battery low
Chief Minister (5k+ posts)
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آج دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد آئینی بینچ نے کہا کہ کیس کا فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔
ملٹری کورٹس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 9 مئی کو 4 گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملوں کی تفصیل بیان کردی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تحمل کا مظاہرہ کرنے والے تین فوجی افسران کو بغیر پنشن ریٹائرڈ کرنے کی تفصیل بھی بیان کردی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے دن 3 بجے لیکر شام سات بجے تک چار گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے،23 فوجی تنصیبات پر پنجاب میں، 8 خیبرپختونخوا میں جبکہ سندھ میں ایک فوجی تنصیب پر حملہ ہوا، جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈر لاہور، میانوالی ایئر فورس، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی میں آئی ایس آئی دفاتر پر حملے ہوئے، نو مئی کا پورا واقعہ منظم تیاری کیساتھ کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پانچ بج کر چالیس منٹ پر شام کو کور کمانڈر لاہور پر حملہ ہوا، شام پانچ چالیس سے لیکر 9 بجے تک لاہور کور غیر فعال رہی، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی، رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو نو مئی کو ہوا، راولپنڈی میں ایک سابق وزیراعظم کو 2007 میں قتل کیا گیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان تین ساڑھے تین سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی نو مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ 9 مئی کے جرم سے کسی کو انکار نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، تین اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، بغیر پینشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ان 14 افسران کو آگے ترقینہیں ملے گی، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی نو مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آآرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کےساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مؤقف اپنایا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنے والے افسران کیخلاف کارروائی کی گئی۔
جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خود کو آگ لگائی خودسوزیاں کیں، کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کو چیک کر کے بتاوں گا کیسے ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نو مئی کو جو ہوا جرم کی نیت سے ہی ہوا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟ ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا؟ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کر گیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ نو مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے نو مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی، میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، نو مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ نو مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کیلئے دینا ممکن نہ ہوں، کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والا جنرل کور کمانڈر لاہور تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا۔
جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔
مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے، ترمیم کی گئی، قانون میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں سے سزائوں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں، اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے باقیوں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دینگے، آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بیس منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کیلئے رکھے گئے ہونگے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ شارٹ آرڈر اسی ہفتے میں جاری کریں گے، اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اپیل کا حق دینے کیلئے سپریم کورٹ کا آئینی بنچ آبزرویشن دے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے۔
بھارتی میڈیا چلا رہا ہے کہ انڈیا نے پاکستان میں 2 مقامات کو لاک کر رکھا ہے
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اس فیصلے میں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ جب قانون ہی کالعدم ہو گیا تو اپیل کا سوال ہی نہیں ہے، حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ 2014 کے دھرنے میں وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ، ریڈیو اسٹیشن پر حملے کیے گئے، وہاں بھی ہجوم حملہ آور ہوا، 2014 کے دھرنے میں وزیراعظم کو وزیر اعظم ہاؤس سے باہر نکالنے کا منصوبہ تھا، وہ کیسز عام عدالتوں میں چلائے گئے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ وہ دلائل نہ دیں جو حقائق سے متعلقہ ہیں، حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا چلا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں دو مقامات کو لاک کر رکھا ہے، ایک کوٹ لکھپت جیل اور دوسرا جوہر ٹاؤن لاہور۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، بے فکر رہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے، حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ میرا بیٹا بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے۔
Source
آج دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد آئینی بینچ نے کہا کہ کیس کا فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔
ملٹری کورٹس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 9 مئی کو 4 گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملوں کی تفصیل بیان کردی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تحمل کا مظاہرہ کرنے والے تین فوجی افسران کو بغیر پنشن ریٹائرڈ کرنے کی تفصیل بھی بیان کردی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے دن 3 بجے لیکر شام سات بجے تک چار گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے،23 فوجی تنصیبات پر پنجاب میں، 8 خیبرپختونخوا میں جبکہ سندھ میں ایک فوجی تنصیب پر حملہ ہوا، جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈر لاہور، میانوالی ایئر فورس، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی میں آئی ایس آئی دفاتر پر حملے ہوئے، نو مئی کا پورا واقعہ منظم تیاری کیساتھ کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پانچ بج کر چالیس منٹ پر شام کو کور کمانڈر لاہور پر حملہ ہوا، شام پانچ چالیس سے لیکر 9 بجے تک لاہور کور غیر فعال رہی، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی، رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو نو مئی کو ہوا، راولپنڈی میں ایک سابق وزیراعظم کو 2007 میں قتل کیا گیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان تین ساڑھے تین سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی نو مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ 9 مئی کے جرم سے کسی کو انکار نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، تین اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، بغیر پینشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ان 14 افسران کو آگے ترقینہیں ملے گی، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی نو مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آآرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کےساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مؤقف اپنایا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنے والے افسران کیخلاف کارروائی کی گئی۔
جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خود کو آگ لگائی خودسوزیاں کیں، کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کو چیک کر کے بتاوں گا کیسے ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نو مئی کو جو ہوا جرم کی نیت سے ہی ہوا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟ ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا؟ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کر گیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ نو مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے نو مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی، میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، نو مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ نو مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کیلئے دینا ممکن نہ ہوں، کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والا جنرل کور کمانڈر لاہور تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا۔
جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔
مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے، ترمیم کی گئی، قانون میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں سے سزائوں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں، اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے باقیوں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دینگے، آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بیس منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کیلئے رکھے گئے ہونگے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ شارٹ آرڈر اسی ہفتے میں جاری کریں گے، اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اپیل کا حق دینے کیلئے سپریم کورٹ کا آئینی بنچ آبزرویشن دے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے۔
بھارتی میڈیا چلا رہا ہے کہ انڈیا نے پاکستان میں 2 مقامات کو لاک کر رکھا ہے
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اس فیصلے میں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ جب قانون ہی کالعدم ہو گیا تو اپیل کا سوال ہی نہیں ہے، حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ 2014 کے دھرنے میں وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ، ریڈیو اسٹیشن پر حملے کیے گئے، وہاں بھی ہجوم حملہ آور ہوا، 2014 کے دھرنے میں وزیراعظم کو وزیر اعظم ہاؤس سے باہر نکالنے کا منصوبہ تھا، وہ کیسز عام عدالتوں میں چلائے گئے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ وہ دلائل نہ دیں جو حقائق سے متعلقہ ہیں، حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا چلا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں دو مقامات کو لاک کر رکھا ہے، ایک کوٹ لکھپت جیل اور دوسرا جوہر ٹاؤن لاہور۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، بے فکر رہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے، حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ میرا بیٹا بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے۔
Source
- Featured Thumbs
- https://i.postimg.cc/FsHWw5fJ/boyaan.jpg