ججز بارےکسی بھی میڈیا فورم پر جو کچھ کہا ہے اس پر قائم ہوں،جبران ناصر

0jibrannasirdatagialkslsl.png

کارروائی حکومت کر رہی ہے لیکن نام سپریم کورٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے: معروف وکیل

انسانی حقوق کے وکیل جبران ناصر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا میں وکیل ہونے کی وجہ سے بار کا رکن بھی ہوں اس لیے ہمارا تبھی احترام ہو گا جب عدلیہ کا احترام ہو گا۔

میرے اوپر الزام ہے کہ میں نے قابل اعتراض ریمارکس دیئے ہیں تو وضاحت کر دوں کہ میں نے آج تک پبلک میں موجودہ یا سابق چیف جسٹس صاحبان بارے جو کچھ ٹوئٹر ، فیس بک یا کسی بھی میڈیا فورم پر جو کچھ کہا ہے اس پر قائم ہوں۔

انہوں نے کہا نہ تو میں اپنے کہے کسی الفاظ سے پیچھے ہٹ رہا ہوں نہ ہٹوں گا، نوٹس میں کہا گیا ہے کہ قابل اعتراض ریمارکس ہیں اس کا پتا نہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ میں نے عدالتی کارروائی کے طریقہ کار اور عدالتی فیصلوں پر آواز اٹھائی تھی۔

تنقید کرنا ہمارا حق ہے، ہم معاشرے میں مکالمے کے خواہشمند ہیں لیکن ساتھ ہی تضحیک کی مذمت بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا یہ نوٹس جن صحافیوں کو بھیجے گئے ہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق کی تضحیک ضرور کی گئی ہے، فریڈم آف ایکسپریشن ہمارا حق ہے۔

سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی پبلک کرنے کا اچھا فیصلہ کیا، بڑے عہدوں پر موجود بڑے لوگوں کو دل بھی بڑا کرنا چاہیے۔ سوالیہ نشان یہ ہے کہ جے آئی ٹی حکومت نے بنائی، کارروائی حکومت کر رہی ہے، نوٹسز بھی حکومت جاری کر رہی ہے لیکن نام سپریم کورٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کو پریس ریلیز میں وضاحت دینی چاہیے کہ یہ سب کچھ حکومت کر رہی ہے یا سپریم کورٹ؟ میرے خیال میں نگران حکومت سپریم کورٹ، صحافیوں اور عوام میں ایک خلیج پیدا کرنا چاہتی ہے جو ایک سازش ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ 30 جنوری کو ایف آئی اے کے سامنے کارروائی میں پیش نہیں ہوں گا، سپریم کورٹ کو اس کارروائی سے الگ ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ کو سوال اٹھانا چاہیے کہ جب سیاستدانوں، صحافیوں اور عوام کی تضحیک ہوتی ہے تو اس کی جے آئی ٹیز کہاں ہیں؟ کیا ہمیں پیغام دیا جا رہا ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر موجود لوگوں کے لیے جے آئی ٹیز بنائی جاتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ چیف جسٹس اس سوال کا جواب ضرور دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اور ان کے ادارے کا نام استعمال کیا جا رہا ہے، ہمیں امید ہے وہ اس معاملے کا نوٹس لیں گے اور حکومت کے ان منفی ایجنڈوں کی روک تھام کرے گی۔ چیف جسٹس نے صحافیوں کی درخواستوں پر 2021ء میں سوموٹو لیا تھا اور سینئر ججز اعتراض کر رہے تھے، 24 کروڑ کا معاشرہ ہے، عدالتی کارروائیوں پر تنقید ہو گی۔

https://twitter.com/x/status/1751306793005756701
واضح رہے کہ ایف آئی اے نے چیف جسٹس آف پاکستان اور اداروں کیخلاف غلط معلومات کی تشہیر پر 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے طلب کیا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق اب تک 115 انکوائریاں رجسٹر کی جا چکی ہیں اور 65 نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جن کی سماعت 30 جنوری 2024ء کو ہو گی۔
 

ashahid786

MPA (400+ posts)
موجودہ فوج اور عدلیہ اتنے ننگے ہوچکے ہیں کہ ایسی فحاشی پر چہ مگوئیاں تو ہونگی۔

