کام بھی بن گیااگرچہ ریکارڈ میں اس پوے کا نام تونہیں ہے ،جس نے قوم کے سر،، اسکا یہ عظیم سرمایہ چڑھایا،،مگر قرائن بتاتیں ہیں ایسا ہوا ضرور ،،،،،
آپ نے ٹاک شو کے تخت شاہی پر نزول فرمانے سے پہلے ،نوائے وقت،پاکستان ٹائمز،امت،اور پھر کام کے صحافی بنانے کی درسگاہ عظیم یعنی جنگ میں ملازمت کی،،اور نام کمایا،،،لیکن پیسہ؟ بندہ کے پاس پیسہ نہ ہو تو نام کو کیا چاٹے گا،اب اقبال کے شاہین کو ہی لے لیں ،کیسا بڑا نام ہے،مگر پہاڑوں کی چٹانو ں پر ہی بسیرا کرتا نظرآتا ہے،کسی ہوٹل،کلب،کسی شیرٹن،انٹرکانٹیننل کے بال روم میں تو کیا،اسکے دروازے پر ہی نظرآجائے دو ٹکے کا چوکیدار بھی ایسا ،،ہش،،کرکے بھگائے ،کہ حضرت اقبال بھی ہائیں ہائیں ہی کرتے رہ جائیں،
قبلہ چودہری صاحب کو بھی پیسہ کی عزت،حرمت،طاقت،اور شرافت کا اندازہ تھا،حصول کی تڑپ آپ کو بے چین کئے رکھتی تھی،جب یہ اپنے سینئر صحافیوں اور استادوں کو،،مزے ،،کرتے دیکھتے، انہیں بڑے بڑے لوگوں کے ڈراینگ روموں ،بلکہ خواب گاہوں میں،بیٹھے دیکھتے ، ،جب انہیں ہنستے بولتے،چہلیں کرتے ،لڑکھڑاتے،بڑبڑاتے،پلیٹوں پر جھپٹتے اور گلاسوں کو چھینتے دیکھتے،دوستانہ دھکم دھکی،اور ایک دوسرے پر گرتے دیکھتے،تو مچل کے رہ جاتے،مگردل مسوسنے کے علاوہ کیا کرا جاسکتاتھا انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے ،جب اسکےکالر کا ناپ 14،ہوتا ہے،اور حسد
کرنے اور غیبت کرنے کے علاوہ اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتا،
لیکن جیسا کہ دستور ہے،قسمت اگر کسی کو ستاتی ہے تو اسے دوسروں کو ستانے کے موقعے بھی دیتی ہے،
جلد ہی،سگریٹ بنانے والے سیٹھ نے میڈیا سے مال بنانے کیلئے، اخبار نکالاآپ نے سیٹھ کو دھندے میں نیا پاکر موقع غنیمت جانا،ادھر پہونچ گئے،اور جلد ہی ،،سوائے شاہزیب خانزادے کے،، سب پرچھا گئے،اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہر نئی آرگنائیزیشن، ایسی حلوآئی کی دوکان ہوتی ہے جس پر اپنے دادا جان کی تو کیا،،پنڈ بھر کے داداؤں کی فاتحہ آرام سے دی جاسکتی ہے،،بس ہمت ہونی چاہئے،اور ہمت کی ادھر کمی نہیں تھی،
مگر نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں ہوتا،کسی کام کی جگہ پہونچنے کیلئے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں،زندگی دوستوں،رشتہ داروں، ہمعصروں،اور مالکان کی شکل میں کیسا ذلیل کرتی ہے اور کیسے جوتے کھلاتی ہے یہ انسان کی شکل اور اطوار سے اسکی کامیابی کے بعد بھی صدیوں تک ظاہر ہوتا رہتا ہےلیکن ظاہر ہےکوئی،،مقام،،پکڑلینے کے بعد،اپنی فیلڈ کا ٹھیکیدار اور اپنے جونیئر پر چودہری بننے کے بعد انسان کو اس چیز کی پروا ہ بھی نہیں ہوتی،کہ لوگ اسکے پیچھے اسے کیا کہہ رہے ہیں
دوسرے اگر دیکھا جائے توایک پینڈو اس معاملہ میں کر بھی کیا سکتا ہے، زیادہ سے زیادہ ،،شلوار چھوڑ کر ،،سوٹ پہننے لگتا ہے،شیو امریکن بلیڈ سے،اور خوشبو فرانس کی لگانے لگتا ہے،، اور کیا کرسکتا ہے ،اپنی ذاتی سرشت تو نہیں بدل سکتا نا،،،،،،،سوچنے کی بات ہے
