
سپریم کورٹ نے ججز کی تعیناتی و ترقی کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کی ترقی کیلئے صرف سینیارٹی بنیاد ہیں ہے، میرٹ و اہلیت بنیادی جزو ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نےاعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے کیس میں فیصلہ جاری کردیا ہے، پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سروس سروس میں محکما نہ ترقی کیلئے قائم کمیٹی کیلئے سینارٹی کا اصول ہی بنیادی جزو ہے، تاہم صرف سینئر ہونے کی وجہ سے کسی کو ترقی ہیں نہیں دی جاسکتی، اعلی عدلیہ میں تعیناتی و ترقی کیلئے میرٹ اور اہلیت کو بنیادی جزو مانا جانا چاہیے، اگر تمام امیدوار اہلیت اور میرٹ پر یکساں ہوں تو سینیارٹی کو اہمیت دی جائے، قابل اور اہل لوگوں کو میرٹ سسٹم کے تحت ہی آگے آنے کا موقع مل سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کی تقرری کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان یکساں اہمیت کے حامل ہیں، پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کا جائزہ نہیں لے سکتی،کیونکہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کی مہارت جوڈیشل کمیشن کے ارکان سے بالکل مختلف ہے، جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرسکتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کا کام نامزد ججوں کی اہلیت اور قابلیت جانچنا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ من پسند آبزرویشنز یا مفروضوں پر مبنی نہیں ہونا چاہیے ، کمیٹی ججز کے ناموں کو منظور یا مسترد کرسکتی ہے، واپس کمیشن کو نہیں بھجواسکتی؟
https://twitter.com/x/status/1706734260537917920
پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے کیس میں جاری فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہےجس میں ان کا کہناتھا کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا، تین منتخب وزرائے اعظم کو نااہل کیا، تاہم کسی فوجی آمریا اسکے سہولت کاروں کو سنگین غداری کے مقدمات کے تحت قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا،یہ سب اس وقت ہوا جب ججز ہی ججز کی تقرریاں کرتے تھے، اس وقت بھی کہا جاتا تھا کہ عدلیہ آزاد نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ جوڈیشل کمیشن ارکان کی اکثریت حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ہے، ججز کا تقرر ایک انتظامی عمل ہے، کمیشن کو اس میں پسند ناپسند کو مدنظر رکھے بغیر عدلیہ کی آزادی کیلئے شفاف اور میرٹ پر تقرریاں کرنی چاہیے، عدلیہ کی آزادی کو احتساب کے بغیر صوابدیدی اختیار سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/13scjusgegfaisla.png