یہی جبران ناصر تو اسی فائز عیسیٰ کو انصاف کا بھگوان کہتا تھا

اب حالت یہ ہے کہ کنجری کی اداؤں کو دلال بھی ڈیفنڈ نہیں کرتے۔
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
0jibrannasirdatagialkslsl.png

کارروائی حکومت کر رہی ہے لیکن نام سپریم کورٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے: معروف وکیل

انسانی حقوق کے وکیل جبران ناصر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا میں وکیل ہونے کی وجہ سے بار کا رکن بھی ہوں اس لیے ہمارا تبھی احترام ہو گا جب عدلیہ کا احترام ہو گا۔

میرے اوپر الزام ہے کہ میں نے قابل اعتراض ریمارکس دیئے ہیں تو وضاحت کر دوں کہ میں نے آج تک پبلک میں موجودہ یا سابق چیف جسٹس صاحبان بارے جو کچھ ٹوئٹر ، فیس بک یا کسی بھی میڈیا فورم پر جو کچھ کہا ہے اس پر قائم ہوں۔

انہوں نے کہا نہ تو میں اپنے کہے کسی الفاظ سے پیچھے ہٹ رہا ہوں نہ ہٹوں گا، نوٹس میں کہا گیا ہے کہ قابل اعتراض ریمارکس ہیں اس کا پتا نہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ میں نے عدالتی کارروائی کے طریقہ کار اور عدالتی فیصلوں پر آواز اٹھائی تھی۔

تنقید کرنا ہمارا حق ہے، ہم معاشرے میں مکالمے کے خواہشمند ہیں لیکن ساتھ ہی تضحیک کی مذمت بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا یہ نوٹس جن صحافیوں کو بھیجے گئے ہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق کی تضحیک ضرور کی گئی ہے، فریڈم آف ایکسپریشن ہمارا حق ہے۔

سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی پبلک کرنے کا اچھا فیصلہ کیا، بڑے عہدوں پر موجود بڑے لوگوں کو دل بھی بڑا کرنا چاہیے۔ سوالیہ نشان یہ ہے کہ جے آئی ٹی حکومت نے بنائی، کارروائی حکومت کر رہی ہے، نوٹسز بھی حکومت جاری کر رہی ہے لیکن نام سپریم کورٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کو پریس ریلیز میں وضاحت دینی چاہیے کہ یہ سب کچھ حکومت کر رہی ہے یا سپریم کورٹ؟ میرے خیال میں نگران حکومت سپریم کورٹ، صحافیوں اور عوام میں ایک خلیج پیدا کرنا چاہتی ہے جو ایک سازش ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ 30 جنوری کو ایف آئی اے کے سامنے کارروائی میں پیش نہیں ہوں گا، سپریم کورٹ کو اس کارروائی سے الگ ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ کو سوال اٹھانا چاہیے کہ جب سیاستدانوں، صحافیوں اور عوام کی تضحیک ہوتی ہے تو اس کی جے آئی ٹیز کہاں ہیں؟ کیا ہمیں پیغام دیا جا رہا ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر موجود لوگوں کے لیے جے آئی ٹیز بنائی جاتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ چیف جسٹس اس سوال کا جواب ضرور دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اور ان کے ادارے کا نام استعمال کیا جا رہا ہے، ہمیں امید ہے وہ اس معاملے کا نوٹس لیں گے اور حکومت کے ان منفی ایجنڈوں کی روک تھام کرے گی۔ چیف جسٹس نے صحافیوں کی درخواستوں پر 2021ء میں سوموٹو لیا تھا اور سینئر ججز اعتراض کر رہے تھے، 24 کروڑ کا معاشرہ ہے، عدالتی کارروائیوں پر تنقید ہو گی۔

https://twitter.com/x/status/1751306793005756701
واضح رہے کہ ایف آئی اے نے چیف جسٹس آف پاکستان اور اداروں کیخلاف غلط معلومات کی تشہیر پر 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے طلب کیا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق اب تک 115 انکوائریاں رجسٹر کی جا چکی ہیں اور 65 نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جن کی سماعت 30 جنوری 2024ء کو ہو گی۔
ججوں کو کچھ نہیں کہنا ، بس اس ٹوپی گھما کر چیف بننے والے قاضی کے پھٹے چک کے رکھو

Nwa GIF by United Wrestling Network