بقیہ آئیندہ
بھائی جاوید چودہری
محترم جاوید چودہری، ٹاک شوز کی ،،مال پکڑ،، دنیا میں ایک معتبر کارندے یعنی اینکر کے کے نام سے پہچانے جاتےہیں،اینکر انگریزی زبان کا لفظ ہے،یہ بڑے بڑے جہازوں کو سمندر کی موجوں کےتھپڑوں سے بچا کر ایک جگہ قائم رہنے میں مدد دیتا ہے،چونکہ ٹاک شو کے میزبان،قوم کے بیشتر غاصبوں کو قوم سے بچا
کرانہیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد دیتے ہیں ،اسلئے انہیں اینکر کہا جاتا ہے
آپ کی زندگی،نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہےآپ نےدیکھتے دیکھتے ایک مقام پاکر ملک کے سسکتے،بلکتے میرٹ کی دہائیاں دیتے ہوئے نوجوانوں کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ
،،،، اگر انسان میں لگن ہو،اگر انسان میں محنت ہو،کام کے انسان کی پہچان ہو،اوراگراسے کام کے آدمی کو پکڑ کر لٹک جانے کا فن آتا ہو،ہزار دکھے ،ہزار جوتے کھا کر بھی کام کے انسان سے چپکا رہنے کی ہمت ہو، تو بندہ پنڈ کی کوٹھری سے بحریہ ٹاؤن کی کوٹھی تک پہونچ ہی جاتا ہے،،،،
دوسری قسط
اسکے ساتھ ساتھ شخصیت بچپن سے ہی کچھ ایسی مقناطیسی تھی ،کہ گھر کے ہر فرد کی توجہ ہمہ وقت ان ہی کی طرف رہتی تھی،کہ دیکھیں کیا افتاد گرانے والا ہے،بوڑھا بچہ جوان ہر کوئی آپکے نام کی مالا جپتا نظر آتا تھا،،گھر میں ہر وقت آپکا نام نامی اسم گرامی گونجتا رہتا،،اوئے جیدے،،نا کر،،اؤئے
جیدے ،ہانڈی میں نہ گھس،،اؤئے جیدے مج پہ نہ چڑھ
مگرآپ اس عمر میں بھی اسقلال کے ایسے پیکر اور ایسے عظیم عامل بہ عمل تھے کہ اور تو کسے باشد خود ابا کے منع کرتے کرتے ہاتھ کیا پاؤں بھی تھک جائیں،مگر نہیں ،جو انہیں کرنا ہوتا،کرکے ہی مانتے تھےانکے انہیں پٹواریانہ طور طریقے اور اسکی ٹوپی اسکے سر رکھنے میں مہارت دیکھ کر ،بڑوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں اسکول داخل کرا کر جان چھٹالی جائے ،کیونکہ پرانے وقتوں میں خاندان کی عزت کو بیٹے پر قوقیت دی جاتی تھی ،،وقت آج جیسا نہ تھا کہ سیٹھ کی نہ جانے کونسی خدمت کرکے ،،اینکر ،،بن جانے والا دو ٹکے کا چھوکرا بھی، باپ سے بڑی عمر کے عالم باعمل کے منہ پر چھوٹ سچ بول کر
رگڑے دے اور کیمرے کی طرف دیکھ کر خبیثانہ انداز میں مسکرائے،،
بہر حال ایسا ہی کیا گیا،،اسکول میں داخل کرادیا گیا،،آپ نے اسکول پاس کیا، شائد کالج بھی پاس کیا، اور یونیورسٹی بھی،لیکن ذہنی پختگی کی وجہ سے
تعلیم انکا کچھ نہ بگاڑ پائی،اور نہ انکی ر وزی کیلئے کوئی معقول ٹھکانہ مہیا کر سکی۔چونکہ ڈگری،ماس کمیونیکیشن کی تھی،اور اسی فیلڈ میں گھس بیٹھنے میں زیادہ سہولت نظرآرہی تھی،آپ نے اخبارات کے چکر لگانا اور۔۔پوے،،ڈھونڈنا شروع کردئےاور جیسا کہ اصول ہے کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں کوئی نا کوئی،،پوا،،کام دکھاہی جاتا ہے،انکا کام بھی بن گیااگرچہ ریکارڈ میں اس پوے کا نام تونہیں ہے ،جس نے قوم کے سر،، اسکا یہ عظیم سرمایہ چڑھایا،،مگر قرائن بتاتیں ہیں ایسا ہوا ضرور ،،،،،
