جنرل فیض کے کہنے پر چینل بند نہیں کیے،شاید مریم اورنگزیب نے ایساکیاہو،عباسی

3abbabsivchansnsninasag.png

جنرل فیض حمید ان دنوں خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں, فوجی تحویل میں لینے کے بعد بڑے انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں,سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ک انہوں نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے کہنے پر پاکستان کے نیوز چینلز بند نہیں کیے تھے، تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ شاید ان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے خود سے چینلز بند کرنے کی ہدایت دی ہو کیونکہ یہ معاملہ ان کے سامنے آیا ہی نہیں مگر اس کے باوجود وہ بطور وزیراعظم اپنے دور کے کاموں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں عوام پاکستان کے بانی رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی جنرل فیض حمید سے پہلی ملاقات عمران خان کے دور میں آرمی چیف جنرل باجوہ کے گھر ہوئی تھی,ان سے پوچھا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کہتے ہیں کہ اس وقت کے ڈی جی سی جنرل فیض نے ان سے کہا تھا کہ یا 92 چینل کھول دیں یا سب چینل بند کریں۔ ابصار عالم کے انکار پر وزیراعظم سے کہلوا کر سب چینل بند کروا دیے گئے۔

اس سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی جنرل فیض سے بطور وزیراعظم ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نہ جنرل فیض نے اس معاملے میں ان سے کوئی بات کی، نہ ہی ابصار عالم صاحب نے کبھی بات کی۔ان کا کہنا تھا ’جو چینل بند ہوئے مجھے حقیقتاً یاد نہیں مگر چلیں مان لیتا ہوں کہ چینل بند ہوئے، اگر ہوئے تھے تو پھر میری وزیر یعنی مریم اونگزیب نے خود یہ ہدایت دی ہوگی۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ معاملہ مجھ سے کبھی ڈسکس ہوا ہو,ان کا مزید کہنا تھا کہ بہرحال اگر یہ فیصلہ ہوا تو میں بطور وزیراعظم اس کا ذمہ دار ہوں ،مجھ پر تنقید کرسکتے ہیں۔


شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ جنرل فیض حمید سے ان کی پہلی ملاقات نومبر 2018 میں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے گھر ہوئی تھی جب عمران خان وزیراعظم تھے۔

‘اس وقت جنرل باجوہ نے مجھے خواجہ آصف اور مفتاح اسماعیل کو دعوت دی تھی کہ معیشت کے موضوع پر ہمیں رائے دیں۔ ہم نے میاں نواز شریف سے اجازت لے کر ان سے ملاقات کی تھی۔ وہاں جنرل فیض مجھے گھر سے لے جانے خود آئے تھے۔

اس کے بعد پارلیمان میں ایک بل کے وقت جب جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے اس وقت ملاقات ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض ڈی جی سی رہے اور ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔ جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب ریکارٖڈ پر ہوگا۔ فوج میں ماتحت افسر ہمیشہ ہدایت لے کر کام کرتا ہے تاہم اگر خود سے کچھ کیا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں,شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید کا اوپن ٹرائل فوج کا فیصلہ ہے۔ کورٹ مارشل عموماً اوپن نہیں ہوتے۔ اکثر کورٹ مارشل ہونے والے افسران کے نام بھی نہیں آتے لیکن یہ فوج کا اپنا نظام ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتے,عمران خان سے کوئی اختلاف نہیں مگر 4 سال اقتدار میں انہوں نے ایک پیسے کا کام نہیں کیا۔ ان کی گالی گلوچ کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان آج کل جو کچھ کررہے ہیں اس کا مقصد واضح نہیں ہے۔

9 مئی 2023 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب ملک کے لوگ فوج کی تنصیبات پر حملہ آور ہوجائیں یہ بہت بڑی بات ہے، یہ سانحہ ہے۔

’اس کا مطلب وہ لوگ جتنے بھی تھے وہ حملہ آور ہوئے۔ فوجی تنصیبات پر انہوں نے آگ لگائی، توڑ پھوڑ کی،گھیراؤ کیا، اس بات کو 15 ماہ ہوگئے حکومت خاموش بیٹھی ہے کیوں؟ان سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کا ٹرائل رکا ہوا ہے تو شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جو سویلین لوگ تھے، ان کو پکڑنا چاہیے تھا۔ سول عدالتوں میں ٹرائل چلا دیتے۔

اپنے انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نہ یہ حکومت ہے اور نہ چل رہی ہے۔ حکومتیں اخلاقی اتھارٹی پر چلتی ہیں۔ جس حکومت کا مینڈیٹ ہی مشکوک ہو، صلاحیت ہی مشکوک ہو وہ کیا کرپائے گی؟ 6 مہینے گزر گئے ہیں کوئی عقل کی بات نظر آئی ہے؟
 

Back
Top