ججز ٹرانسفر کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کا موقف

1747308773450.jpeg

لوگ یاد رکھیں کہ جب حالات مشکل تھے، ہم آئین، قانون اور عدلیہ کی آزادی کیلئے ڈٹ کر کھڑے تھے !

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس باہر ستار،جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفت نے تحریری بیان میں کہا کہ "ہم نے وکیل کی حیثیت سے اپنے پیشے میں عزت، شہرت اور مالی کامیابی حاصل کی، لیکن جب ہم نے جج کا عہدہ قبول کیا تو ہمیں تنخواہ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، پھر بھی یہ ہمارے لیے ایک اعزاز تھا، کیونکہ ہمیں عوام کی خدمت اور اس معاشرے کو کچھ لوٹانے کا موقع ملا"۔

انہون نے مزید کہا کہ "ہم نے یہ آئینی عہدے عاجزی کے ساتھ قبول کیے، یہ جانتے ہوئے کہ انصاف کرنا ایک مقدس ذمہ داری ہے، جو ایک امانت ہے، اور جس کے بارے میں ہمیں دنیا اور آخرت میں جواب دینا ہوگا"۔
https://twitter.com/x/status/1922956110249505070
پانچ ججز نے مزید کہا کہ "ہم نے جو حلف لیا، اس میں وعدہ کیا کہ ہم بغیر کسی خوف یا رعایت، یا جانبداری کے انصاف کریں گے، آئین اور قانون کے مطابق ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرنا صرف اسی صورت ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو، ہمارا یقین ہے کہ اگر کوئی جج اپنی یا اپنے ادارے کی آزادی چھوڑ دے، تو وہ نہ انصاف کی امانت کا حق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی عدلیہ کی حرمت کو قائم رکھ سکتا ہے اور جب عدلیہ کی اخلاقی طاقت ختم ہو جائے، تو اس کے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔

ججز کے مطابق "ہم اس مقدمے سے نہ کوئی ذاتی فائدہ چاہتے ہیں اور نہ ہی کوئی شہرت، اگر یہ صرف ہماری سنیارٹی کا مسئلہ ہوتا، تو شاید برداشت کیا جا سکتا تھا، لیکن جو کچھ ہوا وہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر قبضے اور اس کی آزادی کو ختم کرنے کے مترادف ہے اور یہ ناقابلِ قبول ہے،ائین کے ہائی کورٹ صرف چیف جسٹس کا نام نہیں،تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جج ہونے کا مطلب ہے کہ جو کچھ آپ کے دور میں ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری آپ پر بھی ہے۔ ہم نے عدالتی آزادی کو بچانے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے انتظامی کوششیں کیں، لیکن جب وہ کامیاب نہ ہو سکیں، تو یہ درخواست دائر کرنا ہماری آخری کوشش بن گئی۔

اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ بطور جج، ہمیں اس ملک کے عوام، تاریخ اور بالآخر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے، اور لوگ یہ یاد رکھیں کہ جب حالات مشکل تھے، ہم آئین، قانون اور عدلیہ کی آزادی کے دفاع میں ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔"
 

Back
Top