آپ نے ٹاک شو کے تخت شاہی پر نزول فرمانے سے پہلے ،نوائے وقت،پاکستان ٹائمز،امت،اور پھر کام کے صحافی بنانے کی درسگاہ عظیم یعنی جنگ میں ملازمت کی،،اور نام کمایا،،،لیکن پیسہ؟ بندہ کے پاس پیسہ نہ ہو تو نام کو کیا چاٹے گا،اب اقبال کے شاہین کو ہی لے لیں ،کیسا بڑا نام ہے،مگر پہاڑوں کی چٹانو ں پر ہی بسیرا کرتا نظرآتا ہے،کسی ہوٹل،کلب،کسی شیرٹن،انٹرکانٹیننل کے بال روم میں تو کیا،اسکے دروازے پر ہی نظرآجائے دو ٹکے کا چوکیدار بھی ایسا ،،ہش،،کرکے بھگائے ،کہ حضرت اقبال بھی ہائیں ہائیں ہی کرتے رہ جائیں،
قبلہ چودہری صاحب کو بھی پیسہ کی عزت،حرمت،طاقت،اور شرافت کا اندازہ تھا،حصول کی تڑپ آپ کو بے چین کئے رکھتی تھی،جب یہ اپنے سینئر صحافیوں اور استادوں کو،،مزے ،،کرتے دیکھتے، انہیں بڑے بڑے لوگوں کے ڈراینگ روموں ،بلکہ خواب گاہوں میں،بیٹھے دیکھتے ، ،جب انہیں ہنستے بولتے،چہلیں کرتے ،لڑکھڑاتے،بڑبڑاتے،پلیٹوں پر جھپٹتے اور گلاسوں کو چھینتے دیکھتے،دوستانہ دھکم دھکی،اور ایک دوسرے پر گرتے دیکھتے،تو مچل کے رہ جاتے،مگردل مسوسنے کے علاوہ کیا کرا جاسکتاتھا انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے ،جب اسکےکالر کا ناپ 14،ہوتا ہے،اور حسد
کرنے اور غیبت کرنے کے علاوہ اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتا،
لیکن جیسا کہ دستور ہے،قسمت اگر کسی کو ستاتی ہے تو اسے دوسروں کو ستانے کے موقعے بھی دیتی ہے،
جلد ہی،سگریٹ بنانے والے سیٹھ نے میڈیا سے مال بنانے کیلئے، اخبار نکالاآپ نے سیٹھ کو دھندے میں نیا پاکر موقع غنیمت جانا،ادھر پہونچ گئے،اور جلد ہی ،،سوائے شاہزیب خانزادے کے،، سب پرچھا گئے،اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہر نئی آرگنائیزیشن، ایسی حلوآئی کی دوکان ہوتی ہے جس پر اپنے دادا جان کی تو کیا،،پنڈ بھر کے داداؤں کی فاتحہ آرام سے دی جاسکتی ہے،،بس ہمت ہونی چاہئے،اور ہمت کی ادھر کمی نہیں تھی،
مگر نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں ہوتا،کسی کام کی جگہ پہونچنے کیلئے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں،زندگی دوستوں،رشتہ داروں، ہمعصروں،اور مالکان کی شکل میں کیسا ذلیل کرتی ہے اور کیسے جوتے کھلاتی ہے یہ انسان کی شکل اور اطوار سے اسکی کامیابی کے بعد بھی صدیوں تک ظاہر ہوتا رہتا ہےلیکن ظاہر ہےکوئی،،مقام،،پکڑلینے کے بعد،اپنی فیلڈ کا ٹھیکیدار اور اپنے جونیئر پر چودہری بننے کے بعد انسان کو اس چیز کی پروا ہ بھی نہیں ہوتی،کہ لوگ اسکے پیچھے اسے کیا کہہ رہے ہیں
دوسرے اگر دیکھا جائے توایک پینڈو اس معاملہ میں کر بھی کیا سکتا ہے، زیادہ سے زیادہ ،،شلوار چھوڑ کر ،،سوٹ پہننے لگتا ہے،شیو امریکن بلیڈ سے،اور خوشبو فرانس کی لگانے لگتا ہے،، اور کیا کرسکتا ہے ،اپنی ذاتی سرشت تو نہیں بدل سکتا نا،،،،،،،سوچنے کی بات ہے
بقیہ آئیندہ
Last edited by a moderator: