
انصار عباسی کے باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا کہ مبینہ طور پر عمران خان حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنسز کے خیال کے پیچھے ان کے تین پیٹی بند بھائی ججز تھے۔
انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق جو اس وقت ایک اہم کھلاڑی تھے، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا سپریم کورٹ کے تین ججز، جو اب ریٹائر ہوچکے ہیں، انہوں نے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اقدام کرنے کے لیے ثالثوں کو آمادہ کیا اور ان کے ذریعے منصوبہ بندی کی۔
ذرائع کے مطابق اس وقت کے وزیراعظم عمران خان ابتدا میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے گریزاں تھے لیکن بعد میں وہ بھی اپنے کچھ اعلیٰ قانونی ذہنوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک قابل اعتماد آدمی کے قائل کرنے پر راضی ہو گئے۔
انصار عباسی کی رپورٹ میں بتایا کہ ذارئع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ الزام ہے کہ تینوں ججوں نے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان حکومت کے کچھ قانونی ذہنوں کے ذریعے جسٹس عیسیٰ کے خلاف سازش کی، الزام ہے کہ انہوں نے وہ معلومات بھی شیئر کیں جن کی بنیاد پر ریفرنس تیار کیا جانا تھا۔
اس اقدام کی حمایت کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو بتایا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہٹانا ’’قومی مفاد‘‘ میں ہوگا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے 23 مئی 2019 کو جسٹس عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف ان کے خاندان کے غیر ملکی اثاثوں کو ان کے دولت کے گوشوارے میں ظاہر نہ کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی)، وہ فورم جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب کر سکتا ہے، سے رجوع کیا۔
ذرائع کے مطابق حکومت کے اس اقدام کو سیاسی، قانونی اور میڈیا حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جون 2020 میں سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کے ساتھ ساتھ اس ریفرنس کی بنیاد پر شروع ہونے والی ایس جے سی کی کارروائی کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔
10 ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے ریفرنس، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ نے اپنی دولت کے گوشوارے میں برطانیہ میں اپنے خاندان کے افراد کی جائیدادیں ظاہر نہ کر کے نامعقول حرکت کیا، کے خلاف دائر کئی درخواستوں کی 6 ماہ تک سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔
اس وقت کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس دائر کیا۔ تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اپریل 2022 میں اس بات کا اعتراف کرلیا کہ جسٹس عیسیٰ کی برطرفی کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کرنا غلطی تھی۔
اسے ’’غلطی‘‘ قرار دیتے ہوئے عمران خان نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کا الزام پی ٹی آئی حکومت میں وزارت قانون پر عائد کیا تھا۔ تاہم فروغ نسیم نے اپنے ردعمل میں یہ کہتے ہوئے الزام کو مسترد کردیا کہ ریفرنس صرف سابق وزیراعظم خان کے اصرار پر پیش کیا گیا۔
فواد چوہدری نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ انہوں نے ریفرنس دائر کرنے پر اعتراض کیا تھا، بیرسٹر نسیم کو یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ یہ ان کا کام تھا۔ حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے کو مزید آگے نہ بڑھانے کے حکومتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس واپس لینے کا حکم دیا تھا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/ansaa-ash.jpg